اچھے ساتھی والے ذکی صاحب کی کتھا

301

صرف اور صرف اللہ کے لیے لوگوں سے بے غرض محبت کرنے والا ایسا شخص میں نے زندگی میں نہیں دیکھا، آج کے پُر آشوب در میں ،جب کہ انسان تیزی کے ساتھ تنزلی اور پستی کی طرف سفر کررہا ہے،نفسا نفسی کا عالم ہے،گنتی کے چند لوگ ایسے ہیں جو اپنا تن من دھن اللہ کی خاطر لگاکر دنیا اور آخرت کی کامیابی کے ساتھ تحریک کے لیے امید کی کرن بن کر پھوٹتے ہیں.
شاید ذکی صاحب کے لیے ہی سرور بارہ بنکوی کہہ گئے ہیں:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
نہایت نفیس ،شفیق،درد دل رکھنے والے ذکی صاحب کی شخصیت ایسی ہی ہے، مجھے یاد ہے ذکی صاحب کو میں نے پہلی بار نارتھ ناظم آباد کی جامع مسجد الفلاح میں بچوں کے ہجوم میں دیکھا تھا، اُن کے گرد بہت سارے بچے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ذکی صاحب کہانی سنانے (STORY TELLING) کے فن کے ماہر تھے، آج ایسے ہزاروں نوجوان ہوں گے جنہوں نے ذکی صاحب کی کہانیاں سن رکھی ہوں گی۔ ان سے کہانی سننے والے بتاتے ہیں کہ کہانی سنتے وقت ان پر سحر طاری ہوجاتا تھا، ذکی صاحب بچوں کو اپنی کہانی میں جذب کرلیتے تھے اور جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ بچوں تک غیر محسوس طریقے سے پہنچ جاتا تھا۔ 70تا 90 کی تین دہائیوں میں انہوں نے ہزاروں بچوں کے معصوم ذہنوں کو منور کیا، ان کی درست سمت کی جانب رہنمائی کی، بقول ڈاکٹر اظہر چغتائی ”یہ کام 88 سالہ ”اچھا ساتھی“ آج بھی کررہا ہے۔ ذکی صاحب کو سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت عقیدت ہے، جب ان کا نام آتا آنکھوں سے آنسو ٹپک جاتے ہیں۔ ذکی صاحب 20سال کی عمر میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، اور 68سال کی عمر تک باقاعدہ متحرک ہوکر جماعت اسلامی کی دعوت کا کام کیا، اور آج 88سال کی عمر میں بھی متحرک ہی ہیں، لوگوں کو فون کرکے گھر پر بلاتے ہیں اور ان سے جماعت کے کام کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، اللہ کا خوف دلاتے ہیں۔
ذکی صاحب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (سی اے) ہیں ،زندگی میں پیسہ کمانے کے بہت مواقعےملے ،ملک سے باہردس ہزار ریا ل ماضی میں نوکری ملی جس کی اُس زمانے میں لوگ صرف حسرت کرتے تھے، ، موقع تھاجاسکتے تھےلیکن نہیں گئے. آپ مسلسل سوچنے اور غور و فکر کرنے والے آدمی ہیں، جماعت اسلامی کی قیادت کو بھی مختلف حوالوں سے قابلِ عمل مشورے باقاعدہ تحریری شکل میں دیتے رہتے ہیں، وہ اکثر کہتے ہیں کہ سید مودودیؒ نے کہا ہے کہ ”قرآن و سنت کی پیروی ہی وہ طریقہ ہے جس نے عرب کے بدوؤں کو تہذیبِ انسانی کا معلم، وحشیوں کو سیاست مندوں کا مجدد، چرواہوں کو دنیا کا رہبر، بداخلاقوں کو خوش خلقی کا پیکر، مریضوں کو مسیحا اور کمزور ترین قوم کو دنیا کے بیشتر حصے کا حکمراں بنادیا“۔ وہ اپنے پاس کام کا بیس سالہ منصوبہ رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کے اچھے کردار اور اخلاص پر زور دیتے ہیں۔ کس طرح جہالت کو دور کرنا ہے، کس طرح بچوں کی تربیت کرنا اور بہترین اساتذہ تیار کرنے ہیں، اس حوالے سے بھی بڑے فکرمند رہتے ہیں۔ وہ عام انسانوں کے لیے منصوبے رکھتے ہیں۔ ”اکنامک ہسٹری آف جاپان“ نامی کتاب کے مطالعے کا کہتے ہیں اور کہتے ہیں ”بلوچستان میں آسٹریلیا کی بھیڑیں
