1960ء کے عشرے میں خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خلائی تحقیق کے شعبے میں غیر معمولی خدمات انجام دینے والے جیمز ویب سے موسوم خلائی دوربین کی ابتدائی پانچ تصویریں جاری کردی گئی ہیں۔ ان تصویروں کی مدد سے بہت کچھ جاننے کو ملا ہے۔ پہلی یا کلیدی تصویر میں ہزاروں کہکشاؤں کے جُھرمٹ کا خوبصورت، بلکہ دل فریب منظر ہے۔ یہ کہکشائیں سیکڑوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ نوری سال وقت نہیں بلکہ فاصلوں کی پیمائش کا پیمانہ ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس حساب سے اندازہ لگائیے کہ ایک سال میں روشنی کتنا فاصلہ طے کرے گی۔ ناسا کے تحت جیمز اسپیس ٹیلی اسکوپ (المعروف ویب) سے لی گئی پہلی پانچ تصویریں امریکی صدر جوبائیڈن نے جاری کیں اور اس موقع پر انہیں خاصی وقیع بریفنگ بھی دی گئی۔ کلیدی تصویر میں ہزاروں کہکشاؤں کی ایسی روشنی دیکھی جا سکتی ہے جس نے 13 ارب نوری سال کی مسافت طے کی ہے۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے میڈیا کو بتایا کہ ویب کی یہ پہلی تصویر کائنات کے دورافتادہ گوشوں کی اب تک کی سب سے گہری اور تیز ترین انفراریڈ تصویر ہے۔ کہکشاؤں کے جھرمٹ ایس ایم اے 0723 کی اس تصویر میں پہلی بار چند دُھندلی اور اب تک ناقابلِ فہم سمجھی جانے والی چیزیں بھی واضح ہوئی ہیں۔ بل نیلسن نے بتایا کہ سیکڑوں دھبوں، لکیروں اور سفید، پیلے، نارنجی اور سرخ رنگ کے گرد گھومنے والی تصویر ’’کائنات کا صرف ایک چھوٹا سا دھبہ‘‘ ہے۔ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کی جانے والی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ 25 دسمبر 2021ء کو یورپین اسپیس سینٹر، فرینچ گیانا سے روانہ کی گئی تھی۔ اس دوربین کی تیاری کا بنیادی مقصد کائنات کی ساخت ہی کو سمجھنا نہیں بلکہ اِس کے مآخذ کا سراغ لگانا بھی ہے۔ یہ ناسا کی اب تک کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین دوربین ہے۔ خصوصی بریفنگ میں صدر جوبائیڈن نے کہا کہ یہ تصاویر دنیا کو بتائیں گی کہ امریکا اب بھی کام کرسکتا ہے اور یہ کہ امریکیوں میں اب تک صلاحیت و سکت موجود ہے۔ اس تصویر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ درمیان میں ثقلی عدسے کا وہ مظہر دیکھا جا سکتا ہے جس کی پیش گوئی عظیم سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن نے کی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ طاقتور ثقلی امواج روشنی کو موڑ سکتی ہیں۔ اس عمل کو گریوی ٹیشنل لینسنگ یا ثقلی عدسہ کہا جاتا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ کائنات کی گہری ترین تصویر میں دکھائی دینے والی کہکشائیں اور ان کے درمیان فاصلہ کائنات کی وسعت کے تناظر میں ہتھیلی پر رکھے ہوئے ریت کے ذرّے کے مساوی ہے! جیمز ٹیلی اسکوپ نے کائنات کے جس گوشے کی تصویرکشی کی ہے وہ کرینا نیبولا کہلاتا ہے۔ یہ نیبولا زمین سے 7600 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی چوڑائی 300 نوری سال ہے۔ نیبولا میں ستاروں کی پیدائش اور موت کا عمل جاری رہتا ہے۔ سائنسی اصطلاح میں نیبولا اُس نرسری کو کہتے ہیں جس میں کائنات کے مظاہر (ستارے، سیارے، بلیک ہولز وغیرہ) پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ امریکی ریاست میری لینڈ میں گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ایسٹرو فزسسٹ ایمبر اسٹران کہتے ہیں کہ پہلی بار بہت کچھ ایسا جاننے کو مل رہا ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ بہت سے ستارے اب تک آنکھوں سے اوجھل تھے مگر اب انہیں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ کرینا نیبولا میں ایک سپر جائنٹ (بہت بڑا ستارہ) پھٹنے کو ہے۔ امید ہے کہ جیمز ٹیلی اسکوپ یہ منظر بھی محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگی۔
