”یار اکرم جب سے بھولو لاپتا ہوا ہے رانی کے تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے، اب تو اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے، ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حیران ہوں دوائیاں بھی اپنا اثر نہیں دکھا رہیں! اگر یہی حالت رہی تو رانی کا بچنا مشکل ہے۔ خوراک زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے، جب کھانا پینا ہی چھوٹ جائے تو ڈاکٹر کیا کرے! تھوڑا بہت کھائے گی تو ہی دوائیاں بھی اثر کریں گی، اسے اس طرح غمگین دیکھ کر سب پریشان ہیں، دادی اماں تو رانی کے پاس سے اٹھنے کو بھی تیار نہیں، دائم اور حسّان کی کیفیت کو تو تم جانتے ہی ہو، کیسے باؤلے ہوگئے ہیں!“
”اکبر بھائی جس کا گبھرو جوان بچہ گم ہوجائے اُس کی حالت ایسی ہی ہوجایا کرتی ہے، اُس کی تو دنیا ہی اندھیر ہوجاتی ہے۔ اس کا دکھ ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔ بھائی! میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، یہ بیچاری بھی کس سے اور کہاں جاکر اپنا دکھ بیان کرے! جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپ ہی کو کرنا ہے، رانی کی حالت دیکھ کر لگتا ہے جیسے زندگی سے مایوس ہوگئی ہو۔ میری تو یہی دعا ہے کہ اس کا بچہ مل جائے تاکہ اس کی مامتا کو چین مل جائے۔ محلے کے سارے لڑکے ڈھونڈ رہے ہیں، مجھے پوری امید ہے کہ بھولو ضرور مل جائے گا، اور ہاں یاد آیا، تم نے بھولو کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے؟“
”نہیں اکرم بھائی، رپورٹ کیا درج کرواؤں، پولیس کا تو تمہیں پتا ہی ہے، بات بات پر پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں، معمولی سے شناختی کارڈ کی گمشدگی پر ایف آئی آر کٹوانے کے لیے منہ مانگی رقم ادا کرنی پڑ جاتی ہے اور یہ تو بھولو کی گمشدگی کا معاملہ ہے، نجانے موبائیل میں پیٹرول ڈلوانے کے نام پر کتنے پیسے مانگ بیٹھیں، اسی ڈر سے تھانے جانے سے گریز کررہا ہوں۔“
”ارے نہیں اکبر بھائی! گمشدگی کی شکایت درج کرانا بھی تو ضروری ہے، یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، اور پھر بچے بھی آخر کب تک بھولو کو تلاش کرتے رہیں گے؟ آخرکار دل برداشتہ ہوکر بیٹھ جائیں گے، پھر کیا ہوگا؟ میری بات مانو، حالات ٹھیک نہیں ہیں، اس سے پہلے کہ بھولو غلط ہاتھوں میں چڑھ جائے اور وہ لوگ اسے کسی دوسرے شہر لے جائیں ہمیں قانون کی مدد لے لینی چاہیے، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اور ویسے بھی سرکاری محکموں میں سب ایک سے نہیں ہوتے، پولیس میں بھی اچھے، ایمان دار اور فرض شناس افسر موجود ہیں، مجھے پوری امید ہے پولیس ہماری مدد کرے گی اور بھولو کو ضرور بازیاب کروا لے گی۔“
ابھی اکرم، اکبر بھائی کو اپنے قانونی مشورے دے ہی رہا تھا کہ گلی سے ”بھولو مل گیا، بھولو مل گیا“ کا شور سنائی دینے لگا۔ باہر سے آتی آوازوں نے تو جیسے دادی اماں میں ایک نئی توانائی بھر دی، ”کہاں تھا بھولو؟ کون لایا ہے میرے بھولو کو؟ کہاں ہے میرا بھولوِ؟“ ایک ہی سانس میں کئی سوالات کرتی دادی، حسان کے پیچھے پیچھے گلی کی جانب آگئیں۔ بھولو کو دیکھتے ہی رانی کو تو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو، اُس کی خوشی کی انتہا نہ تھی، وہ کبھی بھولو کے گرد چکر لگاتی، تو کبھی اپنا سر اوپر اٹھاتی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا جیسے اپنے رب کا شکر ادا کررہی ہو۔ رانی کی حرکتیں دیکھ کر میرا ایمان اس بات پر مزید پختہ ہوگیا کہ انسان ہو یا جانور.. مامتا کا پیار لازوال ہوتا ہے، رانی بھولو کے مل جانے پر اس قدر موج میں تھی کہ قریب رکھے چارے سے بھرے ٹب میں منہ مارنے لگی، یوں دو دن سے بھوکی رانی کو چارہ کھاتے دیکھ کر بچے زوردار تالیاں بجانے لگے۔