فراہم کی جاسکتی ہیں جو سال میں تین مرتبہ بچے دیتی ہیں، اس سے وہاں کے لوگوں کو فائدہ ہوگا، وہ لوگ نرم ہوں گے اور دین کے قریب ہوں گے۔“ آپ کی سیاست پر بھی گہری نظر ہے اور متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام پر بھی زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اسلامی نظام برپا کرنے کا کام دیوانوں کا ہے، فرزانوں کا نہیں.. اور دیوانوں کی فوج تیار کرنے کا کہتے ہیں۔ آپ برے لوگوں سے نفرت کے بجائے برائی سے نفرت کے فلسفے پر زور دیتے ہیں۔ذکی صاحب اور ان جیسے گمنام ہزاروں لوگ جو اپنے اپنے حصے کا کام بڑی نیک نیتی اور اللہ کے خوف کے ساتھ کررہے ہیں تحریک اسلامی کا سرمایہ ہیں۔ ذکی صاحب سے اُن کی زندگی پر ایک تفصیلی گفتگو نذرِ قارئین ہے، اس انٹرویو کا اصل سہرا ہمارے بے غرض دوست نذیرالحسن کے سر جاتا ہے جن کی زبانی ذکی صاحب کی زندگی کے کئی اہم گوشوں سے واقفیت ہوئی۔ انٹرویو میں ان کے دوست، ساتھی پروفیسر لیاقت (سید منور حسن صاحب کے سمدھی) بھی موجود تھے، جو خود کسی تعارف کے محتاج نہیں، انہوں نے بچوں کے لیے ذکی صاحب کے ساتھ بھی بہت کام کیا اور آج بھی مختلف سرگرمیاں کررہے ہیں، اور جنہوں نے انٹرویو کے دوران کئی مواقع پر رہنمائی کی۔ اس کے ساتھ ہمارے ایک اور دوست اسد شفیق بھی موجود تھے جنہوں نے ذکی صاحب سے وقت لیا اور اُن کے گھر پنجابی سوداگران سوسائٹی اسکیم 33میں اللہ کی توفیق کے ساتھ اپنی سواری پر لے گئے۔ یہ دردِ دل رکھنے والے ایک مخلص کارکن کی کتھا ہے جس کو پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔
…٭…

سوال:اپنا سنِ پیدائش اور بچپن کی کچھ یادیں بتائیں؟
جواب: 14 اکتوبر 1933ء کو حیدرآباد دکن میں پیدائش ہوئی۔ وہاں لوگوں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ وہ مغرب زدہ ہوچکے تھے۔ ہندوستان میں ہمارے آبا و اجداد خاصے دولت مند تھے، ہمارے کئی مکانات تھے۔ میری والدہ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ وہ بڑا سستا زمانہ تھا، ہم اپنے ڈرائیور کو دس روپے تنخواہ دیتے تھے اور اُس کی پوری فیملی اس میں اچھی طرح سے گزارا کرتی اور دو روپے بچا بھی لیتی تھی۔ اُس وقت حوالدار کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تک ہوتی تھی۔ اسکول میں نظام حیدرآباد کے پوتے بھی میرے ساتھ پڑھتے تھے، مگر وہ سارے مغرب سے مکمل مرعوب تھے، ہم بھی مغرب زدہ ہی تھے۔ جب پاکستان بنا اُس وقت میں 14 سال کا تھا۔ کوئی خاص شعور نہیں تھا، کیونکہ میں پڑھاکو نہیں تھا، البتہ کھیلنے میں بہت تیز تھا۔ کرکٹ کا شوق تھا۔ باقی سوئمنگ، ٹیبل ٹینس وغیرہ بھی کھیلتے تھے۔ اس سے آپ میرے مشاغل سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے حیدرآباد میں ایک تنظیم تھی مسلمانوں کی، قاسم رضوی جس کے ذمے دار تھے۔ مسلمان حیدرآباد دکن میں تھوڑی تعداد میں تھے جبکہ ہندو اکثریت میں تھے، لیکن بادشاہ مسلمان تھا۔ جب مسلمان ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگاتے تھے تو میں اس میں حصہ نہیں لیتا تھا بلکہ وہاں کے جو کمیونسٹ تھے احمد علی شاہ اور دیگر… وہ مجھے پسند تھے۔ میرے خاندان والے سب ہی پیسے والے تھے، لیکن بچپن سے میرا مزاج ہے کہ خود بھی غریب دِکھتا ہوں اور غریب کی بہت عزت کرتا ہوں۔
سوال:اگر ہندوستان میں اتنے خوشحال تھے، کوئی مسئلہ نہیں تھاتو پاکستان کیسے اور کیوں آئے؟
