قیصروکسریٰ قسط(58)

215

سین سے جدا ہونے کے بعد عاصم کی تمام دلچسپیاں اپنے آپ کو ایک کامیاب سپاہی ثابت کرنے تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ اُس کے نزدیک اب صرف تلوار ہی ایک ایسی چیز تھی جس کی بدولت چاروں طرف سے دھتکارے ہوئے انسان کو کوئی عزت کی جگہ مل سکتی تھی۔ اور اب یہ سوال اُسے بہت کم پریشان کرتا تھا کہ روم و ایران کی یہ جنگ کن مقاصد کے تحت لڑی جارہی ہے۔ آگ اور صلیب کے پرستاروں میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق پر… ایک عرب کو زندہ رہنے کے لیے اپنے گھر اور اپنے قبیلے کی ضرورت تھی اور قدرت نے اُسے اس نعمت سے محروم کردیا تھا۔ اب اُس کا قبیلہ وہ سپاہی تھے جو اُس کی کمان میں لڑرہے تھے انہی کے تعاون سے وہ کسریٰ کی جرنیلوں کے دوش بدوش کھڑا ہوسکتا تھا اور انہی کی کامیابیاں اُس کے لیے اس نئے ماحول میں کوئی عزت کا مقام حاصل کرسکتی تھیں۔ چناں چہ اپنے سپاہیوں کے لیے اُس کے دل میں وہی جذبات تھے جو ایک سردار کے دل میں اپنے قبیلے کے لیے ہوسکتے ہیں۔ کبھی کبھی وحشت و بربریت کے دل خراش مناظر دیکھ کر اُس کا ضمیر چیخ اٹھتا لیکن زندگی سے وابستہ رہنے کی خواہش اُن لطیف دھڑکنوں پر غالب آجاتی جو اُس کے نزدیک کبھی دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ اہم تھیں۔
O
ایک شام کسریٰ کی فوج کے ہر اوّل دستے بابلیون کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے اور چند دن بعد یہ قدیم شہر، جس کے ایک ایک پتھر پر مصر کی عظمت رفتہ کی داستانیں نقش تھیں، فتح ہوچکا تھا۔ اور اُس کی گلیوں اور بازاروں میں فاتح لشکر کے سپاہیوں کے نعرے اور مفتوحہ قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ بند مکانوں کے دروازے تورے جارہے تھے۔ اور وہ لوگ جنہیں غلامی کے قابل سمجھا جاتا تھا بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر شہر سے باہر قیدیوںکے کیمپ میں جمع کیے جارہے تھے۔
ایک دن ایرانی فوج کے اعلیٰ عہدہ دار بابلیون کے شاہی محل کے ایک کشادہ کمرے میں جمع ہو کر آئندہ پیش قدمی کے متعلق سپہ سالار کے احکام کا انتظار کررہے تھے۔ سپہ سالار، جس کی بلند ٹوپی بیش قیمت جواہرات سے مزین تھی، کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔ ’’شہنشاہ نے اسکندریہ کی طرف بلاتاخیر پیش قدمی کا حکم دیا ہے۔ تم کل تک یہاں آرام کرسکتے ہو۔ پرسوں علی الصباح ہم اسکندریہ کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ رومی اسکندریہ کو اپنا آخری حصار سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہماری آمد سے پہلے ہی وہ بابلیون خالی کرکے وہاں پہنچ گئے ہیں۔ رومیوں کی جو فوجیں شام میں شکست کھا کر وہاں سے بھاگی تھیں وہ بھی اسکندریہ پہنچ چکی ہیں اور ہم انہیں مزید تیاریوں کا موقع دینا نہیں چاہتے۔ ویسے بھی ہمیں بابلیون میں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں ہمارا کام ختم ہوچکا ہے۔ مصریوں نے صرف چند رومیوں کو اپنے گھروں میں چھپا رکھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم کل تک اُن سب کو گرفتار کرلیں گے۔ اس کے بعد اہل شہر کو مغلوب رکھنے کے لیے ہمارے چند دستے کافی ہوں گے۔ آئندہ آٹھ پہر تک بابلیون تمہارے رحم و کرم پر ہے لیکن دوپہر تک قباد کے دستوں کے سوا باقی تمام فوج کو پڑائو میں جمع ہوجانا چاہیے‘‘۔