سائنس کے لیے ناسا کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر ٹامس زربوچین کہتے ہیں کہ ناسا کی یہ خلائی دوربین موجودہ ہی نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی راہ نمائی اور مدد کرے گی۔ اس کے ذریعے ہم کائنات کے بارے میں بہت کچھ بہت آسانی سے جان سکیں گے۔ 11 جولائی کو جاری کی جانے والی تصویروں میں کرینا اور سدرن رِنگ نیبولا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اِس میں کہکشاؤں کا وہ جُھرمٹ بھی ہے جسے اسٹیفنز کوئنٹیٹ کہا جاتا ہے۔ ایک تصویر گیس جائنٹ ایگزوپلانیٹ کی ہے جسے سائنس دان WASP-96 b کہتے ہیں۔ کرینا نیبولا میں دوسرے بہت سے مظاہر کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا مرتا ہوا ستارہ بھی ہے جو اب پھٹنے ہی والا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں پیدائش کے عمل سے گزرنے والے ستاروں کا گوشہ Trumper 14 بھی شامل ہے۔ کرینا نیبولا ستاروں کی ایسی نرسری ہے جو بہت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ متحرک بھی ہے اور کبھی کبھی یہ بہت خطرناک شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ ایمبر اسٹران کہتے ہیں کہ ہم نے ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے کئی ایسے ستارے بھی دیکھے ہیں جو اس سے قبل دیکھ نہیں پائے تھے۔
سدرن رِنگ نسبتاً قریب ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ 2 ہزار نوری سال ہے۔ یہ سیاروں پر مبنی نیبولا ہے، یعنی ایک دم توڑے ہوئے ستارے کے گرد بہت بڑے پیمانے پر گیس جمع ہے۔ اپنی عمر تمام کرچکنے والا یہ ستارہ اب انتہائی گرم ہے اور اِس کی زد میں آنے والی کوئی بھی چیز بچ نہیں پائے گی۔
اسٹیفنز کوئنٹیٹ پانچ کہکشاؤں کا جُھرمٹ ہے جو زمین سے 290 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اِن میں سے چار کہکشائیں ایسی حالت میں ہیں جسے ’’کائناتی رقص‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ کہکشائیں بالآخر ایک دوسرے سے ٹکراکر ختم ہوں گی۔ کہکشاؤں کے اِس جُھرمٹ میں موجود ستارے اربوں سال پُرانے ہیں اور اربوں کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کیا ہے۔
یہ ساری تگ و دَو کس لیے ہے، کس کے لیے ہے؟ ہزاروں سال سے کائنات کی ساخت پر غور کرنے والے آخر کیا جاننا چاہتے ہیں؟ کائنات کی گہرائیوں سے آشنا ہونے کی تمنا رکھنے والے حتمی تجزیے میں کس حقیقت تک پہنچنے کے آرزومند ہیں؟ پانچ صدیوں کے دوران یورپ اور امریکا کے سائنس دانوں نے آخر کیا جاننے کی سر توڑ کوشش کی ہے؟ بیسویں صدی کے دوران مغربی دنیا میں کائنات کو کھنگالنے کا عمل تیز ہوا ہے اور اب یہ عمل انتہائی رفتار سے جاری ہے۔ اِس دوران ہیئت کے ماہرین نے کائنات کی وسعتوں اور اُس کے مظاہر کی بوالعجبی سے دنیا کو رُوشناس کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ساری محنت کس کھاتے میں ہے؟
کائنات کی وسعت کا معاملہ یہ ہے کہ اِس کے بارے میں جان کر اور سوچ کر عقل صرف دنگ رہ جاتی ہے اور بسا اوقات کام کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے، کیونکہ ہمارے خالق نے جو کائنات ہمارے مشاہدے اور استفادے کے لیے خلق کی ہے وہ ہے ہی ایسی کہ اِسے دیکھ کر صرف حیران ہوا جاسکتا ہے۔
