کراچی کو چھوٹا پاکستان یا منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ لیکن کراچی جیسا یتیم شہر پوری دنیا میں کوئی نہیںاگر شہری تمدن کی عظمت ہی سب کچھ ہے تو جدید شہری تمدن کی علامتوں کا جو سرمایہ کراچی کے پاس ہے وہ پاکستان کے کسی اور شہر کے پاس نہیں۔ کراچی بانیِ پاکستان کا شہر تھا۔ قائداعظم نے خود اسے پاکستان کا دارالحکومت بنایا تھا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی مرکز ہے۔
75سال تک ملک کی واحد بندرگاہ رہا ہے۔ کراچی طویل عرصے تک ملک کے واحد بین الاقوامی ہوائی اڈے کا حامل تھا۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کراچی کا حصہ 55 سے 60 فیصد ہے۔ ملک کی آمدنی کا 70 فیصد پاکستان کو کراچی سے فراہم ہوتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ کے درمیان ہے۔ کراچی کی ’’عظمت‘‘ صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ لاہور صرف پنجابیوں کا شہر ہے۔ پشاور صرف پشتونوں کا شہر ہے۔ لاڑکانہ صرف سندھیوں کا شہر ہے۔ کوئٹہ بلوچوں اور پشتونوں کا شہر ہے۔ حیدرآباد مہاجروں اور سندھیوں کا شہر ہے۔ لیکن کراچی مہاجروں کا بھی شہر ہے، پنجابیوں کا بھی شہر ہے، پشتونوں کا بھی شہر ہے، سندھیوں کا بھی شہر ہے، سرائیکیوں کا بھی شہر ہے، بلوچوں کا بھی شہر ہے۔
اسی لیے کراچی کو چھوٹا پاکستان یا منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ لیکن کراچی جیسا یتیم شہر پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ آپ دنیا کے دو سے ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہروں کی فہرست بنائیں، آپ دیکھیں گے کہ ان میں ایک شہر بھی ایسا نہیں جس کی آدھی آبادی پانی کی شدید قلت کا شکار ہو۔ جہاں شدید گرمیوں میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو۔ جہاں ہر سال لاکھوں موبائل، موٹر سائیکلیں اور کاریں چھین لی جاتی ہوں۔
جہاں ذرا سی بارش شہری سیلاب یا Urban Flooding کی صورتِ حال پیدا کردیتی ہو۔ جہاں عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوں۔ جہاں نکاسیِ آب کی صورتِ حال مخدوش ہو۔ جہاں گلی گلی میں کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہوں۔ کراچی پنجابیوں کا شہر ہے، مہاجروں کا شہر ہے، پشتونوں کا شہر ہے، بلوچوں کا شہر ہے، عسکری اعتبار سے فوجیوں کا شہر ہے۔ مگر کراچی کو نہ پنجابی Own کرتے ہیں، نہ سندھی Own کرتے ہیں، نہ پشتون Own کرتے ہیں، نہ بلوچ Own کرتے ہیں، نہ فوجی Own کرتے ہیں۔ رہی مہاجروں کی نمائندہ تنظیم ایم کیو ایم… تو شہر کو تباہ کرنے میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ،کراچی کو دیکھ کر یہ شعر یاد آجاتا ہے:۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہاں شعر میں گنجائش ہوتی تو ’’چراغ‘‘ کے بجائے لفظ ’’چراغوں‘‘ کا استعمال زیادہ قرین حقیقت ہوتا۔ مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ تو سب پیتے ہیں مگر اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی تیار نہیں۔
ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ملک اور اپنے ملک کے ہر شہر سے محبت ہوتی ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کسی شہر کو شعوری طور پر جان بوجھ کر تباہی کی طرف دھکیلا ہو۔ کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنانے والے قائداعظم تھے۔ وہ قائداعظم، جو اگر نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ چنانچہ قائداعظم نے کراچی کو جو مرتبہ، جو Status دیا تھا جنرل ایوب کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ کراچی سے وہ مقام، وہ مرتبہ، وہ Status چھینے۔ جنرل ایوب ایک جابر اور غاصب تھا۔ جنرل ایوب وہ بدبخت تھا جس نے قائداعظم کی بہن مادرِ ملت کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا اور اُن کے خلاف اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے۔
