حج کی حکمت اور تقاضے

402

الحمدللہ ذوالحج کا مہینہ مسلمانوں کے لیے معتبر و عظیم ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش اور آرزو ہوتی ہے کہ اسے حج کی سعادت نصیب ہو، اور حج بھی ایسا، جو مقبول و مبرور ہو۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں امتِ مسلمہ پر دوسرے فرائض کی طرح حج بھی فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ ہے اس گھر کا حج کرنا، جو کوئی پاسکے اس کی طرف راہ۔ اور جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے پروا ہے۔‘‘
اسی طرح آپؐ کی احادیث میں بھی حج کے فریضے کی ادائی کی تاکید ملتی ہے جیسا کہ آپؐ نے فرمایا ’’جس کو ظاہری مجبوری یا ظالم بادشاہ‘ یا معذور کرنے والی بیماری مانع حج نہ ہو اور پھر وہ حج کیے بغیر مر جائے تو اس کو اختیار ہے کہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔‘‘ (مشکوٰۃ) یعنی جو تندرست و توانا ہے‘ اس کے پاس حج کی آمد ورفت کا خرچ بھی موجود ہو‘ راستہ بھی پُرامن ہو تو اسے خلوصِ دل کے ساتھ اس حکم کی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو گناہ گار ہوگا، یعنی جس طرح ارکانِ اسلام کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے‘ اسی طرح صاحبِ حیثیت اور صحت مند کے لیے حج کا رکن بھی فرض ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا یعنی اس فرض کی ادائی سے محروم رہے، تو گناہ گار ہے۔
الحمدللہ میرے چاروں طرف اللہ کے ایسے بندے ہیں جنہوں نے اس فریضے کو انجام دینے میں دیر نہ کی، بہت کم ایسے ہوں گے جو حیثیت و طاقت رکھنے کے باوجود اس سعادت سے محروم ہوں گے۔ اللہ رب العزت کا کرم اور انعام ہے کہ اس سعادت کو حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا جس کے لیے میں اپنی آپی (بڑی بہن) کی بھی شکر گزار ہوں کہ جب وہ 2008ء میں حج کرکے آئیں تو بحیثیت بڑی بہن کے ہم بہن بھائیوں سے کہنے لگیں ’’ابھی طاقت اور ہمت ہے، جتنا جلدی ہوسکے اس فریضے کو انجام دینے کی کوشش کرو‘‘۔ آپی کی بات سن کر ہم بہن بھائیوں نے کمر کس لی۔ الحمدللہ 2010ء میں ہم دونوں بہنوں اور میرے بیٹے کو حج کی سعادت نصیب ہوگئی۔ میرے رب کا کرم ہے کہ حج کے تمام مناسک بخیر و خوبی انجام دینے کی توفیق میرے رب نے عطا کی۔ ہر گھڑی بس یہی دعا لبوں پر رہی کہ اللہ تُو نے یہ سعادت نصیب فرمائی ہے تُو اب اس حج کو حجِ مقبول و مبرور فرما۔ جی ہاں اس سعادت کو حج مقبول و مبرور ہونے کے لیے دعا کے ساتھ عمل کی بھی سخت ضرورت ہے۔ لیکن افسوس‘ بے حد افسوس سے یہ بات کہوں گی کہ میں نے لوگوں کو سفر کے شروع سے ہی کچھ کوتاہیوں میں مبتلا دیکھا جس سے اکثر آس پاس والوں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً حج گروپ والوں کی طرف سے نہایت عمدہ انتظامات کیے گئے تھے۔کھانا وافر مقدار میں میزوں پر لگایا جاتا، لیکن یہاں بھی دھکم پیل کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ اکثر اس صورتِ حال میں ایک آدھ کو چوٹ بھی لگ جاتی۔ یہی دھکم پیل مطاف میں بھی نظر آئی۔ آگے والے حاجیوں کو دھکا دے کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر مطاف میں ایک چیز (افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں) دیکھی کہ چھ‘ آٹھ افراد کا گروپ ہوتا تو وہ ہاتھوں میں ہاتھ ملائے (چین بنا کر) طواف کرتے، کتنا ہی رش ہو وہ اپنی لمبی لائن نہ توڑتے، چاہے آگے اور پیچھے والے حاجیوں کو کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے۔ بے شک یہ مقام ایسا ہے کہ ہر شخص پُرجوش اور اپنی عبادت میں مصروف نظر آتا ہے، لیکن ہمیں ہر قدم پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پاس داری سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ سعودی حکومت ہر جگہ حاجیوں کی سہولیات کے لیے خاص انتظامات کرتی ہے بلکہ سعودی عوام بھی حاجیوںکو کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے ہیں۔ مفت کھانے پینے پر بھی بہت زیادہ رش دیکھنے میں آتا ہے، حالانکہ مناسک کی ادائی کے ان تمام دنوں میں کھانے پینے میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ کم کھانے پینے سے انسان نہ صرف ہلکا پھلکا اور چاق چوبند ہر عبادت کو بہ خوبی انجام دے سکتا ہے بلکہ اپنی صحت کے لیے بھی یہ احتیاط ضروری ہے۔ غرض کہ اس سفرِ حج میں ہر قدم پر احتیاط لازم ہے۔ اپنے نفس کے غلام ہوکر نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی تکلیف نہ پہنچائیں۔ میرا اللہ تو صدقِ دل سے دعائیں مانگنے والوں کی ضرور سنتا ہے۔ یقینا حج کی ادائی جو بندے کو اس طرح پاک و صاف کردیتی ہے جیسے وہ اسی دن ماں کے پیٹ سے جنا ہو۔ یعنی اب نئے سرے سے اللہ نے آپ کو زندگی دی ہے، اس نئی زندگی کو پاک صاف رکھنا اب آپ کا ہی کام ہے۔ بار بار اللہ ایسا موقع نہیں دیتا کہ پچھلے گناہ بخش دے اور آپ کو گناہوں سے پاک کردے۔ اللہ رب العزت ہم سب مومنین کے حج کو ’’حج مبرور‘‘ کا درجہ عطا فرمائے۔
میں اپنی تحریر مشکوٰۃ کی اس حدیثِ پاک سے مکمل کروں گی کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص حج کرے واسطے اللہ کے (یعنی ریا، نمود وغیرہ نہ ہو، خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو) اور نہ فسق کرے (یعنی گناہِ کبیرہ نہ کرے) تو حج سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اسے اسی دن جنا ہو۔‘‘

حصہ