قباد ایک عمر رسیدہ جرنیل تھا اُس نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’جناب آپ کا مطلب ہے کہ میں اسکندریہ نہیں جائوں گا؟‘‘۔
’’نہیں! شہنشاہ نے تمہیں بابلیون کی حکومت سنبھالنے کا حکم دیا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر سپہ سالار ایک اور جرنیل کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’مہران! تمہیں ایک بڑی مہم سونپی گئی ہے۔ تم یہاں سے طیبہ کی طرف پیش قدمی کرو گے۔ شہنشاہ والا تیار کا حکم ہے کہ جنوب میں مصر کی آخری حدود تک ایران کے جھنڈے گاڑ دیے جائیں، دریائے نیل تمہاری راہنمائی کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ تم حبشہ کی سرحدیں عبور کیے بغیر واپس نہیں آئو گے‘‘۔
مہران نے کہا۔ ’’جناب! مجھے فخر ہے کہ میرے آقا نے مجھے اِس خدمت کا اہل سمجھا ہے‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ مصر کے لوگ راستے میں کسی جگہ مزاحمت نہیں کریں گے۔ تاہم تمہیں ایسے سپاہیوں کی ضرورت ہے جو اِس انتہائی گرم علاقے میں ایک طویل سفر کی کلفتیں برداشت کرسکتے ہوں۔ اس لیے عرب قبائل کے رضا کار تمہارے ساتھ جائیں گے۔ چند ماہ قبل مجھے امید نہ تھی کہ یہ لوگ جو صرف لوٹ مار کے لیے ہمارے ساتھ آئے ہیں کسی کٹھن اور صبر آزما مہم میں بھی کام آسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں عاصم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اِس نے ضبط و نظم کے معاملے میں اِن لوگوں کو ایرانی سپاہیوں کے لیے بھی ایک نمونہ بنادیا ہے۔ اگر تم بھی سین کی طرح اس نوجوان کی ناز برداری کرسکے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس مہم میں تمہارے لیے بہترین ساتھی ہوگا۔ میں عاصم کو بھی اس مہم کی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کروں گا؟‘‘۔
سپہ سالار نے باقی جرنیلوں کو بھی یکے بعد دیگرے ضروری ہدایات دیں اور مجلس برخاست ہوگئی۔
O
غروب آفتاب سے ایک ساعت قبل عاصم بابلیون کی ایک کشادہ گلی سے گزر رہا تھا۔ سپاہیوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں باقی شہر کی طرف یہاں بھی لوٹ مار کررہی تھیں۔ اچانک ایک عرب نے پیچھے سے آواز دی اور عاصم مڑ کر اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ عرب تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا اُس کے قریب پہنچا اور اُس نے کہا۔ ’’میں دیر سے آپ کو تلاش کررہا ہوں۔ پڑائو سے معلوم ہوا کہ آپ قیدیوں کے کیمپ دیکھنے گئے ہیں۔ وہاں سے پتا چلا آپ شہر کی طرف آگئے ہیں۔ ہمارے چند اور آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر آپ کو تلاش کررہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ آپ کسی مکان کا دروازہ بند کیے سورہے ہوں گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کیا بات ہے تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟‘‘۔
عرب نے کہا۔ ’’سپہ سالار کا آدمی یہ حکم لے کر آیا تھا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم مسئلہ درپیش ہے‘‘۔
عاصم کچھ کہے بغیر اُس کے ساتھ ہولیا۔ کچھ فاصلے پر چند آدمی ایک مکان کے بند دروازے کے سامنے شور مچارہے تھے۔