کائنات کے دور افتادہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش انسان کو کسی اور سمت لے جارہی ہے۔ ماہرین یہ تو دیکھ ہی چکے ہیں کہ اس کائنات کی مکمل وسعت کی پیمائش تو بہت دور کا معاملہ رہا، یہ بھی معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کائنات آخر ہے کہاں تک؟ نظر بہت دور تک جاتی ہے مگر تھک ہار کر لَوٹ آتی ہے ؎
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
ہمارے خالق و رب نے ہمارے لیے کائنات کی شکل میں جو نظم تیار کیا ہے وہ الف سے ی تک صرف اور صرف دعوت ہے، غور و فکر کی دعوت کی۔ اللہ کی صنّاعی کا دیدار کرکے ہمیں اُس کی عظمت کی حمد و ثناء کرنی ہے۔ اِس سے زیادہ ہمارے بس میں ہے کیا! کائنات کی وسعتیں ہم پر بے نقاب ہیں۔ اللہ نے اپنی قدرت کے جلوے بکھیر دیئے ہیں۔ قدرت کی صنّاعی کے اِن جلووں کو دیکھ کر خالق و رب کو ماننا ہے، اُس کے احکامات پر عمل کرنا ہے تاکہ دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو۔
پانچ صدیوں کے دوران مغرب نے زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے نام پر بہت کچھ ایجاد اور دریافت کیا ہے۔ یہ سب کچھ واقعی ہماری زندگی کو آسانیوں سے ہم کنار کرچکا ہے، مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے اہلِ علم و فن نے خالص مادّہ پرستی کی تلقین کی ہے۔ اُن کی نظر میں یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ یہ زندگی اپنے آپ میں ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی… حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت مغز پاشی کے بعد بھی معاملہ ؎
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
کی منزل میں اٹکا ہوا ہے۔ انسان کائنات کی ابتدا کے مآخذ کے بارے میں جاننے نکلا ہے جبکہ اپنی حقیقت کا بھی ڈھنگ سے سُراغ پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ رب نے تو صاف کہا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نے رب کو پہچانا۔ یعنی یہ کہ اپنے وجود ہی کو سمجھنے میں عمر کھپادی جائے تو تھوڑے کو بہت سمجھیں۔ بے علمی کا عالم یہ ہے کہ انسان اب تک اپنی ماہیت کماحقہٗ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ گھر میں نہیں دانے، اماں چلیں بُھنانے۔
انتہائی طاقتور خلائی دور بینوں کی مدد سے انسان کیا دیکھنا چاہتا ہے؟ کائنات کے کن گوشوں کو بے نقاب کرنے کی خواہش ہے؟ ایک بڑے دھماکے کی صورت میں کائنات کی آفرینش کا نظریہ موجود ہے۔ انسان اب اُس دھماکے کو دیکھنا چاہتا ہے۔ تصور یہ ہے کہ جو کچھ اربوں سال پہلے ہوچکا ہے اُس وقت جو روشنی پیدا ہوئی تھی وہ اب تک راستے میں ہے۔ بالکل درست۔ روشنی کے سفر کا معاملہ ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ سیکڑوں ارب سال قبل ہونے والے دھماکے سے معرضِ وجود میں آنے والی ہماری کائنات بہت حد تک بے نقاب ہونے کے باوجود اب تک سربستہ راز کی مانند ہے۔
ایک طرف تو ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ذریعے بھی اُنہوں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ محض ہتھیلی پر رکھے ہوئے ریت کے ذرّے کی مانند ہے۔ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی جو پہلی یا کلیدی تصویر جاری کی گئی ہے اُس میں نظر آنے والی ہزاروں کہکشائیں بھی کائنات کا محض ایک گوشہ ہیں، اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ دوربین کا رُخ تھوڑا سا بدلیں گے تو کائنات کا کوئی اور گوشہ بے نقاب ہوگا۔ حیرت کی ایک دنیا ہے جس میں صرف گم ہوا جاسکتا ہے، اُسے سمجھا نہیں جاسکتا۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کائنات کو دیکھ کر اللہ کی حمد بیان کریں۔ سوال اللہ کو جاننے کا نہیں، ماننے کا ہے۔