جواب:میری والدہ اسکول ٹیچر تھیں، ان کی ملاقات پاکستان سے آئے ہوئے ایک صاحب سے ہوئی تو والدہ نے پوچھا کہ آپ پاکستان کیسے گئے تھے؟ انہوں نے بتایاکہ مشرقی پاکستان جائیں، وہاں سے پرمٹ بنوائیں اور پھر آکر پاکستان چلے جائیں۔ پتا نہیں والدہ کو کیا سوجھی، کہنے لگیں کہ ہم سب کے پرمٹ بنوا دیں، اور مجھے ساتھ بھیج دیا۔ میں کلکتہ گیا اور وہاں سے والدہ اور بھائی وغیرہ سب کے پرمٹ بنوائے، پھر ہم پاکستان چلے آئے۔ کیوں چلے آئے؟ والدہ کے دل میں کیا تھا؟ میں پوچھ بھی نہ سکا، یوں1953ء میں ہم پاکستان آگئے۔ مجھے تو بظاہر لگتا یہی تھا کہ پاکستان آنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کھاتے پیتے گھرانے سے تھے لیکن مالک کی مرضی تھی، اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا، شاید اسے ہم سے کوئی کام لینا تھا تو اُس نے پاکستان بھیج دیا۔ ویسے میں 1955ء میں جماعت اسلامی سے متعارف ہوچکا تھا۔
سوال:پاکستان آنے کے بعد جماعت اسلامی میں ابتدائی وقت کیسا گزرا؟
جواب:پاکستان آنے تک کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ میں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا ہو اور پاکستان زندہ بادکے نعرے لگائے ہوں۔ یہاں آنے کے بعد ہم کراچی پہنچے اور شاہ فیصل کالونی منتقل ہوئے۔ وہاں ایک صاحب تھے محی الدین ایوبی۔ بیس سال کی عمر میں یہ وہاں کے امیر جماعت تھے اور زبردست آدمی تھے۔ جماعت کے کاموں میں اتنے مصروف تھے کہ تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکے ورنہ بہت آرام سے پی ایچ ڈی کرلیتے۔ اُس وقت میں 20سال کا تھا، انہوں نے مجھے سماجی کاموں کے بہانے سے جوڑا کہ آئیے ہم غریبوں کی بستی کے لیے پیسے و سامان وغیرہ اکٹھا کرتے ہیں۔ ہم نے وہاں ایک مسجد بھی بنالی۔ اس کے بعد پھر ایک دواخانہ بنانے کا انتظام کیا جہاں مفت علاج ہوگا۔ ہم تین لڑکے اُن کے ساتھ تھے۔ میری عادت تھی سوال کرنے کی کہ یہ کیوں کیا؟ یہ کیسے کیا؟تو انہوں نے مجھے جوابات کے لیے پڑھنے کی طرف مائل کیا۔ یوں جب پڑھنا شروع کیا تو کتابوں کی کتابیں پڑھ لیں۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے انہوں نے اتنی حکمت کے ساتھ میری تربیت کی کہ کیا بتائوں۔ کہتے تھے کہ یہ جو نوجوان لوگ ہیں ان کو جنت میں لے جانا چاہیے۔ ہم نے محنت شروع کی۔ اچھے خاصے نوجوان جمع ہوگئے لیکن ایک بھی تحریک میں نہیں آیا۔ ہم نے سوئمنگ کلب کی ممبر سازی کے بہانے، ٹیبل ٹینس و دیگر کھیلوں کے بہانے لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کی… کھیل تو ہوجاتا مگر جماعت میں کوئی نہ آتا۔ پھر ایک یوتھ موومنٹ بنائی، اس کے تحت نوجوانوں کو جمع کیا۔ اینٹی سوشلسٹ نوجوان جمع ہوگئے لیکن جماعت کے کارکن نہ ہوسکے۔ حالانکہ مختلف طریقوں سے تقریباً 500 لڑکوں سے رابطہ ہوا تھا۔ اس کے بعد 1980ء میں شاہ فیصل کالونی سے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 منتقل ہوگئے، وہاں کا جماعت اسلامی نے مجھے ناظم بنادیا۔
سوال:آپ تو نوجوانوں میں کام کررہے تھے، یہ ”اچھے ساتھی“ کا کام کیسے شروع ہوا؟