عرب نے کہا۔ ’’جناب یہ یہودی ہیں اور خاصی دیر سے دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے تھوڑی دیر پہلے، یہاں سے گزرتے ہوئے، اُن سے کہا تھا کہ تم دروازے پر زور آزمائی کرنے کے بجائے دیوار پھاند کر اندر کیوں نہیں چلے جاتے تو انہوں نے کہا کہ یہ مکان رومیوں سے بھرا ہوا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ دروازہ توڑنے کے بعد بھی مکان کے اندر پائوں رکھنے سے پہلے اس بات کا اطمینان ضرور چاہیں گے کہ وہاں نہتے مصریوں کے سوا اور کوئی نہیں‘‘۔
اچانک ساتھ والے مکان سے ایک قوی ہیکل ایرانی کندھے پر شہتیر اٹھائے نکلا اور یہودی خوشی کے نعرے لگانے لگے۔ چند نوجوان ایرانی کے ساتھ شامل ہوگئے اور شہتیر کو سہارا دے کر، بھاگتے ہوئے، دروازے کی طرف بڑھے۔ مضبوط دروازہ شہتیر کی پہلی ہی ضرب سے ٹوٹ گیا اور یہ لوگ ایرانی کے پیچھے، خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے، اندر داخل ہوئے۔ لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چیختے چلاتے اُلٹے پائوں باہر کی طرف بھاگنے لگے سب سے آخر میں ایرانی اپنی تلوار پر ایک دراز قامت رومی نوجوان کے وار روکتا ہوا باہر نکلا۔
عاصم اور اُس کا ساتھی یہ دلچسپ تماشا دیکھنے کے لیے رُک گیا۔ خوش وضع رومی نوجوان کا ایک بازو گلے سے بندھا ہوا تھا اور سر پر خون آلود پٹیاں بھی اُس کے زخمی ہونے کی گواہی دے رہی تھیں۔ تاہم اُس کے تیوار یہ بتارہے تھے کہ وہ موت سے پہلے ہار نہیں مانے گا۔
عاصم کے ساتھی نے کہا۔ ’’جناب! میں نے بہت کم رومیوں کو اس طرح لڑتے دیکھا ہے۔ یہ ایرانی اُس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ اگر اجازت ہو تو میں آگے بڑھوں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’نہیں، نہیں تم یہیں کھڑے رہو‘‘۔
قوی ہیکل ایرانی بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد وہ چلانے لگا۔ ’’بزدلو! کیا دیکھتے ہو؟ یہ اکیلا ہے۔ تم بھیڑوں کی طرح کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘۔
چند یہودی نوجوانوں نے آگے بڑھ کر رومی کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن اُس نے اچانک دائیں طرف حملہ کرکے دو آدمیوں کو زخمی کردیا اور پھر بائیں طرف ٹوٹ پڑا۔ اب یہودی کئی گز دُور ہٹ کر لڑنے کے بجائے صرف شور مچانے پر اکتفا کررہے تھے۔ ایرانی انہیں گالیاں دیتا ہوا دوبارہ اپنے حریف کے سامنے آگیا لیکن انتہائی جوش و خروش کی حالت میں چند وار کرنے کے بعد وہ دوبارہ پیچھے ہٹنے لگا۔
عاصم نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’اب یہ بیوقوف مارا جائے گا۔ اگر یہ سب یہودی قتل ہوجاتے تو میرے لیے پریشانی کی کوئی بات نہ ہوتی لیکن یہ ایرانی ہے اور میری موجودگی میں اِس کا ایک رومی کے ہاتھوں مارا جانا مناسب نہیں‘‘۔
عاصم کے ساتھی نے کہا۔ ’’جناب! مجھے اجازت دیجیے‘‘۔
’’نہیں! تم اُس کا مقابلہ نہیں کرسکو گے‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر تلوار نکال لی۔
اتنی دیر میں رومی نے پے در پے چند وار کیے اور ایرانی اپنے بازو پر زخم کھانے کے بعد اُلٹے پائوں بھاگتا ہوا پیٹھ کے بل گرپڑا۔ رومی نے اُس پر فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے تلوار بلند کی لیکن عاصم بجلی کی سی تیزی سے کود کر اُس کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ رومی کے چہرے پر ایک مغموم مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ عاصم پر چند وار کرنے کے بعد اُس کی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا۔
