حمدان صبح ہی سے بہت خوش نظرآرہا تھا،کیوں کہ صبح ہی چاچو نے خوش خبری سنائی تھی کہ آج گائے لینے جائیں گے۔ عیدالاضحی سے کچھ دن پہلے گائے لانا حمدان کے لیے بڑی اچھی خبر تھی، اُسے شروع ہی سے بڑی عید کا شدت سے انتظار ہوتا، اس کی وجہ گائے بکرے تھے جو عید سے چند دن پہلے گلی محلوں کی رونق میں بھرپور اضافہ کرتے۔ خواتین کا ان تنگ گلیوں سے گزر کر جانا انتہائی مشکل ہوتا۔ اکثر و بیشتر لڑکیاں چیخیں مارتی ہوئی گزرتیں۔ زیادہ تر گلیوں میں چارہ، گوبر پڑا دکھائی دیتا جو گھروں کی صفائی کو بھی پورا دن گرہن لگائے رکھتا۔ چند ہی لوگ صفائی کا خیال رکھتے، لیکن بچوں کا زیادہ تر وقت قربانی کے جانور کے ساتھ گزرتا۔ حمدان کی بھی یہی مصروفیت ہوتی یعنی سارا دن گائے کو چارہ کھلانا، پانی پلانا، بار بارگائے پر پیار سے ہاتھ پھیرکر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلانا، اپنے دوستوں کے ہمراہ اسے پورے علاقے میں گھمانا۔
چاچو مغرب کی نماز پڑھ کر آئے توحمدان نے شور کرنا شروع کردیا ’’چاچو جلدی منڈی چلیں‘‘۔ امی نے بہت کہا کہ اسے لے کر نہ جائو، یہ ابھی چھوٹا ہے، کہیں کوئی نقصان نہ ہوجائے۔ لیکن حمدان کی ضد پر چاچو اُنہیں تسلی دیتے ہوئے حمدان کو اپنے دوستوں کے ہمراہ گاڑی میں لے گئے۔ راستے میں چاچو نے آئس کریم بھی کھلائی اور سب نے کھانا بھی کھایا۔
منڈی پہنچتے ہی حمدان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ہر طرف گائے، بکرے نظر آئے۔ اس کی خواہش تھی کہ ہر بکرے اور گائے کو ہاتھ لگائے۔ چاچو نے اسے منع کیا، کیوں کہ ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی تھی جس میں چلنا بھی ایک دشوار کام تھا، روشنی کا بھی ناقص انتظام تھا۔ حمدان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ چاچو سے ہاتھ چھڑا کر خود ہر گائے تک پہنچ جائے۔
چاچو ایک گائے کا سودا کررہے تھے کہ اسی اثنا میں ایک بھاری بھرکم گائے اپنے مالک کی رسّی چھڑانے میں کامیاب ہوگئی۔ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی، کیوں کہ ایک خستہ حال منڈی میں نہ ایس او پیز کا خیال رکھا گیا تھا، نہ ہی کوئی خاص انتظامیہ تھی۔ ایک طرف کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے اسٹال لگے ہوئے تھے جنہیں وہ گائے روندتے ہوئے گزر گئی۔ کئی لوگ اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ حمدان خوف زدہ اپنے چاچو سے لپٹا کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ کئی لوگ اس بھگدڑ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے جس کے باعث حمدان اپنے چاچو سے علیحدہ ہوگیا اور بدحواسی کے عالم میں ایک طرف بھاگنا شروع کردیا۔
ادھر چاچو بھی پریشان تھے اور بے چینی کے عالم میں حمدان کو ڈھونڈ رہے تھے۔ پندرہ منٹ بعد چاچو کی نظر ایک بوڑھے آدمی پر پڑی جو حمدان کا ہاتھ پکڑ کر بھگدڑ سے بچنے کے لیے کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں نظر آیا۔ چاچو نے بھاگ کر حمدان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ بوڑھا آدمی مزاحمت کرنے لگا جیسے وہ حمدان کو دینے کو تیار ہی نہ تھا۔ آدھے گھنٹے کی اس ناگہانی آفت پر حمدان تو جیسے اپنے اوسان کھو چکا تھا، چاچو کو دیکھتے ہی ایک سکون اس کے اندر اترا اور وہ اس بوڑھے آدمی کے کندھے پر بے ہوش ہوچکا تھا۔ لوگوں کے بتانے پر پتا چلا کہ وہ بوڑھا ایک نیم پاگل شخص ہے۔ چاچو نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد سے کسی طرح حمدان کو اُس سے چھڑایا۔ اس دوران حمدان کی حالت بہتر ہوچکی تھی اور وہ چاچو سے لپٹ کر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا ’’چاچو گھر چلیں، یہ بہت گندی جگہ ہے، ہمیں یہاں سے گائے نہیں لینی۔‘‘
چاچو نے پیار سے اسے اپنی گود میں بھر لیا جس سے حمدان کے اندر بھرپور تحفظ کا ایک احساس اتر گیا اور وہ پُرسکون ہوگیا۔ منڈی سے بھاگی ہوئی گائے کے پیچھے بہت سے لوگ تھے جن کی ابھی تک واپسی نہیں ہوئی تھی۔ چاچو نے گائے لیے بغیر ہی واپسی کا ارادہ کیا تو باہر پارکنگ میں بھی جھگڑے ہورہے تھے اور چاچو سوچ رہے تھے: یہ ہمارا ملک ہے جہاں کوئی قانون نہیں، ہر شخص اپنی مرضی کا مالک نظر آتا ہے، اور اس گندگی کی تو جیسے شہریوں کو عادت ہوگئی ہے، ہر سال بیرونِ ملک سے پاکستانی بڑی عید منانے خوشی خوشی پاکستان آتے ہیں اور ہمیشہ ان منڈیوں کی حالتِ زار پر روتے ہیں، یہاں کی گندگی بھی برداشت کرتے ہیں، کبھی پارکنگ میں جھگڑوں کی صعوبتیں، کبھی گن پوائنٹ پر اپنی حلال کی کمائی اسٹریٹ کرائم کی نذر کر بیٹھتے ہیں، پھر بھی ہر سال ایک نئی امید لے کر آتے ہیں کہ اس سال شاید صورتِ حال بہتر ہوگئی ہو۔ قربانی تو ایک دینی فریضہ ہے جو ہر شخص خوشی خوشی محفوظ حالات میں پورا کرنا چاہتا ہے، لیکن حکومتی ٹھیکے دار تنخواہیں تو پوری لیتے ہیں مگر کام نہ ہونے کے برابر کرتے ہیں۔ یہ سارے معاملات اس صورت میں ہی حل ہو سکتے ہیں کہ ہماری جان ان نااہل لوگوں سے چھُوٹے جن کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں، جنھیں فرائض کی ادائیی کا کوئی احساس نہیں، ان کا سارا وقت قوم سے لوٹی ہوئی دولت سے جائدادیں بنانے پر صرف ہوتا ہے۔ لیکن اب ہر شہری کو خود آگے بڑھ کر اپنا حق ادا کرنا ہوگا۔ اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا، تاکہ ہم اور ہماری نسلوں کواپنے ملک میں تحفظ حاصل ہوسکے جو ہمارا حق ہے۔