خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے
جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے
خودشناسی کو جیت بتلانے والے جتھے تو بہت ملتے ہیں، لیکن اس جیت کا زائچہ یا اس خواب کی تعبیر کا خاکہ کوئی نہیں دیتا۔ بھلے ہی وہ خاکہ مبہم سہی لیکن دنیا کو ایک ماں اور بیٹی نے مل کر دیا۔ ایک سادہ سا سوال نامہ دیا جس کے سچے جواب دینے والوں کو ان کی شخصیت کا آئینہ مل جاتا ہے۔ جب موقعہ ملے خود کو اس رپورٹ کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’’جب ذرا گردن جھکالی دیکھ لی۔‘‘
ـ’’میں کون ہوں‘‘۔ میری سوچ کے اہم پہلو کون سے ہیں۔ میں کسی بات کا انکاریا اقرار کرتا ہوں اورکس حیثیت میں کرتا ہوں۔ اس طرح کے سوال شخصیت شناسی کے اہم پڑاوہیں۔ مدتوں سے عالمی ادارے طرح طرح سے ٹیسٹ لے کے اپنے اداروں کے کام کرنے والوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ویسے عرفانِ ذات کا نظریہ جتنا اہم ہے اتنا ہے ردو قبول کی کشاکش سے گھرا رہتا ہے کیوں کہ شخصیت ؛حرکت ،تغیر و تبدیلی سے عبارت ہے ۔ اسی طرح کا ایک ٹیسٹ جو بہت بڑی حد تک کامیاب ہے اس سے آپ کو متعارف کرواتے ہیں۔ جس کو Carl Jung کی علم نفسیات کے انکشاف کے اصولوں پر اس علم کو وسعت دیتے ہوئے ایک ماں اور بیٹی نے ایک آزمائشی ٹیسٹ تیارکیا۔ Isabel Briggs Myers اور Katharine Briggsاور ان دونوںنے اس کا نام رکھا MBTI (Myers.Briggs.Test Indicators) جو چند سوالوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یہ نیٹ پر مفت بھی موجود ہے۔
www.16personalities.com/free-personality-test
شخصیت ’’فطرت اورتربیت ‘‘کا خوش آہنگ سنگم ہے۔ اپنی ترجیحات، میلانات کا عرفان ہوجائے تو انسان خود سے متعارف ہوجاتا ہے۔ ترجیحات ہی رویوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ قوتِ فیصلہ کو ذہانت درکار ہوتی ہے جو چار عوامل پر ہوتی ہے۔ 1شخصیت کے دومرکزی الگ الگ رجحان ہوتے ہیں وہ یا تو ’’اندروں بیں ‘‘Introvert (جو زندہ رہنے کو اپنے اندر سے قوت سمیٹتے ہیں ، کم سخن، محتاط، تنہائی و تفکر پسند )یا ’’بیروں بیں‘‘Extrovert ہوتی ہے(یہ زندہ رہنے کوباہر سے طاقت کشید کرتے ہیں ، غول پسند، خوش گفتار، اقدامات پسند، ملنسار)۔2۔پھروہ اپنے ’’وجدان‘‘Intuition (یہ وجدانی لوگ خلاق ذہن، فلسفہ پسند، جزیات کے بجائے کلیات ، نظریہ ساز، بین السطور معنی پانے کی دھن رکھنے والے ہوتے ہیں)یا ’’خارجی اساس احساس ‘‘ Sensing (حواس پر انحصار، ٹھوس کام ، ترتیب، اور مہم کو مکمل کرنے والے لوگ)ہوتے ہیں۔ وہ اسی ترجیحات کی بنیاد پر وہ مطلوبہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ 3۔پھر ’’داخلی احساس پسندــ‘‘ Feeling (جواوروں کے جذبات کو خودپر ترجیح دینا، مزاج میں لچک، آہنگ پسند، فرد کو سزا سے بچانے والے، معاشرے اور ماحول کو ذمہ دار کہنے والے، دکھ دیکھ کر دہل جانے ولے)۔ ’’سوچ بنیادـ‘‘Thinking (ایسے لوگ تنقید کا ہنر جانتے ہیں، انصاف پسند، خشک مزاج، خوبی اور خامی پر گہری نظر، غیر جذباتی ہوتے ہیں) اپنے ایسے ہی رویوں کو ترجیحات کی چھلنی سے چھان پھٹک کر اخذ کردہ معلومات اور اپنی ’’قوتِ فیصلہ‘‘ سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ 3۔