گلشن میں آئی بہار

233

شب قدر کی رات میں یہ نعرہ ہمارے ذہن میں کلبلایا تو اسے بے رحمی سے جھڑک دیا کہ رمضان کے آخری عشرۂ نجات میں تو ’’اے اللہ مجھے آگ سے بچانا‘‘ جیسے جملے کا ورد ہونا چاہیے! مگر جتنا اسے ٹالنے کی کوشش کی، اتنا ہی یہ اپنی مکمل تفصیل اور جزئیات کے ساتھ ذہن میں اپنی جگہ بناتا چلا گیا۔ پھر یاد آیا کہ ایک مشہور مبلغہ اور قلم کار 27 ویں شب کواپنی سال بھر کی منصوبہ بندی طے کرتی ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے تو اسی میں کام کی ترتیب بنانی ہوگی۔ اس سوچ کو اس خیال نے ہوا دی تو بس 28 رمضان کو اپنا قلم اور ڈائری اٹھا کر اس کے گرد آنے والی تمام جزئیات قلم بند کرلیں۔
عید کے بعد عید ملن کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اپنے حلقے کے تحت اس کی تفصیل طے کرلی.. مقام اور دن وغیرہ بھی فائنل کرلیے، مگر اس خیال کو اتنی پذیرائی ملی کہ اسے ایک محلے تک نہیں بلکہ یوسی کی سطح پر ہونا چاہیے… اب اس کی ترجیحات نئے سرے سے مرتب کی گئیں۔ اب مقام طے کیا علاقے کا سب سے بڑا پارک، جو ہمارے عید میلے کے شایان شان تھا۔ منتظمین کومتعلقہ اداروں سے بکنگ کا فریضہ سونپ دیا، اور اپنے خیال میں مزید رنگ آمیزی کردی کہ بچوں کے جمپنگ پیڈز اور جھولے ہوں، میلے کو کامیاب اور خوشگوار بنانے کے لیے آئس کریم اور دیگر آئٹمز بنانے والوں سے اسپانسر کروا دیا جائے۔ اسٹالز کی بکنگ اور اداروں سے روابط کامیابی اور ہموار طریقے سے ہورہے تھے۔ اب جبکہ تیاریاں مکمل تھیں کہ اچانک یہ بات سامنے آئی کہ پارک کی انتظامیہ اس میلے کو منعقد نہیں ہونے دے گی۔
خیر سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر دوسرے متبادل پر سوچنا پڑا کہ اس کو ملتوی کرنا کسی طرح بھی سودمند نہیں تھا۔ اچھی خاصی تشہیر ہوچکی تھی مگر جگہ کی تبدیلی بجائے خود چیلنج بن کر سامنے تھی، اس کے لیے ایک نئی بھاگ دوڑ شروع ہوئی۔
سب کچھ طے ہونے کے بعد ذمہ داریوں کی تقسیم ہوئی۔ مختلف کمیٹیاں بناکر ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔
پروگرام کا دن اپنے جلو میں ہنگامہ خیزی لیے آپہنچا…تمام منتظمین نے وقت سے پہلے پہنچ کر انتظامات کا جائزہ لیا اور تیاری مکمل کی۔ ٹھیک 11 بجے اللہ کے بابرکت نام سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ تلاوتِ قرآن رقیہ احسان نے کی، جبکہ نعتِ رسولؐ زعیمہ فیصل نے پڑھی۔ ناظمہ یوسی سعیدہ اشرف کی افتتاحی تقریر کے بعد میلے کا با ضابطہ افتتاح پونے بارہ بجے ڈاکٹر ریحان، امیدوار برائے چیئرمین نے کیا۔ ان کے ہمراہ کونسلر امیدوار بھی تھے۔ مختصر خطاب کے بعد اسٹیج سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہوگئیں۔ اناؤنسر کی ذمہ داری اعلیٰ طارق ادا کررہی تھیں۔
علامہ اقبال کی نظم ’’دعا‘‘ پر سدرہ مشعل نے بچوں کے ساتھ ٹیبلو پیش کیا۔ بچے اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے، کوئی ڈاکٹر، کوئی فوجی، تو کوئی طالب علم بن کر سامنے آیا۔
اس دوران مہمانِ خصوصی محترمہ رخشندہ منیب ، ناظمہ صوبہ سندھ تشریف لاچکی تھیں۔ اب ان کا خطاب تھا۔ انہوں نے سیاست کو انبیا کے مشن کی روشنی میں واضح کیا۔ ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے بھارت کے خلاف تحریک پر قرارداد عائشہ جلال نے پیش کی۔
’’میں عائشہ ہوں‘‘۔ اس عنوان سے سرگرمی کا مقصد عظمتِ امہات المومنین کا اظہار تھا، جس کے تحت ہال میں موجود عائشہ نام کی خواتین کو اسٹیج پر بلوا کر اُن کے نام کے تعلق سے گفتگو ہو! دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیج پر عائشہ نامی خواتین کی لائن لگ گئی جن میں ننھی بچیوں سے لے کر معمر خواتین تک شامل تھیں۔ سب نے اپنے نام کی نسبت پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم چلیں گی۔ یہ منظر عجیب روحانی اور جذباتی کیفیات سے مزین تھا۔
صحت و صفائی کے تھیم کے تحت ڈاکٹر صدف نذر نے ہیضہ کی علامات، علاج اور پرہیز پر بریفنگ دی۔ پاکستان کی پلاٹینیم جوبلی کے حوالے سے مباحثے کا اہتمام تھا، جس کی تیاری جے آئی یوتھ گلستان جوہر نے کی تھی۔ ’’پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہے؟‘‘ اس عنوان کے تحت حمایت اور مخالفت میں دو دو مختصر مگر پُرجوش تقاریر کی گئیں۔
’’میرا ماحول میری ذمہ داری‘‘ کے عنوان سے پیشکش فرحت طاہر نے کروائی۔ اس میں تمام شرکا نے ہاتھ اٹھاکر عہد کیا کہ وہ اپنے ماحول کی حفاظت کریں گے اور پودے لگا کر ان کی حفاظت کریں گے۔ اس موقع پر پودے تقسیم کیے گئے جو سروری قدیر نے تیار کیے تھے۔
اب پروگرام اختتام کی طرف گامزن تھا۔ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ اس مشہور ملّی نغمے پر تمام بچے اپنا اپنا پرچم اٹھائے اسٹیج پر پہنچے اور ساتھ ہی تمام شرکا اس پر اپنی آواز ملانے لگے۔ اس دھن کے اختتام سے پہلے ہی ’’اس بار ترازو جیتے گا‘‘کی دھن شروع ہوگئی جس پر تمام شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ پروگرام کا اختتام ول فورم کی نگران طلعت یاسمین کی پُرسوز دعا سے ہوا۔

حصہ