عاصم نے کہا۔ ’’تم بہادر معلوم ہوتے ہو لیکن زخمی ہو اگر ہتھیار پھینک دو تو ممکن ہے کہ میں تمہاری جان بچا سکوں‘‘۔
رومی نے جواب دیا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ تم مجھے قتل کرنے سے پہلے خالی ہاتھ دیکھنا چاہتے ہو، لیکن تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہوگی‘‘۔
’’میری یہ خواہش نہ تھی کہ جنگ کے بعد کوئی میرے ہاتھوں مارا جائے لیکن تم بہت بدقسمت ہو‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر پے در پے چند وار کیے اور رومی، جس کی قوتِ مدافعت ہر لحظہ جواب دے رہی تھی، اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتا ہوا دروازے میں پہنچ گیا۔ اچانک اُسے دہلیز کی ٹھوکر لگی اور وہ ٹوٹے ہوئے کواڑ پر گرپڑا۔
عاصم نے اُس کے سینے پر اپنی تلوار کی نوک رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم جیسے نوجوان کو موت سے اتنی محبت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
اچانک صحن سے نسوانی چیخیں بلند ہوئیں۔ ’’مجھے چھوڑ دیجیے، ابا جان! مجھے چھوڑ دیجیے۔ میں اُس کے ساتھ مرنا چاہتی ہوں۔ ابا جان! خدا کے لیے‘‘۔
عاصم نے نگاہ اُٹھائی سامنے ایک نوجوان لڑکی ایک عمر رسیدہ شخص کی گرفت سے آزاد ہونے کی جدوجہد کررہی تھی۔ ایک ثانیہ کے لیے عاصم کی نگاہ عمر رسیدہ آدمی پر مرکوز ہو کر رہ گئیں اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ فرمس تھا۔ نوجوان لڑکی، جس کے ہاتھ میں چمکتا ہوا خنجر تھا، اچانک اُس کی گرفت سے آزاد ہو کر آگے بڑھی اور اُس نے عاصم پر حملہ کردیا۔ لیکن عاصم نے بائیں ہاتھ سے اُس کی کلائی پکڑ لی اور وہ اُس کی آہنی گرفت میں بے بس ہو کر رہ گئی۔ رومی نے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن عاصم نے دوبارہ اپنی تلوار کی نوک اُس کے سینے پر رکھ دی اور فرمس کی طرف دیکھ کر چلایا۔ ’’فرمس! میں عاصم ہوں، وہ غریب الوطن، جسے تم نے اپنی سرائے میں پناہ دی تھی۔ اب باتوں کا وقت نہیں، اگر تم اِس نوجوان کی جان بچانا چاہتے ہو تو اسے سمجھائو کہ یہ بے حس و حرکت یہیں پڑا رہے ورنہ اُن لوگوں کے اندر آجانے کے بعد میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکوں گا‘‘۔
عاصم کا ساتھی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا اور اُس نے پوچھا۔ ’’آپ ٹھیک ہیں نا؟‘‘۔
میں ٹھیک ہوں۔ تم دروازے کے باہر کھڑے رہو اور کسی کو مکان کے قریب نہ آنے دو۔ یہ لوگ ہماری پناہ میں ہیں۔ عاصم یہ کہہ کر باہر نکلا تو گلی میں ایک اور تماشا ہورہا تھا۔ ایک عمر رسیدہ آدمی جو اپنے لباس سے یہودیوں کا مذہبی پیشوا معلوم ہوتا تھا، گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ ’’اندر مت جائو! یہ مکان رومیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بھاگو! فوج کو اطلاع دو! جلدی کرو، ورنہ وہ بیوقوف جو اکیلا اندر چلا گیا ہے مارا جائے گا۔ خدا کے لیے جلدی کرو۔ تم کیا دیکھ رہے ہو‘‘۔
قوی ہیکل ایرانی دانت پیستا ہوا اُٹھا اور آگے بڑھ کر عمر رسیدہ یہودی کو چند تھپڑ رسید کردیے پھر اُس کی ڈاڑھی پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’بزدل آدمی! تم شور مچانے کی بجائے انہیں آگے بڑھنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