بشریٰ فرخ اردو اور ہندکو زبان کی ادیبہ اور شاعرہ ہیں‘ مستقل طور پر پشاور میں رہائش پذیر ہیں‘ ان کی اب تک 13 کتابیں آچکی ہیں جن میں سفر نامہ‘ حمدیہ مجموعہ کلام‘ نعتیہ مجموعہ کلام‘ اردو شاعری اور ہندکو شاعری شامل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’لڑکیاں بند کتابوں جیسی‘‘ 208 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایک حمد‘ ایک نعت اور 84 غزلیں شامل ہیں۔ بشریٰ فرخ کے بارے میں چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خٹک نے کہا کہ بشریٰ فرخ اپنے دور کے نمائندہ قلم کاروں میں شامل ہیں‘ ملکی اور عالمی سطح کی کانفرنسوں اور مشاعروں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی یہ شخصیت قابل قدر ہیں۔ ستیہ پال آنند نے لکھا ہے کہ رمز اور استعارے کے برمحل استعمال ہی شعر کو حسن بخشتا ہے۔ بشریٰ فرخ نے گنجلک استعاروں سے پرہیز کیا ہے لیکن سہل ممتنع میں خوش سلیقی اور مفہوم کی بھرپور ادائیگی سے کمال پیدا کیا ہے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ بشریٰ فرخ کی یہ کتاب داخلی اور خارجی سطحوں پر متوازن امتزاج کا اظہار ہے‘ ان کے ہاں عصری آگہی‘ روایت‘ حسن کے ساتھ ساتھ گہرائی اور گیرائی ہے۔ یہ نسائی لہجے کی غزل گو اور نظم نگار ہیں انہوں نے ایک پختہ کار شاعرہ کی طرح توازن اور اعتدال کے ساتھ دلآویز محبوب کو پیش کیا ہے‘ ان کے اشعار میں ستر سال پہلے والی غزل کے اسلوب اور مضامین کے بجائے نیا طرز احساس ہے۔ ’’لڑکیاں بند کتابوں جیسی‘‘ ایک لاجواب مربوط اور مبسوط نظم ہے جس میں شاعرہ نے مشرقی تہذیب میں لڑکیوں کی گھر میں مرکزیت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بیٹیاں ماں باپ کی راج دلاری اور گھر بھر کی رونق ہوتی ہیں‘ چڑیوں کی طرح گھر میں خوب صورتی کی علامت ہوتی ہیں جب وہ ایک نیا آشیانہ بنانے کے یے رخصت ہوتی ہیں تو ماں باپ کا دل بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ اس نظم میں شاعرہ نے ہنرمندی کے ساتھ ہمارے معاشرے کی سچی تصویر کشی کی ہے۔ شاعر علی شاعر کہتے ہیں کہ فکر و خیال‘ زبان و بیان اور شاعرانہ مندی کے اعتبار سے بشریٰ فرخ ایک کامیاب شاعرہ ہیں انہوں نے اپنے جذبات کو شاعرانہ سلیقے کے ساتھ ماہرانہ اسلوبِ بیان میں پیش کیا ہے ان کا کلام شعری جمالیات سے مزین ہے۔