’’اس کی تقریر ہمیشہ صحیح اور دو ٹوہوتی ہے،وہ بولتی کم مگر سوچتی بہت زیادہ ہے،انداز بہت جوشیلہ اور دِل کو لگنے والا ہوتا ہے،اس سے مقابلے سے پہلے اس کی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کو شش کرو،ویسے ایک بات کہوں،میں نے اس کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا صبا،وہ سچّی ہے،تب ہی ہر میدان میں کامیاب ہو جاتی ہے‘‘
مِس روبینہ لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ صبا کی خالہ بھی تھیں،مگر صبا کو اس رشتے داری کا کبھی کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا،اور اِس بات کا صبا کو شدّت سے احساس تھا کہ ہمیشہ جان چھڑکنے والی خالہ اسکول میں انجان کیوں بن جاتی ہیں،کبھی تو کوئی فائدہ حاصل ہو،ایسی بھی کیا ایمانداری؟خیر اب مسئلہ یہ تھا کہ اسکول میں تقریری مقابلہ ہونا تھا اور موضوع تھا یومِ پاکستان،اور خالہ روبی یعنی مِس روبینہ اردو کی بہت اچھی ٹیچر تھیں،کیا تھا جو ایک تقریر لکھ دیتیں،مگر نہیں خود لکھو،اور تو اور مقابلے پر وہ پڑھاکو سارہ تھی،بس سر پہ دوپٹّہ،ہاتھوں میں کتاب ،اپنے کام سے کام،اسکی سہیلیاں بھی ساری اسکے ہی جیسی تھیں،اگر خالہ نے تقریر نہ لکھی تو میں تو کبھی نہیں جیت پاؤںگی۔
’’کیا ہوا کیوں پریشان ہو؟‘‘
لو یہ کیا،پریشانی پوچھ رہی ہے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہ کیوں پریشان ہو،سامنے سارہ کھڑی تھی۔
’’کچھ نہیں ایسے ہی‘‘
’’سچ بولو ،جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس میں غلط کو ڈھونڈو،بہت غور کرو،کتابوں کا مطالعہ کرو،اللہ سے مدد مانگو،تم یہ مقابلہ جیت جاؤگی‘‘
سارہ نے تسلّی دی۔
’’ نہیں میں پریشان تو نہیں ہوں،اور تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’ابھی کہہ رہی ہو میں پریشان نہیں ہوں،پھر کہ رہی ہو تمہیں کیسے پتا چلا‘‘
سارہ مسکرانے لگی۔
’’جب تم مِس روبینہ سے میرا نام لے کر کچھ کہ رہی تھیں،میں نے سن لیا تھا‘‘
پھر وہی سچ بولا جس سے ساری دنیا امپریس ہے،صبا دِل میں سوچ کہ رہ گئی۔
سارہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی،صبا کو دیکھ کر مسکرائی،’’تم پریشان مت ہونا،میں دس دِنوں کے لیے نانو سے ملنے اسکردو جا رہی ہوں،مقابلے سے میرا نام ہٹوادیا گیاہے‘‘
صبا کی سمجھ نہ آیا کہ حیران ہو،خوش یا شرمِندہ،مگر موقع جانے نہ دِیا۔
’’تو کیا تم میری تقریر لکھ دو گی؟‘‘
سارہ نے پلٹ کر دیکھا،پھر مسکرائی اور مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا کر چلی گئی۔
’’بالکل ہی عجیب ہے‘‘ صبا نے دِل میں سوچا۔
وہ کیا ہے نا کہ سچّے لوگ عجیب ہی لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
’’اس نے تمہیں صحیح سمجھایا ہے،سچ بولو،غور کرو،غلط کو غلط کہو‘‘
خالہ روبی نے ساری کہانی سُنی اور مشورہ واٹس ایپ کر دِیا۔صبا نے غصّے میں امّی کے موبائل میں روبی کا نام بدل کے’’مس روبینہ‘‘ کر دیا۔
مگر معاملہ سنجیدہ تھا،صبا نے سارہ کے دیے ہر مشورے پر عمل کیا،اور دو تین بعد بہت محنت سے ایک تقریر تیّار کی،جب صبا کا نام پکارا گیا تو وہ اُمید کے ساتھ اسٹیج پر گئی،میں سچ بولنے جا رہی ہوں،ہار بھی گئی تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم،محترم اساتذہ کرام اور میرے عزیز ساتھیو! السلام علیکم، آج میری تقریر کا موضوع ہے یومِ پاکستان،یعنی وہ دِن جب تمام پاکستانی ایک جھنڈے تلے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے دعا گو اور اس کی ترقّی کے لیے جوش و جذبے سے بھرپور عزائم کا اظہار کرتے ہیں،مگر مجھے اپنی ہی بات کہتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہو رہی ہے، پیارا پاکستان تو باہمی الجھنوں کو شکار ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا،سب ایک دوسرے کو اونچا اور نیچا دِکھاتے رہے،اخلاقیات کے دائرے ٹوٹتے رہے اور پیارا پاکستان نظر انداز ہوکر کبھی پانی،کبھی،تعلیم،کبھی بجلی،بھوک اور غربت جیسے مسائل کا شکار ہوتا گیا،ایک دوسرے کی مسجدوں میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے کے فتوے لگتے رہے اور رمضان المبارک میں وجود پانے والا پیارا وطن اکیلا ہوتا گیا،اور اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان،یومِ پاکستان کا نام سن کر ہنسنے اور رودینے کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوگا،”سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے” لہک لہک کر گانے والے وطن کے پاسبان،ہر جھنڈے کو اونچا کرکے،سیاسی جماعتوں میں بٹ کر صرف اس ہی جھنڈے کو نیچا کرتے ہیں۔میرے عزیز ساتھیو،ابھی سفر کٹھن ہے،مگر کیا ہم پر حق نہیں ان جانوں کا جو اس ملک کی خاطر قربان ہوئیں تھیں،کہ ہم اِن کٹھن راستوں سے گزر کر اس ملک کا نام روشن کریں،ہم محنت کرکے اپنے پیارے پاکستان کو وہ مقام دیں کہ باقی اقوام بھی حیرت زدہ ہوجائیں،ہم سائنس کے میدان میں ترقّی کرکے اسلام اور پیارے پاکستان کا حق ادا کریں،میرے ساتھیو،یومِ پاکستان پر میرا یہی پیغام ہے کہ ابھی بہت قرض چکانا ہے،ہمّت سے آگے بڑھنے کا عزم کریں ،تھامیں ایک دوسرے کا ہاتھ،دور کریں ہر اختلاف اور آسمانوں کو چھو لیں۔
اللہ اس ملک کو دائم آباد رکھے آمین
بقول اقبال
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
بجتی ہوئی تالیوں کی گونج میں جو چہرہ سب سے زیادہ صبا پہ فخر کر رہا تھا وہ روبی خالہ کا تھا،اور دور کہیں اسکردو میں سارہ کی مسکراہٹ صبا کو محسوس ہورہی تھی۔