!!کچھ نہ کچھ

353

’’اگر کچھ نہ بھی ہو،کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے‘‘۔
بابا جی نے یہ الفاظ کہے اور صائم کی آنکھ کھل گئی۔بابا جی بہت دِنوں کے بعد اس کے خواب میں آئے تھے۔وہ تو آتے بھی بہت دنوں بعد تھے،سال میں شاید تین دفعہ،کبھی ان کی باتیں فوراً سمجھ آجاتیں،کبھی بہت زور دینا پڑتا ذہن پر۔اور یہ بات بھی ایسی ہی تھی۔
صائم کو اپنے ملک کے لوگوں جن میں عبد الستار ایدھی،انصار برنی اور ان جیسوں کو دیکھ کر لوگوں کی مدد کرنے کا بہت دل چاہتا،وہ پڑھنے لکھنے کا بہت شوقین،بڑوں کا فرمانبردار بچّہ تھا۔ ابّا رکشہ کی ایک دِن کی کمائی سے جب سبزی کھانا گھر لاتے تو گزارا ہو ہی جاتا،ہاں جب منّی بیمار ہوجاتی تو گھر میں کھانا کم ملتا تھا۔ایسے میں صائم سوچتا،”میں کسی کی مدد کیسے کرونگا؟میں کیسے کسی کی بھوک مٹائونگا؟
وہ اس عمر میں رکشہ تو چلا نہیں سکتا تھا،تو سوچا امّاں سے تھوڑے بہت پیسے لے کر گل دستے بیچنا شروع کر دیا۔
’’ایک دن میں ضرور اتنا کما لونگا کہ بہت ساروں کی بھوک مٹا سکوں‘‘
وہ دل میں سوچ کہ سویا تو بابا جی خواب میں آکر کہنے لگے
’’کسی کی بھوک مٹانے کے لیے،خود کا پیٹ بھرا ہونا ضروری نہیں‘‘
وہ جاگ کر سوچنے لگا،مدد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ بھی کہاں سے لاؤں،جو کماتا ہوں اس میں سے تیس روپے تو بچتا ہے،اس سے بس میری اور امّاں کی روٹی آتی ہے،امّاں بھی پتا نہیں خود کھاتی ہے یا ابّا کے لیے رکھتی ہے،یہ امّائیں بھی نا،قربانیاں بہت دیتی ہیں،ہر بھوک مٹانے والے کو اللہ بہت عظیم بناتا ہے۔جب ماں کچھ نہ ہوتے بھی،’’کچھ نہ کچھ‘‘ دے کر بھوک مٹالیتی ہے،تو میں کیوں نہیں مٹا سکتا۔کل ان شاء اللہ میں ضرور کسی کو کھانا کھلاؤنگا۔
اور پھر اگلے دن اتّفاقاً اس کی کمائی تیس روپے بھی نہ ہوئی۔مگر خود سے کیا وعدہ تو نبھانا تھا۔اسنے آج چار روٹیاں لیں،امّاں کی دو روٹیاں الگ کیں،ایک روٹی سے اسکا پیٹ کیسے بھرے گا؟اسکو اس وقت یہ فکر نہ تھی بلکہ یہ کہ اس ایک روٹی سے کسی اور کا کام بن جائے گا؟؟
اور پھر خود بھی صائم کو بھوک محسوس ہونے لگی،مگر حوصلے پست نہ ہوئے،اسنے ہاتھ پھیلائے ایک بچے کو روٹی تھمادی،اور پھر منے سے صائم نے ننھے سے بچّے کو گلے لگایا،اور پھر وہ ننھا پھول بھی روٹی لینے سے زیادہ گلے لگ کر خوش ہوا تھا،انسان کسی کی بھوک نہ بھی مٹائے ،کسی کو محبّت تو دے ہی سکتا ہے،صحیح کہا تھا بابا جی نے،’’اگر کچھ نہ بھی ہو،کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے‘‘
صائم کو بستر پہ بھوک لگ رہی تھی،مگر پھر بھی وہ جاگا نہیں،سکون سے سویا،اور پھر اس نے دیکھا،بابا جی بھی مسکرا رہے تھے۔

حصہ