گائے کی قربانی

570

ارے یہ بکرا کتنا چھوٹا ہے،اس کے بال کتنے بڑے ہیں،بالکل جنگلی ہے۔ندیم نے مذاق اڑاتے ہوے کہا۔
عارض نے منہ بسورتے ہوئے کہا “کل سے میں بکرا لے کر گھر سے نہیں جاوٴ ں گا،سب مذاق اڑاتے ہیں”اگلے سال ہم گائے لیں گے جیسی ندیم کی گائے ہے۔
امی:بیٹا اللہ کا شکر ادا کروجو ہمارے پاس ہے اس کا ۔
“اللہ شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔۔”
حرص اور حسد بہت بری بات ہے۔
نہیں بس مجھے گائے چاہئے !اچھا بیٹا ابھی تو اس عید پر بکرے کی قر بانی کر لیتے ہیں ،اگلی عید پر دیکھیں گے۔
ایک سال پلک جھپکتے گزر گیا۔ بقرعید آ گئ ،سب کا یہی فیصلہ تھا کہ گائے کی قربانی ہو گی۔
بقرعید کے دن قریب بچوں کی دلچسپی اور گفتگو کا محور گائے۔
سلمان کی گائے تو بہت چھوٹی سی ہے بالکل بکرا لگتی ہے۔ندیم نے رائے دی۔
مذاق مت اڑاو چھوٹی گائے ہونے کی وجہ سے رانی کا نام گنیز بک میں آنے والا ہے۔دو کروڑ اس کی قیمت لگ چکی ہے۔سہیل نے اپنی معلو مات کو بیان کیا۔
حامد کی گائے کا رنگ دیکھا بالکل گدھے کی طرح ہے۔کل یہ گائے گھر کے باہر کھڑی تھی میں تو سمجھا گدھا کھڑا ہے۔آگے جا کر منہ دیکھا تو پتہ چلا گائے ہے۔(اپنی نظر کا ٹیسٹ کراوسلمان نے کہا ،گدھے اور گائے میں فرق ہی نظر نہیں آتا)۔
ابو ہمیں لمبی چوڑی،موٹی تازی،اونچی،چکنی،انتہائ خوبصورت گائے چاہئے۔ عارض نے ابو سے فر مائش کی۔
ابو :زیادہ شرطیں نہ لگاو بنی اسرائیل کی طرح ورنہ مشکل میں پڑ جاو گے۔ویسے بھی اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ (مفہوم )اللہ کو نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔
آچھا ابھی تو گرمی ہے رات کو چلیں گے گائے لینے۔
سب Acچلا کر سوگئے،مگر عارض کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔وہ جاگتے میں بھی گائے کے خواب دیکھ رہا تھا ،گائے کے زیورات کے بارے میں سوچ رہا تھا،اس کو گھومانے پھرانے اور کھلانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اللہ اللہ کرکے رات آئ،کھانا کھانے کے بعد،سب ابو کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گائے لینے چلے گئے ،کسی کو سرخ گائے پسند آئ،کسی کو سیاہ،کوئ چٹی سفید گائے کا دیوانہ بڑی مشکل سے ایک گائے پر سب متفق ہوئے۔تو اس کا ابو نے مول بھاو شروع کیا،بیوپاری سے بات چیت کے بعد سودا کرکے گائے کے مالک بن گئے۔
اب عاض کی ضد کے میں گاِے کو پیدل گھر لے کر جاوں گا۔امی ابو نے بہت منع کیا۔گاڑی کر لیتے ہیں۔مگر تفریح کا شوق،گائے گھمانے کاشوق۔
عارض،سلمان،حارث اور حامد سب دوست گائے کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔گائے اڑیل تھی کبھی چلتی،کبھی رک جا تی نظارے کر نے لگتی،جب کوئ گاڑی قریب سے گزرتی ہارن بجاتی ،گائے ڈر جاتی۔ایک دفعہ تو گر گئ بالکل لیٹ گئ سب لڑکے پریشان ہوگئے موبائل کی ٹرچ جلائ گائے کو اٹھا یا کچھ کھلا یا پلا یا پھر سفر شروع کیا۔ جب کتے بھونکتے تو گائے ڈر جا تی اونچا اونچا اچھلنے لگتی۔
عارض نے گائے کی رسی اپنے ہاتھ پر لپیٹی ہوئ تھی۔ایک ٹرک قریب سے گزرا اور تیز آواز میں ہارن بجایا۔ گائے ہارن کی آواز سے خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑی ہوئ،عارض کے ہاتھ پر رسی لپٹی ہوئ تھی لہذا وہ بھی کھنچتا ہوا،گھسٹتا ہوا آگے تک گیا اور زخمی ہو گیا۔دوستوں نے گائے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔سامنے ایک درخت آگیا جس کی وجہ سے گائے رک گئ سب نے مل کر گائے کو پکڑا ،سلمان نے سہارا دیکر عارض کو اٹھا یا شکر ہے گھر بہت نزدیک تھا۔لہذا سب گھر پہنچ گئے۔
ابو نے جو عارض کی یہ حالت دیکھی تو پریشان ہوگئے۔ فوراً اسپتال لے کر گئے۔عارض کے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا تھا اور بھی کئ چوٹیں لگی تھیں۔گائے بھی انتہائ خوفزدہ تھی بس ایک جگہ کھڑی رہی نہ کھارہی تھی نہ بیٹھ رہی تھی۔
عارض نے اپنے دوستوں کو اپنی جمع شدہ رقم دی اور گائے کے لئے زیورات منگواے اور دوستوں ہی نے پہنائے۔
عید والے دن بھی عارض کے پلاسٹر چڑھا ہوا تھا ابو نے گلے مل کر عارض کو عید کی مبارک باد دی اور کہا “کسی بھی کام کو اتنا آسان نہ سمجھو کہ اسے کرنے سے پہلے اس کی تیاری نہ کرسکو ،ہر کام کو کرنے سے پہلے اس کی حکمت عملی طے کرلو۔تمام پہلوں پر غور کر لو گائے کو گاڑی سے لانا تھا نا!”
جی ابو جی مجھ سے چھوٹی سی غلطی ہوگئ۔
ابو:”بیٹاغلطی چھوٹی ہے یا بڑی اس غلطی کا نتیجہ طے کرتا ہے”۔ ابو نے عارض کے پلاسٹر والے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔
قصائ آیا گائے کی قر بانی ہوگئ۔ عارض کے لئے یہ بقر عید یاد گار تھی۔

حصہ