جواب:میرپور خاص میں جماعت کا ایک اجتماع تھا، میں نوجوانوں کے حوالے سے بہت سارے تجربات سے گزر چکا تھا، اس لیے اب میں نے تجویز دی کہ بچوں کو مسجدوں میں جمع کیا جائے اور نماز کی دعوت دی جائے۔ اجتماع ختم ہوا تو لوگوں نے کہا کہ آپ تجویز دے رہے ہیں اس پر کبھی عمل بھی کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پیپر ورک کیا ہے، تو کہنے لگے کہ پیپر ورک کرنا اور چیز ہے اور عملی طور پر کام کرنا اور چیز ہے۔ میں نے کہا: کرکے دیکھتے ہیں۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ لوگوں کو مسجد کی بنیاد پر جمع کریں۔ ان سے کہیں کہ مسجد میں حاضر ہوں۔ ان کی ڈائریاں بنائیں، جو لوگ نماز پورے ہفتے پڑھیں ان کو انعام دیا جائے۔ کلیم چغتائی اُس وقت لڑکے سے تھے جو اب ایک کہنہ مشق قلم کار اور بڑے ادیب ہیں۔ میں نے کام شروع کردیا، نماز کے بعد ہم تین آدمی کھڑے ہوجاتے، میں ایک حدیث سناتا اور پھر اس کی تشریح و ترجمہ۔ آہستہ آہستہ لڑکے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ہم نے نماز کی ڈائری بنادی اور ہر نماز کے بعد دستخط لے لیتے، اور کہا کہ جو پورے ہفتے نمازیں پڑھے گا اس کو انعام ملے گا۔ ایک لفظ ہے فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے لیے کام کرنا۔ ہم نے اس کی بنیاد ہی یہ رکھی کہ کسی کے لیے کام نہیں کرنا ہے، ”اچھے ساتھی“ کے لیے کام نہیں کرنا ہے، جمعیت کے لیے کام نہیں کرنا ہے، جماعت کے لیے کام نہیں کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کام کرنا ہے۔ یوں ہم نے ایک سال لگایا تو 12افراد ہمیں مل گئے۔ ہم بہت خوش تھے۔ ان بارہ افراد میں شاہد ہاشمی، انجینئر صادق فاروقی سمیت کئی افراد شامل تھے۔
اسی دوران کلیم چغتائی نے ایک حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا اچھا ساتھی وہ ہے جسے دیکھ کر خدا یاد آئے، اور جس سے بات کریں تو ہمارے علم میں اِضافہ ہو، اور جس کا عمل دیکھیں تو ہمیں آخرت یاد آجائے۔ ہم نے کہا کہ بڑی اچھی بات ہے۔ ہم نے اس بنیاد پر ان کا نام ”اچھے ساتھی“ رکھا۔ اب اللہ تعالیٰ کو کیا منظور تھا، اسی زمانے میں ہمارے لیاقت بھائی ملے۔ لیاقت بھائی جب پہلی مرتبہ آئے تو ان کو بات کرنا بھی نہیں آتی تھی، بالکل سادہ آدمی تھے، لیکن اللہ نے انہیں نعمت بناکر بھیجا۔ کام لیاقت بھائی کرتے اور نام ذکی کا ہوتا۔ چیونٹی کی طرح کام کرتے تھے، اللہ ان کو اجر دے۔
ایک ایک کرکے سارے بچوں کی ڈائریاں بنادیں۔ بچے اپنے ڈائریاں لے کر آتے۔ دس بچوں پر ایک انچارج، ایک نائب انچارج مقرر کیا۔ بچے نماز پڑھتے اور ان ڈائریوں میں دستخط لیتے۔ جمعہ کو ہم ڈائریاں جمع کرتے اور ہفتے کو اسے کمپائل کراتے۔ خاصے بچے اس کو ہفتے کو کمپائل کراتے۔ اتوار کو ہم نمازوں کی ترتیب کے حساب سے انعامات کا اعلان کرتے۔ جو بچہ مسلسل پوری نمازیں پڑھتا اُسے ہم بہت ہی خوبصورت بیج لاکر دیتے۔ بچے زیادہ ذوق و شوق سے نماز پڑھتے۔ یہ تو ہمارا سلسلہ تھا کہ ہر مسجد میں دس دس بچوں پر انچارج ہوتے۔ دوسرا کام تھا اجتماع کا۔ ہم یہ کرتے کہ فجر سے پہلے آدھا گھنٹہ طے کرلیتے، شربت وغیرہ بناکر رکھ لیتے تھے۔ دو بچوں کو ہم کھڑا کردیتے تھے، وہ آنے والے بچوں کا استقبال کرتے، پھر ان بچوں کو چائے یا شربت پلاتے۔ موٹر سائیکل مَیں لے آتا تھا کیوںکہ اُس وقت ہمارے پاس کار وغیرہ نہیں تھی۔
ہم نے کام یوں بانٹا کہ دو بچوں کو کھڑا کرتےجو مسجد آنے والے بچوں کا استقبال کرتے، پھر دو بچوں کو کھڑا کرتے کہ وہ ان کو بٹھائیں، سردی کا موسم ہوتا تو ہر ایک کو چائے دیتے۔ گرمی کا زمانہ ہوتا تو شربت دیتے۔ استقبال بہت شاندار طریقے سے کرتے اور اللہ کے گھر کے مہمانوں کی مہمان نوازی کا اہتمام کرتے۔ بچے آہستہ آہستہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ پھر 17 نمبر کی مسجد ہی نہیں بلکہ 14،15،16،17،18،19،20 سارے فیڈرل بی ایریا میں سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں بچے اکٹھا ہونا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں کوئی 2 ہزار بچے ہمارے ساتھ مکمل شامل ہوچکے تھے۔ صادق حسین صاحب امیر جماعت تھے، تو 17 نمبر میں ایک اجتماع ہوا جس میں دو ہزارجمع بچے تھے۔ جب کام، نیت سب فی سبیل اللہ تھی اور اللہ کا گھر آباد ہورہا تھا تو ہمارے کام کے لیے اللہ تعالیٰ بھی ایسا بندوبست کرا رہے تھے گویا آسمان سے پیسے آرہے تھے۔ ہم پورے ہدف کے ساتھ ”فی سبیل اللہ“ کا تصور انڈیل رہے تھے۔ ہمارے ”اچھے ساتھی“ کے لیے بڑی بات تھی کہ ”واہ اللہ میاں! کام کرنا ہے صرف اللہ کے لیے“۔ ذکی کے لیے نہیں، اچھے ساتھی کے لیے نہیں، جمعیت کے لیے نہیں، جماعت کے لیے نہیں… صرف اللہ کے لیے کام کرنا ہے، تو اللہ تعالیٰ بڑی برکتیں عطا فرماتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کوشش کریں کہ جتنے بھی لوگ آئیں اُن میں اللہ سے محبت پیدا کریں۔ ابھی بھی کہتا ہوں لوگوں سے کہ اللہ سے محبت کرنا سیکھیں، اللہ سے ڈرنا سیکھیں، اللہ سے باتیں کرنا سیکھیں، اللہ سے مانگنا سیکھیں۔
ایک بڑی ہی پیاری حدیث ہے: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی، زمین تھرتھرانے لگی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنادیئے۔ فرشتے بڑے حیران ہوئے کہ پہاڑ تو زبردست چیز ہے، زمین بھی زبردست ہے، اس سے بھی زبردست کوئی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں لوہا۔ فرشتے کہنے لگے کہ لوہے سے بھی زیادہ کوئی زبردست چیز ہے؟ کہنے لگے: آگ، جو اس لوہے کو پگھلادیتی ہے۔ فرشتوں نے کہا کہ یااللہ آگ سے بھی زبردست کوئی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہاں: ہاں! پانی جو اس آگ کو بجھا دیتا ہے۔ فرشتوں نے کہا: یااللہ! پانی سے بھی زبردست کوئی چیز ہے؟ کہنے لگے: ہاں! ہوا جو پانی کو اتھل پتھل کردیتی ہے، طوفان لادیتی ہے۔ فرشتوں نے کہا: یااللہ! ہوا سے بھی زبردست کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ہاں! میرا وہ بندہ جو خالص میری رضا کے لیے داہنے ہاتھ سے دے اور بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے۔ فی سبیل اللہ۔ خالص اللہ کے لیے۔
سوال:آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ کیا بات تھی، برکت تھی، کوئی لالچ تھی یا کیا وجہ تھی جو یہ کام آپ کرتے تھے؟
جواب:خصوصیات سب کی ہوتی ہیں، میری ہی نہیں۔ بچے شہد کے چھتے پر جمع ہونے والی مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں، ایسے ہی لیاقت صاحب کے گرد جمع ہوتے تھے۔ حالانکہ وہ تو کہانی بھی نہیں سناتے تھے۔ میری تو کہانیاں سنانے کی خصوصیت مشہور ہوچکی تھی، بچے دور دور سے چلے آتے تھے میری کہانی سننے کے لیے، بلکہ جمعیت والے بھی یہی کرتے تھے۔ میرا نام لگا لیتے تھے جس پر بچے پہنچ جاتے تھے، جبکہ میرے علم میں بھی نہیں ہوتا تھا اور وہاں کہہ دیا ہوتا تھا کہ ذکی بھائی کہانی سنائیں گے۔
سوال:کہانیاں سنانے کا ذوق کہاں سے پیدا ہوا؟ اس میں کون سا محرک اہم تھا؟
