(چھٹی اور آخری قسط)
میں عرض یہ کررہا تھا کہ حفظ میرٹھی اچھے شاعر ہیں، ان کا مطلع بھی مجھے یاد ہے۔ مشاعرے کی بقیہ روداد لمبی نہیں ہے۔ روشؔ صاحب کی وہ غزل بہت عمدہ تھی:
ہم اٹھے دامن جھٹک کے اے روشؔ
لوگ اپنی جھولیاں بھر کر چلے
جب روشؔ صاحب پڑھنے کھڑے ہوئے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ان کے بعد یقینا میرا ہی نمبر ہے، کیوں کہ حاضر شاعروں میں یہی سب پرانے اور بڑے آل انڈیا تھے۔ اچھے برے سب پڑھ چکے تھے۔ یہ خیال کرکے طبیعت بڑی ہی مسرور ہوئی کہ سیکرٹری صاحب نے کم سے کم احقرکے معاملے میں تو حقیقی وطن پرستی کا لحاظ رکھ ہی لیا۔ مجھے سب سے بعد میں پڑھوانا صاف اعلان تھا اس حقیقت کا کہ مُلّا سے بڑا شاعر اس مشاعرے میں کوئی نہیں آیا۔ ہپ ہپ ہرے۔
میرے حلق تک بے اختیار یہ دعا آئی کہ اے اللہ روشؔ صاحب کی غزل پٹ جائے۔ اے مستجاب الدعوات ان کے گلے میں بلغم اٹکا دیجیے یا پھر ان کے شعروں کو بحر سے گرا دیجیے۔ آپ بڑے کارساز ہیں، آپ ہی نے آتشِ نمرود سرد کی تھی، آپ ہی نے طوفان سے حضرت نوحؑ کی کشتی کو بچایا تھا۔
اسی دن سے میں نمازوں کے بعد دعا مانگنے لگا ہوں کہ اے اللہ اگر مجھے مشاعروں میں بھیجنا ہے تو میری باری ہمیشہ کسی ایسے شاعرکے بعد لگائیو جو مائیک سے پٹ کر رخصت ہو، یا حاضرین اس کے اشعار پر کم سے کم تالیاں ضرور پیٹ دیں۔
مگر ہائے، روش صاحب کو تو اتنی داد ملی کہ میری گھڑی کا تسمہ ڈھیلا پڑ گیا۔ دل کی دھڑکنیں کھوپڑی کی چھت سے ٹکرا رہی تھیں۔ خون خشک ہونے کی آواز اتنی صاف آرہی تھی جیسے کڑاہی میں گھی جل رہا ہو۔ بارے روش صاحب فارغ ہوئے اور اب میں آٹومیٹک طور پر اٹھ کھڑا ہوا۔
لیکن یہ کیا؟ وہاں تو اعلان کیا گیا کہ مشاعرے کا دور اول ختم ہوا۔ اب خاص خاص شعراء دور ثانی میں آپ کو محظوظ فرمائیں گے۔ یہ سن کر میں دھڑام سے گرا۔ عمر رفتہ والے بزرگ ’’ارے ارے‘‘ کہتے رہ گئے مگر میں کٹے ہوئے درخت کی طرح ان کے شانے پر جھول گیا۔
اگلے روز ’’ملائن‘‘ سے اس پر جھک جھک ہوئی تھی:
سوز نہ ہو تو سازِ حیات
صرف اک روکھی پھیکی بات
گھر میں مشاعرے کا تذکرہ ہورہا تھا، میں حفیظ صاحب کی تعریف کررہا تھا اور کئی بار یہی مطلع گنگنا چکا تھا۔ نسیمہ یعنی ملائن خربوزہ کاٹتے ہوئے بولی: ’’حفیظ صاحب واقعی بڑے پاکیزہ کہتے ہیں، مگر آپ یہ ایک ہی مطلع کیوں دہرائے جارہے ہیں؟ اور بھی اچھے اچھے شاعر تھے‘‘۔
’’کیوں اس مطلع میں کیا نقص ہے؟‘‘
’’اس میں جھول ہے‘‘۔ وہ منمنائی
’’ہائیں، ماشاء اللہ، جھول تو تمہیں مجھ میں بھی نظر آتا ہے، صاف صاف کہو۔‘‘
’’کیا ساز پر باٹ کا اطلاق ہوسکتا ہے؟‘‘
میں گڑبڑا اٹھا ’’اطلاق یعنی … اب تم اتنے موٹے موٹے لفظ بولو گی! اردو میں کہو۔‘‘
’’چلیے آپ دس منٹ میں اطمینان سے جواب سوچ لیجیے، میں جلدی نہیں کروں گی۔‘‘
’’ارے واہ، سوال تو صاف ہوا نہیں، جواب کیا اپنا سر دوں!‘‘
’’سوال تو صاف ہوگیا۔ اول تو یہی نکتہ بحث طلب ہے کہ سوز ساز کی صفت ہوتی ہے یا نغمے کی‘‘۔
’’تم غلط سمجھیں۔ شاعر یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ساز میں سوز نہ ہو۔ بلکہ وہ کہہ رہا ہے کہ اگر ساز بجانے والے میں سوز نہ ہو تو ساز حیات روکھی پھیکی بات سے زیادہ کچھ نہیں‘‘۔
’’یہ شاعرنہیں آپ کہہ رہے ہیں۔ شعر میں تو سازندے کا ذکر ہے، نہ نغمے کا‘‘۔
’’کیا بچوں کی سی باتیں کرتی ہو، شعر میں محذوفات تو ہوا ہی کرتے ہیں‘‘۔
’’چلیے مان لیا سوز کا تعلق نغمہ کار سے ہے یا جس سے بھی آپ کہیں، مگر کیا یوں بولنا درست ہوگا کہ فلاں ساز ایک لذیذ و شیریں بات ہے، اور فلاں ساز ایک روکھی پھیکی بات ہے؟‘‘
’’میں نے کھوپڑی سہلائی، خود اپنی کھوپڑی۔ اس میں خود رو گھاس کی فصلِ بہار لہلہا رہی تھی۔ تیل نہ جانے کب سے نہیں پڑا تھا، پھر رات کی جگار، معاذاللہ‘‘۔
’’اُف سر میں کتنا درد ہے‘‘ میں نے بالوں کو مٹھی میں بھر کر کھینچا، ’’ذرا ٹھیرو حجامت بنوا آؤں پھر دیکھوں گا تمھارے دماغ کا کون سا اسکریو ڈھیلا ہوا ہے‘‘۔
’’کھانا اتر رہا ہے،میں اپنا اعتراض واپس لیتی ہوں‘‘۔
خربوزے
’’اَڑو مت۔ یہ بہت بری بات ہے کہ تم آئے دن بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات میں کیڑے نکالتی ہو۔ میں تمھیں پہلے بھی اطلاع کرچکا ہوں اور اب پھر دیتا ہوں کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں‘‘۔
’’اس سے میں نے کب انکار کیا! مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ہر ادیب و شاعر پیغمبر ہوتا ہے!‘‘
’’اب تم عقائد کی بحث اٹھاؤ گی۔ لاؤ خربوزے ادھر لاؤ، یہ شاید تمھارے بھیا نے بھیجے ہوں گے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’واپس کردو۔ دیکھا تم نے، انھوں نے میری زندگی تباہ کردی۔ رات یقیناً انھی کی سازش سے میرا نام کاٹا گیا ہے‘‘۔
’’اس کی تو مجھے بھی شکایت ہے۔ عورتیں مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ تمھارے میاں بھی تو شاعر ہیں انھوں نے مشاعرے میں کیوں نہیں پڑھا؟ میں نے کہہ دیا کہ وہ مُلّا آدمی ہیں، کسی ایسے مشاعرے میں نہیں پڑھ سکتے جس میں عورتیں پڑھ رہی ہوں‘‘۔
’’شاباش، بہت مناسب جواب دیا۔ پھر عورتوں نے کیا کہا؟‘‘
’’کچھ نہیں، چپ ہو گئیں۔ مگر وہ مولوی شریف الحسن کی بڑی لڑکی سلمیٰ کہنے لگی کہ اے ہے ایک بچاری شبنم ہی تو تھی، کون سا وہ انھیں کھا لیتی!‘‘
’’خیر خیر۔ یہ خربوزے واپس بھجواؤ۔ تمھارے بھیا سے اب میں کسی قسم کا گھریلو تعلق نہیں رکھنا چاہتا‘‘۔
یہ کہتے کہتے میں نے آگے بڑھ کر بس بے ارادہ ہی ایک پھانک اٹھا کر منہ میں رکھ لی۔ پھانک کیا تھی شبنم کی پھوار تھی۔ آتشِ اشتعال پر چھینٹا سا پڑتا چلا گیا۔
’’آپ کی یہ رائے ہے تو میں واپس بھجوائے دیتی ہوں‘‘ مُلّائن سینی اٹھانے لگی۔
’’نہیں ٹھیرو، یہ تو بہت میٹھے معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے ایک اور قاش منہ میں رکھتے ہوئے اس کا ہاتھ سینی سے ہٹا دیا۔
کھانے کے دوران اس نے غالباً ازراہ شرارت پھر وہی سوال کیا:
’’آپ نے بتایا نہیں ساز پر بات کا اطلاق…‘‘
’’گولی مارو اطلاق کو، میں حفیظ صاحب کا پرسنل سیکریٹری تو نہیں ہوں‘‘۔