اور نیند کے بعد
میں جب نیند سے جاگا تو وہاں کوئی ملاح اور تاجر نظر نہ آیا۔ مجھے اپنے پہلے سفر کی مصیبتیں یاد آنے لگیں۔ اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا۔ بغداد میں کتنی سکھ کی زندگی گزر رہی تھی۔ میں وہاں سے کیوں آیا۔جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا، اب پچھتانے کی کیا ضرورت۔ میں نے اپنے دل میں کہا، “بیٹھنے سے کیا فائدہ سندباد جہازی۔ اٹھو، مثل مشہور ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے۔”
میں ایک درخت پر چڑھ گیا کہ چھٹکارے کا کوئی راستہ دیکھوں۔ دور سمندر میں ایک جہاز جا رہا تھا۔ یہی میرا جہاز تھا جس پر سوار ہونے سے میں رہ گیا تھا۔ باقی جگہ سوائے درختوں کے اور کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ دور مجھے ایک عجیب چیز نظر آئی، سفید سی اور اتنی بڑی جتنا کہ کسی عمارت کا گنبد ہوتا ہے۔ میں درخت سے نیچے اترا اور اس کی طرف روانہ ہوا۔ گھنٹوں چلا اور تھک کر چور ہو گیا۔ شام کو مشکل سے اس تک پہنچا۔ اب جو اسے غور سے دیکھتا ہوں تو ایک انڈا سا نظر آ گیا۔ اگر گنبد ہوتا تو اس کے نیچے مکان ہوتا۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوتے۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے اور میری نگاہ کے درمیان کوئی ایسی چیز آ گئی کہ اندھیرا سا چھا گیا۔
سیمرغ
میں نے اپنی آنکھیں ملیں اور غور سے دیکھا تو ایک بہت ہی بڑا پرندہ تھا۔ یہ رخ تھا جی سیمرغ بھی کہتے ہیں۔ میں نے ملاحوں سے اس کے بارے میں کی قصّے سن رکھے تھے۔ انہوں نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ سیمرغ اتنا بڑا پرندہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چوزوں کو ہاتھی کھلاتا ہے۔ اب حقیقت کھلی۔ وہ سفید گنبد اس کا انڈا تھا جس پر بیٹھنے کے لیے وہ آیا تھا۔ رخ اترا۔ انڈے پر بیٹھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ سو گیا ہے۔ نہ کوئی حرکت اور نہ آواز سنائی دیتی تھی۔ خواب کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ عظیم پرندہ وادی وادی گھومتا ہو گا۔ کیوں نہ میں اس کے پنجوں سے لٹکا رہوں۔ میں نے اپنے سر سے پگڑی اتاری اور یہ تدبیر سوچی کہ میں کس طرح اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھوں۔ میں چپکے چپکے اس کے قریب گیا اور اس تدبیر کے مطابق میں نے اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھ دیا۔
(جاری ہے)