جواب:میں نے جس طرح پہلے ذکر کیا کہ فی سبیل اللہ، جو لوگ اللہ کو پکڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ خودبخود کہانیاں سنانے کا گُر سکھاتا چلا جاتا ہے۔ ہم تو اللہ سے باتیں کرتے تھے، ہر وقت مانگتے رہتے تھے۔ انجمن ”اچھے ساتھی“ کے بھائی خیر آبادی صاحب تھے، وہ کردار ہم نے لے لیا اور سوچا کہ بھئی ان پر کیا بنایا جاسکتا ہے، اور ہم نے بنالیا۔ اس طرح مختلف کردار تھے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی راستہ نکالتا ہے۔ اب اگر آپ مجھ سے کہیں تو میں کوئی کہانی نہیں سنا سکتا، لیکن اُس وقت ہر بار ایک نئی کہانی بنتی رہتی تھی اور وہ اتنی زیادہ دلچسپ ہوتی تھی کہ بچے اسے سننے کے لیے دور دور سے چلے آتے تھے۔ اصل مسئلہ یہ ہے جس کو لوگ نہیں سمجھتے اور جس کا میں بار بار تذکرہ کرتا ہوں کہ فی سبیل اللہ، خالص اللہ کے لیے۔ سب اللہ سے مانگیں، اچھے ساتھی بھی۔ واہ اللہ میاں! میں کہتا تھا بچوں سے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے آڑھی ٹیڑھی جیسے چاہو دعائیں مانگو۔ بچے کہتے کہ ہم اللہ میاں کو مانگیں گے تو کیا اللہ میاں آجائیں گے؟ میں کہتا کہ بالکل اللہ میاں آجائیں گے لیکن تم دیکھنے والے بھی تو بنو۔ دعا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو اٹھیں، تہجد کی نماز پڑھیں، اللہ میاں کی خوب خوشامد کریں، اپنی غلطیاں بیان کریں، معافی مانگیں۔
سوال:اللہ سے باتیں کیسے ہوسکتی ہیں؟
جواب:جب آپ خلوص سے، یکسوئی سے، یقین سے کریں گے تو آپ کو پتا چلے گا۔ آپ کے دماغ میں فوراً بات آئے گی۔ آپ فوراً پلٹ کر جواب دیجیے، پھر فوراً بات آئے گی۔ پھر فوراً آپ جواب دیں، پھر بات آئے گی۔ یہ باتیں خودبخود آتی رہیں گی کہ اللہ میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سکھانے والی بات نہیں ہے۔ یہ محبت کی بات ہے۔ اللہ سے محبت کرنا سیکھیے۔ اتنی محبت دیتے ہیں اللہ میاں۔ اور اگر محبت کرنے کے قابل کوئی ہستی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اتنا آف دی وے جاکر آپ کو سپورٹ کرتے ہیں کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ اور مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی حالانکہ لوگوں کی حالت ایسی ہوجائے تو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
سوال:آپ کو ملک سے باہر جانے کے بھی بہت سے مواقع ملے لیکن آپ نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیا؟
جواب:آپ بھی مجھے کہیں گے کہ پاگل آدمی ہے! ہم نے جب ”اچھے ساتھی“ قائم کی اُس وقت مجھے دس ہزار ریال کی نوکری مل رہی تھی۔ اُس زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ جو رکنِ جماعت پاکستان چھوڑ کر باہر جاتا اُسے جماعت سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ اب تو جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر چلا جاتا ہے، پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ سوچتا ہے ”مجھے اتنی اچھی تنخواہ مل رہی ہے اور میں امیر جماعت سے پوچھتا ہوں، اگر وہ ”نہیں“ بول دے تو؟ میں تو گیا۔“ میں اُس وقت کرائے کے مکان میں رہتا تھا، بچے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے، گھر میں کوئی فرنیچر وغیرہ بھی نہیں تھا۔ ایک معزز صاحب کھانا کھانے آئے تھے تو میں نے خود فرش کو اچھی طرح پونچھا لگا کر فرش پر بٹھایا تھا، کوئی دری وغیرہ بھی نہیں تھی۔ میں نے کہا: اگر آپ کی اجازت ہو تو میں نوکری کے سلسلے میں سعوی عرب چلا جائوں؟ کہنے لگے: بھائی جس کو دیکھو سعودی عرب جارہا ہے، یہ جو اتنا ہزاروں بچوں کا کام پھیلا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ کہنے لگے: جاتے ہو تو جائو، مجھ سے پوچھنا اہم نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ پھر نہیں جارہا۔ تو نہیں گیا۔ بہت سے لوگوں نے کہاکہ بے وقوف آدمی ہو، کیوں نہیں گئے؟ بہت سارے لوگ میرے سامنے گئے، تیس تیس سال لگا کر جب واپس آئے تو بلاشبہ ڈھیروں دولت کما لائے۔ مگر میں تو ”اچھے ساتھی“ میں سب کو یہی درس دے رہا تھا کہ اللہ سے محبت سستی نہیں۔ کبھی یہ نہ سمجھیں کہ میں یہ کروں گا! احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ کرلے گا۔ ہم صرف حیلہ بناتے ہیں، باقی سب اللہ کرتا ہے۔ کوشش ہماری، مرضی اللہ تعالیٰ کی۔ یہ تھے اچھے ساتھی۔
