آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام خالد معین کے ناول’’وفور‘‘ کی تقریبِ اجرا کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت زیب اذکار حسین نے کی، جب کہ علی جون نے نظامت کے فرائض انجام دیے، دیگر مقررین میں ڈاکٹر حنا عنبرین‘ احمد شاہ‘ رفاقت حیات‘ سلمان حسین‘ نساء احمد‘ کاشف رضا سید شامل تھے۔ احمد شاہ نے کہا کہ خالد معین ایک قابلِِ قدر قلم دان ہیں‘ ہمہ جہت انسان ہیں‘ وہ تنقید نگار‘ محقق‘ ناول نگار‘ ڈراما رائٹر‘ صحافی اور شاعر ہیں‘ وہ کراچی کے ادبی منظرنامے کا اہم حصہ ہیں۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’بے وحشت کا موسم‘‘ تھا، اس کے بعد آنے والے شعری مجموعوں میں انہماک‘ پسِ عشق‘ ناگہاں اور نئی حیرتوں کے خمار میں‘ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتابوں میں رفاقتیں کیا کیا‘ اب سب دیکھیں گے اور مصورانِ خوش خیال نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ناول ’وفور‘ ایک متاثر کن تحریر ہے، میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رفاقت حسین نے کہا کہ خالد معین کا ناول وفور کا بنیادی محور ہمارے معاشرے کا ماحول ہے، خاص طور پر جب ہمارے ملک میں کورونا پھیلا ہوا تھا اس تناظر میں ہم نے جن مشکلات و مسائل کا سامنا کیا اس پر خالد معین نے بحث کی ہے۔ خالد معین کے اسلوبِ بیاں میں جمالیات کی رنگا ر نگی نے اس ناول کی قدر و قیمت بڑھا دی ہے۔ سلمان حسین اور نساء احمد نے خالد معین کے ناول کے ایک باب پر مکالماتی نشست جمائی جس کو اہلِ محفل نے بہت سراہا۔ نساء احمد نے یہ بھی کہا کہ وہ خالد معین کے ناول سے بہت متاثر ہیں، ان کے برجستہ جملے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سلمان حسین نے کہا کہ خالد معین کے ناول وفور میں جیتی جاگتی زندگی کی تصاویر نظر آتی ہیں، اس ناول کے ہر باب میں حیرتوں کے در کھلتے ہیں، مجھے امید ہے کہ ناول ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنائے گا۔ کاشف رضا سید نے کہا کہ خالد معین ایک باصلاحیت لکھاری ہیں‘ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ترقی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ناول وفور میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ ڈاکٹر حنا عنبرین نے کہا کہ خالد معین ہمارے شہر کی پہچان ہیں۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ خالد معین کا شمار ہمارے شہر کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا ہے تاہم وہ نثر نگاری کے حوالے سے بھی ترقی کررہے ہیں‘ ان کا ناول ایک اچھا تجربہ ہے جس میں پاکستانی کلچر کی بات کی گئی ہے۔ خالد معین نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ میں آرٹس کونسل کراچی کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کتاب میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے مجھے حوصلہ ملا ہے اور مزید لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے، میں تمام شرکائے محفل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے میرے لیے وقت نکالا۔ میں بنیادی طور پر شاعر ہوں لیکن میں نے ناول نگاری بھی شروع کی ہے، اس سلسلے میں جن لوگوں نے میری رہنمائی کی ہے میں اُن کا بھی شکر گزار ہوں۔ میں نے شاعری ترک نہیں کی ہے بلکہ شاعری اور نثر نگاری جاری رہے گی۔