اسی جنرل ایوب نے کراچی سے اس کا مقام اور مرتبہ چھینا، اور اسلام آباد کو (جس میں آج تک اسلام، آباد نہیں ہوسکا) ملک کا دارالحکومت قرار دیا۔ جنرل ایوب کے اس فیصلے کی پشت پر نسلی اور لسانی تعصب کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد نہ ملک کا بڑا صنعتی مرکز تھا، نہ تجارتی مرکز تھا۔ نہ وہاں بندرگاہ تھی، نہ اسلام آباد قومی یکجہتی کی علامت تھا۔ مگر جنرل ایوب نے ان تمام حقائق کو نظرانداز کرکے کراچی کے گلے پر تعصب کا خنجر چلا دیا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جنرل ایوب کا انجام برا ہوا۔ جنرل ایوب کو ہٹانے کے لیے ملک میں احتجاج منظم ہوا، اور ملک کے گلی کوچوں میں ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے بلند ہوئے۔ بالآخر جنرل ایوب کو جنرل یحییٰ اور ان کے رفقا نے لات مار کر اقتدار سے باہر کردیا۔
ملک میں لسانی فسادات غیر ملکی قوتیں کرواتی ہیں، مگر کراچی میں ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء اور ان کی اسٹیبلشمنٹ نے تخلیق کیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کو پشتونوں سے لڑایا، پنجابیوں سے لڑایا۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو مہاجروں سے لڑایا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم اس لیے بنائی تھی کہ پیپلزپارٹی کو دیہی سندھ کے اندر دبائو میں رکھا جاسکے اور کراچی میں جماعت اسلامی کی تنقیدی فکر کا زور توڑا جاسکے۔ ایم کیو ایم ان اہداف تک محدود رہتی تو غنیمت تھا، لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے بہت جلد دہشت گردی، بوری بند لاشوں، پُرتشدد ہڑتالوں اور موبائل چھیننے کی وارداتوں کا ’’کلچر‘‘ پیدا کرکے دکھا دیا۔ سندھ رینجرز کے سابق سربراہ جنرل محمد سعید نے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی میں گزشتہ 30 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ ان 92ہزار افراد کا تعلق 92 ہزار خاندانوں سے تھا تو کراچی کے شہریوں کے ہر خاندان نے گزشتہ 30 سال میں ایک جنازہ ضرور اٹھایا ہے۔ یعنی کراچی میں قتل و غارت گری کے طوفان نے 92 ہزار خاندانوں کو ماتم میں مبتلا کیا۔
ہم نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں، مگر ان جنگوں میں بھی 92ہزار خاندان سوگوار نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ نے پورے کراچی کو ماتم کدے میں تبدیل کردیا۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں اسلحہ کا استعمال اتنا بڑھ گیا کہ ہم نے ایک روز اپنے اپارٹمنٹ کے بچوں کو گولیوں کی آوازوں پر بحث کرتے دیکھا۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا کہ یہ کلاشنکوف کی آواز ہے۔ دوسرا بچہ کہہ رہا تھا کہ یہ راکٹ لانچر فائر ہوا ہے۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا رپیٹر کی گولی کی آواز ہے۔ بچوں کے چہروں پر ’’ماہرین‘‘ کی طرح کی سنجیدگی تھی۔ کراچی میں قتل و غارت گری کا یہ عالم تھا کہ ایک رات ہم اپنی بیوی کے ساتھ علاقے میں چہل قدمی کرنے نکلے تو ڈیڑھ دو کلومیٹر کے دائرے میں کوئی اہم جگہ ایسی نہیں تھی جہاں کوئی نہ کوئی لاش نہ گری ہو، یا جہاں سے کوئی نہ کوئی لاش نہ ملی ہو، یا جہاں فائرنگ کا کوئی نہ کوئی واقعہ نہ ہوا ہو۔
1990ء کی دہائی میں رات کے وقت کراچی میں خوف کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ہر شخص سامنے سے آنے والے دوسرے شخص سے ڈرتا تھا۔ کتوں تک کو معلوم ہوگیا تھا کہ رات کے وقت کراچی کی گلیاں غیر محفوظ ہوتی ہیں، چنانچہ ہمیں اکثر رات کو دفتر سے گھر لوٹتے ہوئے، یا چہل قدمی کے لیے نکلتے ہوئے راستے میں ایک کتا بھی نظر نہیں آتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاعروں، ادیبوں کی Madness کی پشت پر ایک Design ہوتا ہے۔ مگر کراچی میں ہو یہ رہا تھا کہ کراچی کو تباہ کرنے والوں کی Madness میں بھی ایک Design موجود تھا۔ یہ کراچی کو اجتماعی سزا سے ہم کنار کرنے کا Design تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا نظریاتی شہر تھا۔ کراچی سے ہمیشہ نظریہ پاکستان کا دفاع ہوا۔ کراچی نے ہمیشہ تحریکِ پاکستان کی روح کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ کراچی نے صرف قائداعظم کا نہیں، مادرِ ملت کا بھی ساتھ دیا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف جو انتخاب لڑا اُس میں اگر وہ کہیں سے فتح یاب ہوئیں تو کراچی سے۔ کراچی نے ہمیشہ آمریتوں کی مزاحمت کی۔ کراچی نے ایوب گردی کی مزاحمت کی۔