سوال:آپ نے وہ نسل بھی دیکھی اور آج کے بچوں کو بھی دیکھ رہے ہیں، کیا فرق ہے؟
جواب:اب بھی میرا خیال یہ ہے کہ بچوں کو مسجدوں کی بنیاد پر، نمازوں کی بنیاد پر جوڑا جاسکتا ہے، لیکن بڑی مصیبت موبائل کی ہے۔ بچے موبائل میں پھنسے ہوئے ہیں، گیم وغیرہ میں، اور ماں باپ کو فرصت نہیں ہے۔ ہم نے جب ”اچھے ساتھی“ قائم کی تو پانچ چھ سو بڑے افراد بھی یعنی بچوں کے والدین آجاتے تھے پروگراموں میں… مگر اب کوئی نہیں آتا۔ میری تو اب صحت ساتھ نہیں دیتی، لیاقت بھائی کام دیکھ رہے ہیں۔ اللہ مالک ہے۔
سوال:آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موبائل فون نے بچوں کو متاثر کیا ہے؟
جواب:ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنا امیج ہو۔ آج کل بڑوں کا کوئی امیج
نہیں ہے۔ ہمارے زمانے میں لیاقت بھائی تھے، ایک امیج تھا، ہماری ٹیم کی شخصیت ایک منفرد مقام رکھتی تھی، بچوں کا ذہن ہوتا کہ لیاقت بھائی اور ذکی بھائی جیسا بننا ہے۔ ہر بچہ چاہتا کہ میں پانچوں نمازوں میں موجود ہوں، جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں، مطالعہ حدیث کروں۔ محبت سے بات کررہے ہیں، بچوں کے مسائل کو حل کررہے ہیں۔ آج کل کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔
سوال:بچوں پر جو آپ اتنی توجہ دیتے تھے، اس کے پیچھے کیا سوچ تھی؟
جواب:بچے تو ہمیں یعنی مجھے مولوی سمجھتے تھے کہ ذکی بھائی اللہ والے آدمی ہیں۔ بچے بڑے سب چلے آتے تھے دعائیں کرانے۔ کتنے لوگ آتے تھے دعا کرانے کہ صاحب پڑھ کر پھونک دیجیے ہمارے بچے پر، جبکہ میں اُس زمانے میں کوٹ پینٹ پہنتا تھا۔ میں نے جب ”اچھے ساتھی“ شروع کی تو بال پٹے رکھے، ڈاڑھی رکھی، سر پر ٹوپی… یعنی مسٹر سے مولوی بن گیا، اور مولوی بننے کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی کو پتا نہیں چلا کہ یہ جماعت اسلامی کا ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کی خاص کٹ تھی۔ میں نے شرع کے مطابق داڑھی رکھی تھی۔ سترہ نمبر میں کٹر بریلویوں کی مسجد تھی، اس میں کام شروع کیا۔ جب تک اُن کو پتا چلا کہ میں جماعت اسلامی کا ہوں ستّر لڑکے بارہ سال سے زیادہ عمر کے وہاں موجود ہوتے تھے۔ اب ان کی ہمت نہیں ہوتی تھی مجھے کچھ کہنے کی۔ اس لیے میں نے یہی سیکھا کہ بس اللہ کو پکڑ لیجیے، دعا کیجیے، سر جھکا کر کام کیجیے، کوئی غلط کام نہ کیجیے۔ ایک مدرسے کے پرنسپل تھے وہ ایک پیر صاحب کو پکڑ کر لے آئے، اُن کے ساتھ پانچ چھے مریدین بھی تھے۔ فجر کی نماز کا وقت تھا۔ ہمارا ایک لڑکا روزانہ امام کے پیچھے آکر اپنی جگہ بنالیتا تھاکہ اس عمل پر ایک اونٹ ذبح کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اب وہ پیر صاحب آئے تو اُس کو کھینچ کر پیچھے کیا اور خود وہاں کھڑے ہوگئے۔ فجر کی نماز ہوگئی، وہ لڑکا روتا ہوا میرے پاس آیا، میں نے کہا کہ رو نہیں اللہ تمہیں ایک اونٹ ذبح کرنے کا ثواب دے گا۔
سوال:مولانا مودودیؒ سے آپ کی کوئی ملاقات رہی؟
