ڈنمارک‘ ناروے اور بعض دوسرے مغربی ممالک کے اخبارات میں حال ہی میں اپنے ذہنی جہل اور فکری و اخلاقی افلاس کا ثبوت دیتے ہوئے نبیٔ رحمتؐ کے جو توہین آمیز خاکے ’’کارٹون‘‘ شائع کیے جا رہے ہیں اُس پر عالم اسلامی میں رنج و الم اور غم و غصہ کی لہر ایک فطری امر ہے کیونکہ قرآن کریم میں محسن انسانیت کی کردار کشی اور ان کے ساتھ گستاخانہ رویہ رکھنے والوں کی متعدد مقامات پر مذمت کی گئی ہے اور قرآن کریم کی انہی آیات کی بنیاد پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے لکھاہے کہ جس نے اللہ کے رسولؐ کی بے حرمتی کی یا اس کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال کی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے انتقام لے گا۔
شبِ ظلمت کو صبح نو کی کرنیں کہنے والے انسانیت دشمن فرقے کا اسلام اور اس کے نبی رحمت کے گستاخانہ رویہ اس صلیبی جنگ جس میں مغرب نے اپنی شکست کے بعد اسلام کے خلاف جو منصوبے بندی کی تھی اس کا ایک حصہ ہے اور اس مذموم حکمت عملی کے اہداف و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے امریکن کیتھولک چرچ کی انجمن کے صدر مارشل بولڈ اون نے مذکورہ انجمن کے 1941ء کے سالانہ اجلاس میں کہا تھا:
’’مغرب اسلام کو صرف موجودہ تمدن کے لیے ہی خطرناک نہیں تصور کرتا بلکہ عالم مسیحیت اور مختلف عیسائی فرقے کم از کم ایک ہزار سال سے اسلام کے خلاف نبرد آزما ہیں۔‘‘ مسٹر مارشل اگر تاریخ کا صحیح مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ نبیٔ رحمتؐ کی کردار کشی کی مذموم مہم کی عمر اتنی ہی ہے جتنی خود اسلام کی اور اس کی ابتدا خود ہادی عالم کی حیات طیبہ میں شروع ہو چکی تھی اور جس کی نشان دہی سورۃ القبرہ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدہ اور الانعام‘ الاعراف‘ الاسراء‘ الاحزاب‘ مریم اور سورہ صف میں کر دی گئی ہے اور شاعر رسول حسان بن ثابتؓ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا
فرحت نصاری یثرب و یہودھا
مسا تواری فیالضریح الملحد
اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں رحمت عالم کی زندگی میں انسانیت دشمن فرقے کی اُن کی کردار کشی کی مہم کو قلم بند کیا ہے نیز مصر کے مشہور عالم دین شیخ محمد ابو زہرہ مرحوم نے اپنی کتاب ’’تاریخ الجدل‘‘ اور ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب‘‘ میں ہادی عالمؐ کی کردار کشی کرنے والے مجرموں کی سیاہ تاریخ کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے مسٹر مارشل نے اسلام اور نبی رحمتؐ کے خلاف جس مذموم ہر زار سالہ جدوجہد کا ذکر کیا ہے ہو ہزار سالہ انسانیت کی تاریخ کے سیاہ ابوب ہیں جس میں اخلاقی‘ تہذیبی‘ فکری اقدار کی کیا قدر و قیمت تھی اس پر مغرب ہی کے ایک اہل قلم نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب The Making of Humanity میں لکھا ہے کہ:
’’پانچویں صدی سے لے کر دسویں تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی اس دور کی وحشت و بربریت زمانہ قدیم کی وحشت و بربریت سے کئی گنا زیادہ بڑھی ہوئی تھی اس کی مثال مرے تمدن کی لاش دے رہی تھی جو سڑ گئی ہو اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔ لیکن اس فکری‘ عملی‘ اندھیاری میں بھی نبیٔ رحمتؐ کے کردار کشی کی مہم جاری تھی چنانچہ آٹھویں صدی عیسوی میں پادری یوحنا سیرت نبیؐ پر ایک کتاب لکھ کر اسلام کو عیسائیت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کا مقابلہ اور نبیٔ رحمتؐ کی کردار کشی کرنے کا مطالبہ کیا۔ گیارہویں صدی میں مستشرقین نے پادری یوحنا کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے نبیؐ رحمت کی کردار کشی کرنے کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں جن کا تفصیلی جائزہ ڈاکٹر نجیب العنیعی نے اپنی کتاب ’’المستشر قون‘‘ میں پیش کیا ہے۔ نبی رحمت کی کردار کشی کرنے والے مستشرقین کے سرفہرست برو کلیمان‘ مونٹ گری‘ ولیم میور‘ وول ولیورائٹ‘ گوستاف لوبون‘ جون کیٹی‘ ذی ینگ‘ بوذیہ اور پروفیسر مارگولتھ کے نام ہیں مغرب کی حالیہ اسلام دشمن تحریکوں کو مذکورہ مستشرقین کی دروغ گوئی اور ان کی غیر معتبر کتابوں نے جنم دیا ہے اور نبیؐ رحمت کی کردار کشی کے لیے ایک ایسے فکری معاشرے کی داغ بیل ڈالی جس پر آنسو بہاتے ہوئے ڈاکٹر الیکس کیرل نے اپنی کتاب Man the Unknown میں لکھا ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب و تمدن نے انسانی قدروں اور ان کی تمام خصوصیات کو تباہ و برباد کردیا ہے کیوں کہ اس کا وجود ہماری فطرت کو سمجھے بغیر عمل میںآیا‘ ہم مغربی لوگ اخلاقی و فکری طور پر انتہائی درہ پست سطح پر گر چکے ہیں اور ہم صنعتی ترقی کی انتہائی بلندیوںتک پہنچنے کے باوجود گھٹیا اور بدقسمت لوگ ہیں اور اس گھٹیا پن اور اخلاقی گراوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے سابق صدر اور فلسفی ڈاکٹر رادھا کرشنن نے لکھا ہے کہ اہلِ مغرب سمندر میں گہرے غوطے لگانے لگے اور ہوائوں میں اڑنے لگے لیکن زمین پر شریف و مہذب انسانوں کی طرح چلنا نہیں سیکھ سکے۔
اس اخلاقی تہذیبی گراوٹ و زوال لانے کا سہرا مغرب کی اس متولی اور اس کی سیاست پر قابض اس فرقے کے سر ہے جوفرانس کے صنعتی انقلاب لانے کے بعد پورے مغربی معاشرے میں کینسر کی طرف پھیل گیا‘ بزدلی‘ مجرمانہ ذہن‘ قساوت قلبی‘ ناشکر‘ کذب‘ بہتان تراشی‘ مکر و فریب‘ دھوکہ دہی‘ دولت کی پرستش‘ عہد شکنی‘ تکبر و غرور‘ فسق و فجور اور بے حیائی ان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں نمایاں صفات قرار پائیں اور اس نیاہلِ مغرب کو صدا کی کہ تم اپنے عقائد اور اپنے اخلاق اور اپنی تہذیبی انداز کو چھوڑ کر ہمارے کاروانِ تہذیب کے غلام بن جائو اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ظلمت و تاریکی کی پرستش کرنے والے اہل مغرب کے ایک فرقے نے آسمانی تعلیمات سے اپنا رشتہ توڑ کر مذکورہ انسانیت دشمن نام نہاد کاروان تہذیب کو طوق غلامی پہن لیا اور جس کا فطری نتیجہ صرف مذہب سے بغاوت ہی نہیں بلکہ اس کی تعلیمات کے ساتھ استہزاء اور مذاق اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰم و السلام کی کردار کشی تھا اور چونکہ پادری یوحنا نے اسلام کو عیسائیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اس بے حیا مذکورہ حیا سوز کاروان تہذیب کی طوق غلامی پہننے والوں نے اپنی ذہنی پستی اور اخلاقی مفلسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دین رحمت ہی کو اپنا نشانہ بنایا۔
مغرب کی اس دینی بیزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور جرمن دانشو ’’مراء ھوف‘‘ نے 2000ء میں اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں اپنے لیکچروں میں کیا کہ خود مغرب کے دانشور اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اہل مغرب مذہب کے دامن کو دوبارہ نہیں پکڑتے تو صرف اپنے آپ ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو تباہ کر ڈالیں گے۔ ’مراء ھوف‘‘ نے امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ بیل کی کتاب ’’سرمایہ داری کے ثقافتی تضادات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اخلاقیات کی تعمیر نو کے لیے کسی نہ کسی مذہب کو اپنانا ضروری ہے انہوں نے ایک امریکی سفارت کار ولیم آغلس کی اس پیش گوئی کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مغربی دنیا کمیونزم کی طرح مسمار ہو جائے گی کیوں کہ اس کا دامن دینی اقدار کے موتیوں سے خالی ہے اور کوئی بھی انسانیت تہذیب مذہبی عقائد و اقدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔
لیکن افسوس کہ ظلمت و تاریکی کی پرستش کرنے والے اہلِ مغرب کے ایک فرقے نے آسمانی تعلیمات سے اپنا رشتہ توڑ کر اس کاروان تہذیب کا طوقِ غلامی پہن رکھا ہے جس کا بنیادی مقصد مذہب سے بغاوت‘ اس کی تعلیمات کی ساتھ استہزاء و مذاق اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ السلام کی کردار کشی ہے۔ پادری یوحنا نے چونکہ اسلام کو عیسائیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اس لیے مذکورہ حیا سوز نام نہاد کاروان تہذیب کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے لوگوں نے تاریخ مذاہب کا مطالعہ کیے بغیر اپنی ذہنی پستی اور فکری و اخلاقی مفلسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دینِ رحمت ہی کو اپنا نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ان کی مذہب کی تحقیر و تذلیل کے لیے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بعض دکانوں میں سامان کی پیکنگ کے کاغذ پر سورۃمریم اور سورۃ البقرہ کی ابتداء کی آیات طبع کرائی گئی تھی ۔ڈنمارک‘ ناروے اور بعض دوسرے یورپی ممالک نے نبی رحمت کی کردار کشی کے جو دل آزار خاکے شائع کیے ہیں وہ اسی انسانیت دشمن تہذیب کے کاروان کی منصوبہ بندی کا امتسدداد اور اس کا مظہر ہے۔ مغرب اس اخلاق سوز اور دل آزار حرکت کا دفاع آزادیٔ رائے کا نام پر کر رہا ہے۔ مغرب کا جس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں دوہرا معیار ہے اسی طرح اس کا آزادیٔ رائے میں بھی دوہرا معیار ہے جس کی زندہ مثال امریکی ڈراموںکے مشہور تنقید نگار ’’پیٹرسن گیری‘‘ ہیں‘ جنہوں نے 25 دسمبر 1970ء میں اپنے رسالے ’’ڈرامک مور‘‘ میں امریکی ڈراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’عجیب سانحہ یہ ہے کہ امریکی ڈراموں پر وہ جماعت چھائی ہوئی جس کی نشوونما صحیح طریقے سے نہیں ہوئی اس جماعت کی پوری تاریخ رسوائیوں سے بھری ہوئی ہے‘ یہ آبرو باختہ جماعت ہے اور اعلیٰ فنی مہارت‘ ذوقِ جمال اور رعنائی خیال سے یکسر محروم ہے اس لیے امریکی ڈراموں میں ان کا کردار بھی مجرمانہ ہے جو ان کے قومی کردار کا عکس ہے۔‘‘ اس تنقید پر پوری انسانیت دشمن صحافت میں بھونچال آگیا اور اس نے عیسائی تنقید نگارکے خلاف طوفان کھڑا کر دایا ور امریکا اور یورپ کے اخبارات و رسائل تقسیم کرنے والے اداروں نے مذکورہ رسالے کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور یہ تمام مغربی ڈراما اسٹیج کرنے والی کمپنیوں نے پیٹرسن گیری کا صرف بائیکاٹ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف مقدمہ دائر کرکے اس سے دس لاکھ ڈالر جرمانہ کا بھی مطالبہ کیا۔
مغربی مفکرین نے شخصی آزادیٔ رائے اور اظہار خیال کے حدود و شرائط رکھتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’آزادیٔ رائے کو بے لگام نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ چنانچہ ایچ ایم سروانی نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کا دستوری قانون‘‘ میں امریکن سینٹر بلیک اسٹون کی آزادیٔ رائے پر ایک تقریر کا یہ اقتباس نقل کیا ہے:
’’خطرناک اور مجرمانہ تحریروں پر سزادینا امن و امان اور حکومت و مذہب کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کیوں کہ انہی پر شہری آزادی کی بنیادیں قائم ہیںاس لیے کہ افراد کا ضمیر تو آزاد ہے لیکن اس کے غلط استعمال پر سزا دینا تعزیراتی قانون کا مقصد ہے۔‘‘