بھٹو گردی کی مزاحمت کی۔ ضیاء گردی کی مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ بالآخر کراچی کی اصل وارث جماعت اسلامی نے الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کی بھی مزاحمت کی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے اس مزاحمتی روح کو فنا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی نے ہمیشہ بڑی سیاسی تحریکوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ کراچی کو سبق سکھایا گیا، اور اس کی تحریکوں میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو زنگ لگا دیا گیا۔ کراچی میں ایک ایسا نازک وقت بھی آیا جب شہر کے حالات اتنے خراب ہوئے کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوجیں اتر چکی ہیں۔ قاضی صاحب کا یہ بیان ایک بڑے اخبار میں ’’بیک پیج‘‘ پرسنگل کالم کی سرخی کے ساتھ شائع ہوا اس لیے لوگوں کی اس پر نظر نہیں پڑی۔
ہم نے قاضی صاحب سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے کچھ اہلکار بوسنیا ہرزیگووینا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، یہ دستے اپنا مقررہ وقت مکمل کرکے پاکستان لوٹے تھے اور ان کے سازو سامان پر اقوام متحدہ کے پرچم لگے ہوئے تھے۔ چنانچہ کسی ذریعے نے تصدیق کے بغیر قاضی صاحب کو اطلاع دے دی، اور کراچی کے حالات اتنے خراب تھے اور 1971ء میں دن دہاڑے ملک ٹوٹ چکا تھا چنانچہ قاضی صاحب نے مذکورہ اطلاع کو بیان میں ڈھال دیا۔ اُن دنوں کراچی میں یہ افواہ گرم تھی کہ ہانگ کانگ برطانیہ اور امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، اور دونوں ملکوں کو ایک نیا ہانگ کانگ درکار ہے، اور کراچی ممکنہ طور پر نیا ہانگ کانگ ہوگا۔ اہلِ کراچی گزشتہ 30 برسوں میں کیسے کیسے اعصاب شکن تجربات سے گزرے یا گزارے گئے۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی ہوئے، مگر ان آپریشنوں نے ایم کیو ایم کی قوت کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا۔ ان آپریشنوں نے اسے ظالم سے مظلوم بنادیا۔ عام شہریوں نے ان آپریشنوں کو جس طرح بھگتا اس کا اندازہ پاکستان کے کسی شہر کے لوگ بھی نہیں لگا سکتے۔
کراچی کی آبادی کسی طرح بھی ڈھائی کروڑ سے کم نہیں۔ اس آبادی کو روزانہ 1200 ملین گیلن پانی درکار ہے، جبکہ کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کراچی کو اس کی اصل ضرورت سے آدھا پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ یہ ظلم ہے۔ پانی بنیادی ضرورت ہے، پانی کے بغیر معمول کی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کو 70 فیصد مالی وسائل فراہم کرنے والے شہر کو پانی کے قحط کا شکار کیا ہوا ہے۔ ہماری رہائش نارتھ ناظم آباد میں ہے اور نارتھ ناظم آباد کراچی کا ایک ’’پوش علاقہ‘‘ کہلاتا ہے۔ مگر ہمارے پورے بلاک میں ایک دہائی سے پانی دستیاب نہیں۔
پانی آتا بھی ہے تو اتنا کم کہ اس پر بقدر اشکِ بلبل کے محاورے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، چنانچہ ہمارا پورا اپارٹمنٹ گزشتہ چار سال سے کھارے پانی پر گزارا کررہا ہے۔ یہ کھارا پانی بالوں ہی کے لیے نہیں، جلد کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک پوش علاقے کا یہ حال ہے تو کراچی کے پسماندہ علاقوں کا کیا عالم ہوگا! کراچی میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کے 4- کے عنوان سے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا۔ نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں اس منصوبے پر بمشکل پندرہ سے بیس ارب روپے صرف ہوتے، مگر اب یہ منصوبہ ڈیڑھ سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ملک کو 70فیصد مالی وسائل فراہم کرنے والے شہر پر 150 ارب روپے بھی آنکھ بند کرکے صرف کیے جاسکتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں نہ صوبائی حکومت کچھ کرتی ہے اور نہ وفاقی حکومت۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے کراچی کی آدھی آبادی کو پانی کی بندش کے حوالے سے کربلا کے تجربے سے دوچار کیا ہوا ہے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید، سب سے زیادہ وسائل مہیا کرنے والا شہر ہے، مگر کراچی میں لوڈشیڈنگ کا تجربہ ایک ہولناک صورتِ حال اختیار کرچکا ہے۔ شدید گرمی میں کراچی کے بعض علاقوں میں دو سے تین، اور بعض علاقوں میں چھے سے آٹھ اور دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی بتاتی ہے کہ اس کے علاقے میں کبھی کبھی تین تین دن تک بجلی نہیں ہوتی۔ جدید شہری زندگی کا تصور بجلی کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ کراچی جیسے شہر میں بلند عمارتوں نے مختلف علاقوں میں ہوا کے بہائو کو روک دیا ہے۔ چنانچہ مکانات بالخصوص فلیٹ گرمی میں تنور بن جاتے ہیں۔ ان تنوروں میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی، بچے بھی ہوتے ہیں اور معذور بھی… لیکن نہ ’کے الیکٹرک‘ کو رحم آتا ہے، نہ صوبائی حکومت اور قفاقی حکومت اس سلسلے میں کچھ کرتی ہیں، نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس ہولناک تجربے کی اطلاع ہو پاتی ہے۔ چونکہ ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف کچھ ہونہیں پاتا، اس لیے کراچی میں یہ خیال عام ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ کی جانب سے تمام اہم پاور بروکرز کو ’’مال‘‘ جاتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اب تک ’کے الیکٹرک‘ کو ’’ظالم ادارے‘‘ کے بجائے ’’خادم ادارے‘‘ میں ڈھالا جاچکا ہوتا۔
دنیا میں دو کروڑ سے زیادہ آبادی والا ایک شہر بھی ایسا نہیں جس میں ٹرانسپورٹ کا نظام تین ستونوں پر نہ کھڑا ہوا ہو: ایک زیر زمین ریل کا نظام، دوسرا سرکلر ریلوے، اور تیسرا بڑی بسوں کا بڑا بیڑا۔ کراچی کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ ہے، مگر کراچی میں نہ زیر زمین ریل کا نظام موجود ہے، نہ سرکلر ریلوے کام کررہی ہے، نہ بڑی بسوں کا بیڑا کہیں وجود رکھتا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ کراچی میں 2007ء تک بڑی بسیں بھی کافی تعداد میں موجود تھیں، کوچز بھی دستیاب تھیں اور منی بسیں بھی فراوانی سے میسر تھیں۔ مگر اب کراچی میں نہ بڑی بسوں کی فراوانی ہے، نہ کوچز کی تعداد ضرورت کے مطابق ہے، نہ منی بسیں شہر کی ضروریات کے مطابق ہیں۔ چنانچہ کراچی میں سفر ایک بہت بڑی آزمائش بن گیا ہے۔ مگر اس سلسلے میں نہ صوبائی حکومت کچھ کررہی ہے، نہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو متحرک دیکھا جاسکتا ہے۔ کراچی کے سلسلے میں یہ رویہ نرم سے نرم الفاظ میں مجرمانہ ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کو جتنا ’’اسٹیٹ کرافٹ‘‘ آتا ہے وہ ملک کے آدھا رہ جانے سے صاف ظاہر ہے۔ مگر کراچی میں تو ہمارے حکمرانوں کو ’’کچرا کرافٹ‘‘ بھی نہیں آتا۔ چنانچہ برسوں سے کراچی کچرے کے ایک بہت بڑے ڈھیر کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس سلسلے میں نہ شریف خاندان نے کچھ کیا ہے، نہ بھٹو خاندان نے کچھ کیا ہے۔ اس ضمن میں ’’ایم کیو ایم خاندان‘‘ نے کوئی قدم اٹھایا ہے نہ ’’اسٹیبلشمنٹ خاندان‘‘ نے پیش رفت کی ہے۔ کراچی کی آبادی کو ڈھائی کروڑ ثابت کرنے کے لیے کراچی میں مردم شماری ضروری نہیں۔ صرف کراچی کا ایک چکر لگالیں، کافی ہے۔ مگر کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ مردم شماری میں کراچی کی ایک کروڑ آبادی کو کھا گیا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نہیں ڈیڑھ کروڑ ہے۔ کبھی داستانوں میں آدم خور ہوتے تھے، مگر کراچی میں حکمران خود آدم خور بن گئے ہیں۔