جواب:جی ہاں دو تین ملاقاتیں رہیں۔ کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ محی الدین ایوبی کی بچی کی شادی تھی تو اُس میں انہیں گاڑی میں لے کر آیا تھا اور لے کر گیا تھا۔ مولانا کی اُس وقت ڈاڑھی کالی تھی۔ جب میں اردو کالج یونین کا جنرل سیکریٹری تھا اُس وقت معلومات کے لیے تھوڑی بہت خط کتابت وغیرہ ہوتی تھی۔
سوال:آپ کی زندگی کی کوئی ایسی خواہش جو محسوس کرتے ہوں کہ کاش یہ بھی کرتا، یا یہ ہونا چاہیے؟
جواب:میں بالکل مغرب زدہ تھا لیکن پاکستان آنے کے بعد جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا۔ یہی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرے اور میں اللہ تعالیٰ سے محبت کروں۔ پوری عمر میری یہی خواہش رہی۔ حالانکہ میں سی اے فائنلسٹ ہوں۔ جماعت اسلامی والے مجھے کہتے ہیں کہ تم کوشش نہیں کرتے تو کون تمہیں سروس دے گا؟ میں کہتا کہ میں لالچ نہیں کروں گا۔ اللہ کا شکر ہے اس نے بہت بہتر رکھا، کروڑوں سے بہتر رکھا۔
سوال:آج والدین اپنے بچوں پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور ان کا مسئلہ کیا ہوچکا ہے؟ کیا والدین دعائیں نہیں کرتے؟
جواب:اُس زمانے میں والدین بچوں کو تمیز و قاعدہ سکھاتے تھے۔ آج کل لوگوں کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ تمیز تہذیب سکھائیں۔ بس سب یہ چاہتے ہیں کہ بچہ جلد سے جلد پیسہ کمانے کے قابل ہو۔ آج کل ساری دنیا پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی ایک ہزار بچوں سے اگر آپ پوچھیں گے کہ امریکہ کون کون جائے گا تو ایک آدھ شاید کہہ دے کہ میں نہیں جائوں گا، باقی نو سو ننانوے بچے جانا چاہیں گے۔ والدین کا بھی یہی حال ہے۔
سوال:آپ نے جو سیکڑوں ہزاروں بچے تیار کیے تھے اُن میں سے کچھ نام جو کسی مقام پر ہوں؟
جواب:”اچھے ساتھی“ کے چند مشہور ناموں میں ارشاد کلیمی جو بڑے سرکاری گریڈ سے ابھی ریٹائر ہوئے ہیں، کے ڈی اے کا ایک چیئرمین بھی تھا جو خود ملنے آیا، مجھے یاد نہیں تھا، یہ سب ہمارے نظامِ تربیت میں رہے۔ مطلب یہ کہ کراچی میں اچھے گھرانوں کے ہزاروں بچے تھے۔ اس کے علاوہ شاہد ہاشمی، عبدالوہاب، راشد نسیم، ذکر اللہ مجاہد سمیت سیکڑوں افراد ہیں مگر حافظے میں نہیں رہے۔
سوال:آپ شروع دن سے ہی جماعت اسلامی کو دیکھ رہے ہیں، آپ کا طویل مشاہدہ ہے، آج مولانا مودودیؒ کی تحریک اور تنظیم پر کیا کہیں گے؟
جواب:مجھے جماعت اسلامی میں جو افراد پسند آئے تھے اُن میں سب سے زیادہ پسند سید مودودیؒ تھے، کوئی دن نہیں گزرتا جب میں ان کے لیے کئی بار دعا نہیں کرتا۔ دوزخ کے راستے سے نکال کر جنت کے راستے پر ڈالا۔ دوسرے محی الدین ایوبی ہیں، تیسرا جو شخص مجھے سب سے زیادہ پسند تھا وہ خرم مراد تھے۔سید مودودیؒ نے لکھا ہے کہ ۯ”مسلمان کی اصل طاقت ایمان اور عملِ صالح ہے‘‘، اور پھر مثال دی ہے کہ ’’خلافت کے زمانے میں افغانستان کے ایک علاقے میں مسلمان خراج وصول کرنے گیا تو اُس نے کہا کہ وہ لوگ کہاں چلے گئے جو پہلے آتے تھے خراج لینے؟ کہنے لگے: وہ تو مر کھپ گئے۔ ان کی کھجور کی چپلیں ہوتی تھیں، پیوند لگے کپڑے ہوتے تھے، ان کو دیکھتے تھے تو ہر دل کانپتا تھا۔ تمہارے کپڑے تو بہت شاندار ہیں، تمہارے گھوڑے بہت خوبصورت ہیں اور تمہارے جسم بہت لحیم شحیم ہیں لیکن تم سے کوئی خوف نہیں آتا، جائو ہم نہیں دیتے۔‘‘ سید مودودیؒ نے لکھا ہے: سچی بات یہی ہے، آج اگر تین سو تیرہ افراد وہ پیدا ہوجائیں جن کا ایمان صحابہ جیسا ہو تو پوری دنیا میں اسلام قائم ہوجائے۔

حصہ