پھر آخرکار’’ حقیقت پسندی‘‘ Judging (والے لوگ، مکمل خاکہ پر ترتیب سے کام کرنے والے، وقت کے پابند، ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنے والے، اہداف کے پابند، ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے والے) یا ’’ادراک‘‘ Perceiving (مزاج لوگ کئی کام ایک ساتھ کرنے والے، وقت کو ٹالنے والے، میعار پانے کے سبب کام کو بارہا کرنے والے، آغاز سے زیادہ انجام کو سمجھنے کی خواہش رکھنے والے، اہداف ٹالنے والے، ان کے کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں) ایسے لوگو ں کی زندگی انہی کے فیصلوں کے سبب ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ترجیحات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو اکثر فطری میلانات کے سبب ہوتے ہیں۔ اس کی شناخت کے بعد چند سوالوں سے سچے جواب کے بعد یہ آسان ہوجاتا ہے کہ زندگی کے کون سے پڑوا پر ہم زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کونسا موضوع ہمارے لیے بہتر اور کونسی تجارت ہمارے لیے سازگار ہوسکتی ہے ، کونسی ڈگری شخصی میلان سے میل کھاتی ہے۔ بلکہ گرہستی، تربیت ِ اولاد اور افراد و ادارہ سازی کی تمام مہمات ہمارے لیے ساز گار ہوسکتی ہیں۔اپنی فطرت کی سفاکیاں، رویوں کی بے باکیاں بھی امکانات کی سرفرازیاں اور یقینی کامیابیاں سب کچھ بڑی حد تک آسان ہوجاتا ہے۔
ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی
(آل احمد سرور)
مذکروہ عوامل کی بنیاد پر جملہ سولہ قسم کی شخصیات بنتی ہیں۔جو بتائے گئے انگریزی اصطلاحوں سے اخذ کردہ پہلے حرف سے جملہ چار حرفی اشاروں پر مشتمل ہوتے ہیںمثلاً ENFP جیسے جملہ سولہ سیٹ بنتے ہیں۔ جس کے سبب مزاج کی تشکیل ہوتی ہے۔ جب ہم فطرت اور تربیت اورترجیحات کے سبب واضح طور پر کسی طرززندگی کو قبول کرتے ہیں تو خود کے لیے بھی جینا اور اپنی بساط بھر مطمئن رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس نظریہ کی خوبی یہ ہے کہ کسی بھی گروپ سے بنی شخصیت کو ناکارہ نہیں قرار دیتابلکہ مسائل کو وسائل سے جوڑنے اور خدشات کو امکانات سے وابستہ کرنے کی راہ بتاتا ہے۔اس نظریہ پر لاکھوں صفحات لکھے جاچکے ہیں اور ان پر ان گنت ادارے کام کررہے ہیں۔ زندگی جن چار مراحل سے گزرتی ہے وہ :
-1 قوت کشید کرنا۔-2 معلومات حاصل کرنا۔-3فیصلہ کرنا۔-4 زندگی گزارنے کاانداز طے کرنا۔
یہ مرحلہ وار چیزیں صرف ترجیح اور ردو قبول کے سبب ہی ممکن ہے۔ہم آپس میں ایک دوسرے کی شخصیت کے مرکزی رویوں سے واقف نہ ہونے کے سبب الزام ، اتہام اور بے جاتوقعات میں ایک دوسرے کو ضائع کرتے ہیں۔ایک ماہر شخصیت ساز نے ایک تربیتی نکتہ بتایا کہ اگر گھرکے دروازے سے سر پر گٹھڑی اٹھائے بچوں کاباپ داخل ہورہا ہواور اس کے دو بیٹے اپنے باپ کو داخل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوں جس میں ایک بیٹا Thinker مزاج ہو تو پوری سچائی سے مسئلہ کا حل یہ سوچے گا اور دل ہی دل میں یہ کہے گا یا چلا کرکہے گا کہ ـ’’چند انچ سر جھکا کرداخل ہوجائیں تو مسئلہ ٹل جائے گاورنہ سر کی گٹھڑی گر جائے گیـ۔ دوسرا بیٹا اگرFeeler قسم کا ہو تو دوڑ کا سہارا دے گا اور سر کا سامان اُتار لے گا۔ایسے میں باپ تو کیا سارا سماج Thinker کو نافرمان ، غیر سعادت مند گردانے گا۔ جب کہ اس کا ذہن جو رویہ کے انتخاب پر پہنچا تھا اس میں اس کی کوئی بدنیتی نہیں تھی ۔ آگے بڑھ کر بوجھ اتارنا اس کے ذہن میں آبھی نہیں سکتا تھا۔ اس کو قدرت نے اسی طرح بنایا تھا۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھے بغیر بارودی فضاوں میں جیتے ہیں۔ کہیں ا پنے بڑے ہونے کارعب، عہدے کا زعم، وسائل کی دھاک اور اسی قسم کی چند سہولت بخش عادتوں کی لت میں عمر گزاردیتے ہیں۔یہ روییّ ہی تو ہیں جو اداروں کو آمریت سکھاتے ہیں۔ فلاحی حکومت کو قہاری اور گمراہی سکھاتے ہیں۔ یہ ترجیحات کا الٹ پھیر ہی تو ہے۔ بقول اقبالؔ
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر\