قوم کو اٹھنا پڑے گا

280

”عید کیسی گزری کتنے جانور ذبیحہ کیے، بارش نے تباہی مچادی یا سب اچھا ہے یہ داستان پرانی ہوئی یار کوئی اور بات کرو آخر یہ نوحہ کب تک سناتے رہو گے“۔
’’فرمان بھائی یہ کراچی کا نوحہ نہیں حقائق ہیں جو ہم پر گزرے ہیں‘‘ وہ شاکر کو بتا رہے ہیں۔
”ارے چھوڑو یہ بے خبر نہیں اور نہ ہی معصوم ہے یہ تباہی ایک دن میں نہیں آئی برسوں کی خرابیوں کا مجموعہ ہے اور تم اور شاکر دونوں اس کے حصے دار ہو تمہارا شمار بھی حقوق حقوق کی مالا جپنے والوں میں ہوتا ہے تم اس شہر سے کتنے مخلص ہو خوب جانتا ہوں تم جیسوں کی اصلیت آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آ جائے گی یہ ایک دن کا چکر نہیں گزشتہ تیس برس سے اس شہر کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے تم بھی اس کے کھلاڑی ہو جب جب انتخابات قریب آتے ہیں مظلومیت کا ڈرامہ رچانے لگتے ہو اقتدار ملتے ہی اپنے آقاؤں کی خوشنودی میں لگ جاتے ہو اور جہاں تک شاکر کا تعلق ہے تو کون نہیں جانتا کہ اس کی جماعت پیپلز پارٹی گزشتہ 30سال سے صوبہ سندھ پر حکومت کررہی ہے قصہ مختصر یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی،ناانصافی اور حق تلفی میں تم لوگ ہی ملوث ہو“۔
فرمان بھائی لوگ ہمیں ووٹ دیتے ہیں ہم چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آتے اگر ہم غلط ہوتے تو لوگ مخالف ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے ہم دادرسی کرتے ہیں تبھی تو عوام ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
”تمہیں سہانے خواب دکھانے اور لوگوں کی نفسیات سے کھیلنا آتا ہے لسانی کارڈ کھیلنے کے ماہر ہو لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ہم اہل کراچی کی مزید حق تلفی نہیں ہونے دیں گے، کراچی کے عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی و ناانصافی مزید برداشت نہیں کی جائے گی الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے جیسے حربے استعمال نہیں ہونے دیں گے کراچی دشمنی پر مبنی فیصلہ کیا گیا تو اسے قبول نہیں کریں گے نوجوانوں کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیا جائے گا کبھی 11سو ارب روپے کا پیکیج تو کبھی 162ارب روپے جیسے لولی پاپ قبول نہیں کریں گے ہمیشہ کراچی کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تم دونوں کی جماعتوں نے باہمی رضامندی سے کوٹہ سسٹم کو غیر معینہ مدت تک بڑھا دیا کراچی کی آبادی آدھا کیے جانے پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے مالی فائدے حاصل کیے کیونکہ تمہاری قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اگر کراچی کی مکمل آبادی شمار کر لی جائے تو یہاں کی نمائندگی میں اضافہ ہو جائے گا اور سندھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا یوں کراچی سمیت سندھ بھر کے عوام اپنے حقیقی نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے“۔
عید کے تیسرے روز فرمان،شاکر اور ان حلقہ احباب میں ہونے والی گفتگو اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک زیادہ اہم اس زمانے کی یادیں ہیں جب کراچی کے مسائل پاکستان کے اربابِ اختیار کو پریشان کردیا کرتے تھے۔ حکومتی ممبران اسمبلی ہوں یا اپوزیشن ارکان۔ سب کا دل کراچی کے ساتھ دھڑکتا تھا۔یہاں سڑکوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔بڑی شاہراہیں ہوں یا اونچی عمارتیں۔ محلوں میں بنے پارکوں سے لے کر ساحلِ سمندر تک سب اپنی مثال آپ تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کے کونے کونے سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے۔محبتیں بانٹتے اس شہر کی وہ حسین یادیں ہر اُس شخص کے ذہن ہوں گی جس نے اُس وقت کا کراچی دیکھا ہے۔جب میرے بزرگ ماضی کی وہ باتیں جو اس شہر سے وابستہ ہیں، مجھے بتاتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں نمی صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کی آنکھوں کا نم ہونا کراچی سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج کا نوجوان شاید میری ان باتوں سے اختلاف کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ اس وقت کا سچ ہے جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا۔یہاں ہر محکمہ اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرتا۔لوگ سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے اور نہ کسی بنیادی سہولت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے۔تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں خوب نبھاتے۔پانی،صحت،تعلیم ٹرانسپورٹ کی سہولیات یہاں کے مکینوں کو میسر تھیں اگر ہم صرف بجلی کے ترسیلی نظام کو جو اُس وقت نافذ تھا،دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کی بندش کیا ہوتی ہے کوئی نہیں جانتا تھا۔ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی لوڈشیڈنگ سے کراچی کے عوام ناآشنا تھے۔اُس وقت مین ہائی ٹینشن سے صارفین کے گھروں تک بہترین تانبے کے تاروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی دی جاتی،جس سے لائن لاسز نہ ہونے کے برابر ہوتے۔وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلنے لگا،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب کچھ ختم کیا جانے لگا تو بے جانہ ہوگا۔اسے سازش کہا جائے یا تعصب کراچی دشمنی کا نام دیا جائے یا ذاتی آنا نہ جانے کس کے کہنے پر اور کس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اربابِ اختیار نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔یہاں درالحکومت کی منتقلی کا ذکر کرنا سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنا نہیں،اور نہ ہی میں کراچی اور اسلام آباد کے درمیان تفریق پیدا کرنا چاہتا ہوں۔میں تو صرف اُن مسائل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو اس فیصلے کے بعد حکمرانوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں پیدا ہوئے،جس نے اس شہر کو تباہ کرکے رکھ دیا۔تقریباً ہر محکمے کی تباہی کی ایک داستان ہے جسے اگر لکھنے بیٹھا جائے تو برسوں تک بھی ختم نہ ہوں۔ دوسرے محکموں کے مقابلے میں ’کے الیکٹرک‘ کے شکنجے میں جکڑے عوام کا حال کیا ہے،اس کی تفصیل متعدد مرتبہ میں اپنے مضامین میں تحریر کر چکا ہوں۔اِس مرتبہ اس ادارے پر لکھنے کا ارادہ صرف اس لیے کیا کہ رواں ماہ بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اس لیے جس جماعت نے ’کے۔ الیکٹرک‘ کے چہرے پر پڑے نقاب کو اتار پھینکا اس کا ذکر کرنا ضروری ہے میرا مطلب ہے کہ’کے۔ الیکٹرک‘ برسوں سے وہ مکروہ کھیل کھیلنے میں مصروف تھا جس پر کسی سیاسی جماعت نے آج تک کوئی آواز نہ اٹھائی جماعت اسلامی کراچی نے اس اہم مسئلے کو جو خالصتاً عوامی مسئلہ ہے،اٹھایا یعنی ایک مرتبہ پھر اس سفید ہاتھی کو جو غریبوں کو روندتا جا رہا ہے،کو جس انداز میں جماعت اسلامی نے للکارا۔ وہ کراچی کے غریب عوام کے دل کی آواز تھی۔جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے ’کے۔ الیکٹرک‘ کی بدمعاشیوں کے خلاف دیے جانے والے احتجاجی دھرنوں کی حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کراچی کے عوام جانتے ہیں کہ کے الیکٹرک کے مرکزی دفتر پر دیے جانے والے دھرنے کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی نے جن نکات کو اٹھایا،وہ انتہائی اہم تھے مثلاً حافظ صاحب کے بقول ’کے۔ الیکٹرک‘ سابقہ دور میں ایم کیو ایم پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کو عوام سے ناجائز طور پر لوٹی ہوئی رقم سے پورا حصہ ادا کرتی ہے بجلی کے بلوں پر عوام سے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں،ایک سے 300 یونٹ تک بلوں میں ظالمانہ اضافے کی بات ہو یا ،اووربلنگ،لائن لاسز، میٹررینٹ 11 ارب روپے،ڈبل بینک چارجز 13 ارب روپے،کلاء بیک 17 ارب روپے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 62 ارب روپے جیسے نکات کو حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے منظرعام پر لانا حقائق پر مبنی ہیں،جبکہ گزشتہ پندرہ سالوں کا فرانزک آڈیٹ کروانا وفاقی حکومت اور نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کی سرپرستی بند کرنے، کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کر کے اسے قومی تحویل میں لے جانے جیسے مطالبات عوامی امنگوں کے عین مطابق ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرزِ حکمرانی نے سندھ کے عوام کو شہری دیہی تفریق کے سوا کچھ نہ دیا۔خاص کر کراچی کے میں محرومیوں نے جنم لیا۔ظاہر ہےجب کوئی علاقہ زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوجائے تو وہاں پیدا ہونے والے مسائل کا سدباب کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ان حالات میں جماعت اسلامی کی جانب سے ”حق دو کراچی کو“ کے تحت اٹھائی جانے والی آواز زخموں پر مرہم لگانے کے مترادف ہے،جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم ،،حق دو کراچی کو،،ویسے تو تمام اداروں اور حکومتی نااہلی کے خلاف آواز بلند کرنے اور کراچی والوں کو ان کا جائز حق دلانے کی تحریک ہے لیکن چونکہ اس وقت بات کے الیکٹرک کی ہو رہی اس لیے کے۔ الیکٹرک‘ کی انتظامیہ کی بدمعاشیوں کا ہی ذکر کیا جانا مناسب ہے اس محکمے کی خودسری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر ماہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ورکرز گاڑیوں میں بیٹھ کر مختلف علاقوں میں اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے دشمن ملک کی فوج مقبوضہ علاقوں میں گشت کیا کرتی ہے۔ اپنی چال ڈھال ’سے یہ ورکرز کم، جبکہ بھتہ خور زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر ایسے حالات ہوں جو ہمارے ملک میں ہیں تو حکومتیں بڑی مستعد ہوجایا کرتی ہیں۔ سرحدوں سے لے کر اداروں تک نگاہ رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔خطے کے سیاسی و معاشی حالات بدلتے جارہے ہیں ان حالات میں احتیاط ضروری ہے، خاص کر کراچی جیسے شہر میں،جہاں ملک کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں۔ خدارا اَنا کو چھوڑ کر عوام دشمن پالیسیوں سے نجات دلائی جائے، ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے عوام کو کچھ نہ کچھ سہولتیں مل سکیں۔ ایسے اداروں کو جو عوام سے دو وقت کی روٹی چھیننے میں لگے ہوئے ہیں، پابند کیا جائے۔ اگر عوام کے ذمے کسی ادارے کے جائز واجبات ہیں تو بے شک طریقہ کار کے مطابق جس سے لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، وصول کیے جائیں۔ دھونس اور دھمکی سے افراتفری میں ہی اضافہ ہوتا ہے سیاسی شعور اجاگر کرنے سے ہی بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔اب جبکہ انتخابات کا موسم ہے ایسے میں سیاسی پرندے اڑان بھرنے کو تیار ہیں عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا روایتی سیاسی گھرانوں کے خلاف اٹھنا ہوگا کیوں کہ یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ جو ظالمانہ پالیسیاں بنا رہے ہیں،ان کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے کارواں میں شامل ہو کر عوامی مسائل پر مخلصانہ جہدوجہد کرنا ہوگی تب ہی عوام کو ان ظالم وجابر محکموں کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے، بصورتِ دیگر عوام کی امنگوں کے مطابق نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں-
قوم کو اٹھنا پڑے گا حکمرانوں کے خلاف
جو مسلط ہوچکے ہیں ان گھرانوں کے خلاف
ظلم ہوتا ہے جہاں پر ایسے تھانوں کے خلاف
بدتمیز و بدکلاموں بدزبانوں کے خلاف

حصہ