سائنس دانوں اور بالخصوص ہیئت دانوں میں صدیوں سے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کوئی ’’ذہین منصوبہ ساز‘‘ (Intelligent Designer) ہے یا نہیں؟ ہیئت دانوں کا عجیب مخمصہ ہے۔ ایک طرف تو وہ دھڑلّے سے کہتے ہیں کہ یہ کائنات ازخود معرضِ وجود میں آئی ہے۔ مادّہ قدیم ہے یعنی کوئی خالق نہیں بلکہ مادّہ ہی سب کچھ ہے… مگر دوسری طرف وہ مادّے سمیت پوری کائنات کی ماہیت پر غور کرکے کسی ذہین منصوبہ ساز کو کھوج نکالنے کی کوشش میں بھی مصروف رہے ہیں۔ انکار و اقرار کے درمیان پھنسے ہوئے اِن ماہرین کا المیہ یہ ہے کہ اِن کا ذہن ہی اِنہیں دھوکا دیتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شیاطین نے اِنہیں سو طرح کے وسوسوں اور بدگمانیوں کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ اِن کا ذہنِ رسا اگر کسی طرف لے جانا بھی چاہے تو بدگمانی پیدا کرنے والی قوتیں ایسا ہونے نہیں دیتیں۔
علم و فن کا سارا حُسن اس بات میں ہے کہ اِس کے ذریعے خالق و رب تک پہنچا جائے، اُسے پہچانا جائے اور مانا بھی جائے۔ یہ پوری کائنات ہمارے لیے مسخّر کردی گئی ہے۔ ہمارے خالق و رب نے ہمیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ اُس سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ عطا کرنے والے کا شکر بھی ادا کریں۔ ماہرین علوم و فنون کی منزلیں طے کرتے ہوئے ذہین منصوبہ ساز تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ علم و فن کا حتمی مقصود یہی تو ہے۔ ہاں، المیہ یہ ہے کہ یہ کام وہی لوگ کررہے ہیں جو ذہین منصوبہ ساز کے وجود سے انکاری ہیں۔
مغرب نے ٹیکنالوجیز کے شعبے میں جو فقیدالمثال پیش رفت ممکن بنائی ہے اُسے دیکھ کر دنیا حیران ہے۔ اب کوشش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور کائنات کی پیدائش کا عمل دیکھ لیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم تو خود اِسی کائنات کا حصہ ہیں۔ کائنات کو ہم اُس وقت سمجھ سکتے تھے جب ہم کہیں اور ہوتے اور یہ ہمارے سامنے بے نقاب ہوتی۔ کائنات کی حدود سے باہر رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ دوسری طرف رب کی ہستی اِس کائنات میں سمانے کی پابند نہیں۔ رب کا وجود اپنے ہونے اور سمانے کے لیے اس کائنات کا پابند نہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہ رب ہی نہ ہوا۔ رب اس انتہائی وسیع و عریض کائنات کی حدود سے پرے ہے، باہر ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی صورت ہی میں رب کے وجود کو بھی تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس وقت علم و فن کی دنیا کے امام مغرب کے ماہرین ہیں۔ وہ ’’ہے اور نہیں ہے‘‘ کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بحث ذہنوں کو خوامخواہ الجھا رہی ہے۔ اس بحث کو ختم کرکے اس کائنات کی وسعت، حُسن اور افادیت سے آشنائی کی بنیاد پر اِس کے خالق و رب کے وجود کو تسلیم کرنے اور اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ ذہانت یا عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ذہین منصوبہ ساز کے معاملات میں جھانکنے کی کوششیں ترک کرکے اُس کے وجود کو تسلیم کرکے اُس کے احکامات کی روشنی میں زندگی بسر کرنے پر توجہ دی جائے۔