ویسے تو اب بھولو کے بارے میں مزید بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی بتاتا چلوں کہ اکبر بھائی نے اپنے گھر میں شوقیہ طور پر جانور پال رکھے ہیں، اور گھر والوں نے گائے کا نام ”رانی“ جب کہ بچھڑے کا نام ”بھولو“ رکھا ہے، اسی لیے اکبر بھائی کے گھر والوں کا بھولو کی گمشدگی پر افسردہ ہونا فطری عمل تھا۔ سوچیے، ہم سال میں ایک مرتبہ، وہ بھی عیدالاضحی پر قربانی کے لیے جانور لاتے ہیں، حالانکہ ہمیں اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لایا گیا بیل یا بکرا چند دن بعد قربان کردیا جائے گا، لیکن جتنے دن بھی وہ جانور ہمارے گھر میں رہتا ہے اُس کی خدمت کی جاتی ہے، سارے ہی گھر والے اُس کے ناز نخرے برداشت کرتے ہیں، شاید اس کو ہی قربان کیے جانے والے جانور کی خدمت کہا جاتا ہے۔ جو بھی ہو لیکن اس مبارک تہوار پر دیکھا یہی گیا ہے کہ گھر کے بڑے اور بچے سب قربانی کے جانوروں کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں ان جانوروں سے انس ہوجاتا ہے، اور عید کے دن جب یہ جانور قربان کیے جاتے ہیں تو گھر والوں خصوصاً بچوں کے چہروں پر اداسی طاری ہوجاتی ہے۔ یوں بچوں کو جہاں عید کی خوشی ہوتی ہے وہیں اپنے پیارے جانوروں کے بچھڑنے کا غم بھی ہوتا ہے، یہی کچھ صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
اکبر بھائی کے گھر سارا سال ہی کوئی نہ کوئی جانور بندھا نظر آتا ہے، لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں نے انہیں کبھی بھی قربانی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اُن کا پیار جانوروں سے تو بہت زیادہ ہے لیکن سنتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرنا اُن کی لغت میں نہیں۔ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ عیدالاضحی مسلمانوں کے لیے اللہ سے قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن اُن کا کہنا یہ ہے کہ ہم سنتِ ابرہیمی کی اصل روح سے دور، اور ریا کاری، جھوٹ، فریب اور دکھلاوے کے زیادہ قریب ہوگئے ہیں، اُن کے بقول ہم قربانی اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ محلے داروں اور عزیزوں کو اپنی حیثیت دکھانے کے لیے کرتے ہیں، اس کے لیے نہ صرف مہنگے سے مہنگا جانور خریدتے ہیں بلکہ وہ گوشت جس پر مستحقین کا حق ہوتا ہے اس سے اپنے ڈیپ فریزر بھر لیتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے؟ اُن کا کہنا ہے کہ عیدالاضحی وہ مذہبی تہوار ہے جو ہمیں رب کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتا ہے، مگر افسوس کہ آج ہم اس کی محبت دل سے نکال کر دنیاوی جال میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ باپ کو بیٹے کی فکر ہے نہ بھائی کو بہن کی.. جبکہ والدین کو اپنی اُن بیٹیوں کا بھی کوئی خیال نہیں جو مالی طور پر انتہائی کمزور ہیں، سب رشتے ناتے رسمی طور پر نبھائے جاتے ہیں، سب کو مال و زر کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے۔ اکبر بھائی کے بقول مسلمان صدیوں سے قربانی کرتے چلے آرہے ہیں، اس سے پہلے قربانی کرنے والے لوگوں میں اپنے رب کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ ایثار کا جذبہ پایا جاتا تھا، لیکن اب مذہبی تہواروں کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔ اِس دور میں پہلے جیسا کچھ نہیں ہوتا، اب جانوروں کے درمیان خوبصورتی کے مقابلے کروائے جاتے ہیں اور جانوروں کی بولیاں لگوائی جاتی ہیں، جو سب سے زیادہ بولی لگاتا ہے وہی سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار مسلمان قرار پاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، جیسے ہی عیدالاضحی کا چاند نظر آتا ہے لوگ چھریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دانتوں پر بھی دھار لگانے لگتے ہیں، مختلف اقسام کے چورن کھاکر اپنے معدے کی اوورہالنگ کی جاتی ہے، سنتِ ابراہیمی کے نام پر کی جانے والی قربانی کا سارا گوشت اپنے ڈیپ فریزر میں بھر لیا جاتا ہے۔ کسی کو ہمسایوں،رشتے داروں اور دوستوں کا خیال ہے نہ غریبوں کا احساس… بس اگر کچھ ہے تو صرف اپنی ذات کی تسکین اور تکہ بوٹی پارٹیوں کی فکر ہے۔ اکبر بھائی کے مطابق آج قربانی صرف اپنے گھر والوں کی خوشی، دنیاوی دکھلاوے اور نمود و نمائش کا نام ہے، جبکہ قربانی کااصل مقصد اسوئہ ابراہیمی کی پیروی ہے، یعنی جانور ذبح کرنا نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلاوا نہیں بلکہ طلبِ رضائے الٰہی ہے،قربانی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، انبیائے کرام سے محبت اور خلوص و ایثار کا جذبہ پروان چڑھنے کا نام ہے۔
اکبر بھائی کی منطق اپنی جگہ ٹھیک ہوسکتی ہے لیکن صرف باتوں سے احکامِ خداوندی پورے نہیں ہوسکتے، اس کے لیے عملی مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ لوگ باتوں باتوں میں اپنے تئیں عالم فاضل بن جاتے ہیں جبکہ عملی طور پر اُن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ غریبوں، مسکینوں، اپنے پڑوسیوں اور حق داروں میں قربانی کے گوشت کی تقسیم اسی صورت ممکن ہے جب سنتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانور کی قربانی کی جائے۔ تبھی اپنی کہی ہوئی باتوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر کیے جانے والے اقدامات لفّاظی کے سوا کچھ نہیں۔ الحمدللہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں، یہ اللہ کا انعام ہے کہ اس نے ہمیں مسلم معاشرے اور کلمہ گو گھرانے میں پیدا کیا، خدا کا شکر ہے کہ ہم مذہبی تہواروں کو عقیدت اور احترام سے منانا خوب جانتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کا رواج نیا نہیں، آپ اپنے اطراف دیکھ لیں نماز نہ پڑھنے والا صلوٰۃ کا مکمل مفہوم بیان کرتا دکھائی دے گا، جھوٹا صادق و امین کہلوانے میں فخر محسوس کرے گا، جبکہ شاہانہ زندگی گزارنے والے سادگی کا درس دیتے دکھائی دیں گے… یعنی خود عملی طور پر کچھ نہ کرو، بس باتیں بگھارتے رہو۔ یہی کردار اکبر بھائی کا بھی ہے جنہیں اپنا فلسفہ بیان کرنے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ان کی باتیں صرف باتوں کی حد تک تو خاصی وزنی ہیں لیکن حقیقت نہیں۔ دوسری طرف انہیں یہ بات بھی سوچنی ہوگی کہ دو دن سے غائب ان کا پالتو بچھڑا بھولو عید سے ایک روز قبل صحیح سلامت گھر کیوں پہنچ گیا، ورنہ اس ملک میں حلال جانور تو ایک طرف.. گدھوں کی بھی صرف کھالیں ہی ملا کرتی ہیں۔ ذرا سا دھیان لگانے سے تمام حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی، جس کے بعد شاید نہ صرف اکبر بھائی بلکہ اُن جیسے ہزاروں لوگ بھی قربانی جیسا اہم فریضہ ادا کرنے لگیں۔