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ رسول رحمتؐ کے ہتک آمیز خاکے اسلام دشمنی اور نبی اسلام کی کردار کشی کی مہم کا ایک حصہ بلکہ بڑھا ہوا قدم ہے جس کی ابتدا دین رحمت کی رحمت کی ابتدا کے ساتھ ہی ہوچکی تھی اور پیٹرسن گیری کے بائیکاٹ نے اس آزادیٔ رائے کا بھی پول کھول دیا جس کے نام پر انسانیت دشمن ٹولہ صرف مذہبی اقدار کو اپنی پیروں تلے نہیں کچل رہا بلکہ اس کا سہارا لے کر کرۂ ارض کو معصوموں اور بے گناہوں کے خون سے لالہ زار کر رہا ہے۔
رسول انسانیتؐ کے خلاف مذکورہ یورپین اخبارات کے نازیبا رویے پر صدائے احتجاج بلند کرنا اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کرنا ہماراجائز حق ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس احتجاج کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ کیا ہم یہ احتجاج تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے کریں یا اس نبی رحمتؐ کے وضع کردہ اخلاقی اصول و ضوابط کے دائرے میں کریں جس کے بارے میں خاکی نے کہا تھا ’’سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں‘‘
مہبط وحی میں رسول رحمتؐ نے آنکھیں کھولیں اور پھر اپنے انسانیت دوست‘ عالمگیر مشن کی ابتدا کی اس پر قائم خاک حرم مکی اور زمزم کے قطروں کا انسانیت کے نام صرف ایک ہی پیام ہے ’’کونواانصاراللہ‘‘ یعنی دین رحمت کی نصرت کا خالق کون و مکاں دین رحمت کی نصرت کے لیے جذبات کو برانگیختہ کرنے والی شعبہ بیان تقریب نہیں چاہتا‘ رسول رحمت اپنے لائے ہوئے دین کی نصرت کے لیے تشدد اور توڑ پھوڑ نہیں چاہتے کیوں کہ تشدد اور توڑ پھوڑ ان کے عالمگیر انسانیت دوست مشن کی روح اور اس کے اہداف و مقاصد کے خلاف ہے۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذکورہ سانحہ یا آئندہ ممکنہ اسلام دشمن حرکتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور اس کی مذمت کرنے کے لیے قرآن حکیم‘ سیرت مطہرہ کو اپنے لیے چراغِ راہ بنائیں۔ دنیا کو یہ بتلائیں وہ اس خیر و برکت والی تہذیب کے علمبردار ہیں جس نے زورِ بازو یا نوکِ شمشیر سے لاکھوں انسانوں کے دل نہیں جیتے بلکہ اس نے کتاب و سنت کے مقرر کردہ اخلاقی اصول و ضوابط کے ذریعے راہِ حق سے بھٹکے ہوئے دانشوروں کی فکر کو بدل ڈالا اور حکمت و دانش مندی کے ساتھ سب وشتم کرنے والی زبانوں کو گنگ کر دیا اور ان کے باطل دلائل کے لشکروں کو شکستِ فاش ہوئی۔
امتِ مسلمہ‘ جو آج اپنے محبوب نبیؐ کے خلاف گستاخی کرنے والوں کے خلاف مختلف انداز میں صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے‘ اسے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرناچاہیے کہ وہ اس موقع پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام کے اخوت و بھائی چارگی کے عالمگیر مشن کے اہداف و مقاصد سے متعارف کرائیں کیوں کہ ان کے پاس سب سے بڑی طاقت وہ فطری‘ معقول‘ پرکشش اور دل و دماغ کو تسخیر کرنے والا دین‘ قرآن کریم کا اعجازی صحیفہ اور خام الانبیاء نبی رحمت کی دل کش اور دل آویز سیرت اور اسلام کی قابل فہم اور قابل عمل اور عقل سلیم کو متاثر کرنے والی وہ تعلیمات ہیں جو اگر صحیح دماغ اور صاف ذہن سے پڑھی جائیں تو اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہیں۔ یہی سلف صالحین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم و اجمعین کا طریقہ کار تھا جس نے دنیا کے وسیع ترین رقبہ اور متمدن اور ذہین قوموں کو نعمت توحید خالص کی نعمت سے نوازا اور بے شمار ملک جو اپنی صدہا سال کی تہذیبیں‘ فلسفے اور حکومتیں رکھتے تھے وہ کاروان نبی رحمتؐ میں شامل ہوکر اس کی داعی و مبلغ بن گئے۔