پوری دنیا میں انسان اس اعتبار سے منفرد ہے کہ صرف اُسے ذہانت عطا کی گئی ہے۔ دیگر مخلوق ایک طے شدہ طریق پر چلتی رہتی ہے۔ اُن کی سرگرمیاں بھی محدود ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ انسان کو ذہن عطا کیا گیا ہے یعنی جو کچھ وہ دیکھتا، سُنتا اور پڑھتا ہے اُس کا تجزیہ کرکے اپنی ایک رائے قائم کرتا ہے اور سب کی آراء مل کر ایک نظامِ فکر ترتیب دیتی ہیں۔ یہ ذہن ہی ہے جس نے دنیا میں اِتنی رنگینی پیدا کی ہے۔ یہ تنوع، یہ نیرنگی صرف ذہن کی بدولت ہے۔ ہاں، خصوصی طور پر یہ اُن کا معاملہ ہے جو ذہانت کو بروئے کار لانے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی آج بھی اکثریت ہے جو ذہنی اعتبار سے خالص حیوانی سطح پر رہتے ہیں، یعنی کبھی کچھ سمجھنے، سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
انسان ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہا ہے کہ ذہانت کی سی خوبی کی حامل اشیاء تیار کرے تاکہ زندگی آسان تر ہوجائے۔ اب یہ معاملہ بہت حد تک نمٹ چکا ہے۔ آج کے انسان نے ایسا بہت کچھ تیار کرلیا ہے جو اُس کے ذہن سے بوجھ ہٹانے کے لیے کافی ہے۔ ایسی مشینیں بنائی جاچکی ہیں جو بہت سے کام خود کرتی ہیں۔ یہ مشینیں کسی بھی صورتِ حال میں فیصلے بھی کرتی ہیں اور کام کو آسان بھی بناتی ہیں۔ یہ سب کچھ مصنوعی یا مشینی ذہانت کی مدد سے ممکن ہوسکا ہے۔
آج کل گوگل میں ایک ایسے چیٹ بوٹ پر کام ہورہا ہے جو انسانوں سے بھرپور گفتگو کرسکے، اُن کے دل کا حال سُنے اور جو کچھ سُنے اُس کے مطابق ہی جواب دے، تشفی ممکن بنائے۔ گوگل کے ایک انجینئر کے اس دعوے نے تہلکہ مچادیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی حامل اشیاء محض سوچتی نہیں، محسوس بھی کرتی ہیں۔ ایک تجربے کے دوران اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک خاص مرحلے پر مشینی ذہن میں وہی جذبات پیدا ہوئے جو انسان کے ذہن میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ مشین کے ذہن میں دلِ دردمند نے جنم لے لیا۔ گوگل کے دیگر انجینئرز اور متعلقہ شعبے کے دیگر ماہرین نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے، تاہم یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں یہ انسانوں کی طرح مکمل آزادی کے ساتھ فیصلے کرے، کسی کے درد کو محسوس بھی کرے؟ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے۔ گوگل کے انجینئر نے محسوس کرنے والی مشین کے لیے لفظ sentient استعمال کیا۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ لفظ اہلِ فلسفہ نے پہلی بار 1630ء میں استعمال کیا جس کا مقصد سوچنے سے ہٹ کر صرف محسوس کرنے کی صلاحیت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا تھا۔
گوگل کے انجینئر بلیک لیموئن نے اپنے ایک پراجیکٹ کے حصے کے طور پر لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز نام کی ایک آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے طویل گفتگو کی تھی۔ یہ گفتگو بہت سے خالص انسانی معاملات کے بارے میں تھی۔ دونوں نے پریشانی، دکھ، ہجر، موت اور افلاس وغیرہ کے بارے میں کھل کر بات کی۔ اس گفتگو کے دوران بلیک لیموئن کو محسوس ہوا کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم تو بالکل انسانوں کی طرح محسوسات کا حامل ہے۔ اُس نے اس گفتگو کو کم و بیش 200 ماہرین سے شیئر کیا۔ یوں یہ معاملہ گوگل کی حدود سے باہر آیا۔ ادارے نے اس انجینئر کو اندر کی بات باہر پہنچانے کی پاداش میں رخصت پر بھیج دیا ہے تاہم تنخواہ جاری رکھی ہے۔
مصنوعی ذہانت ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ ایک بار پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ کیا ہم مصنوعی ذہانت کے عہدِ عروج میں جی رہے ہیں؟ کیا عام آدمی نے مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانا شروع کردیا ہے؟ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے مختلف شعبے آج کہاں کھڑے ہیں؟ سوال بہت سے ہیں، آئیے اِن سوالات کے جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت آخر ہے کیا؟
مصنوعی ذہانت یعنی ایسا کمپیوٹر سسٹم جو انسانوں کی طرح جو کچھ دیکھے اور سُنے اُس کا اپنے طور پر تجزیہ کرکے کسی نتیجے تک پہنچے اور فیصلہ کرے۔ یہ سب کچھ اُسے بیرونی مدد کے بغیر اپنے طور پر کرنا ہے۔ فی الحال مصنوعی ذہانت کو چار خانوں میں رکھا جارہا ہے:
1۔ ردِعمل دینے والی مشینیں: یہ مصنوعی ذہانت کی سادہ ترین شکل ہے۔ ہم کسی بھی کمپیوٹر میں چند پروگرام ڈال دیتے ہیں، اور جب ہم کوئی بات کمپیوٹر کے حوالے کرتے یا اُسے کوئی حکم دیتے ہیں تب وہ اپنے اندر موجود پروگرام کی مدد سے اُس بات کا تجزیہ کرکے اپنا ردِعمل ظاہر کرتا ہے جو لگا بندھا ہوتا ہے۔
2۔ محدود حافظہ: اس نظام کے تحت کوئی بھی کمپیوٹر، حاصل ہونے والی معلومات کو محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔ ایسی کسی بھی مشین، کمپیوٹر یا سسٹم کے تمام فیصلے دی گئی معلومات کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
3۔ تھیوری آف مائنڈ: اس نوعیت کے سسٹم میں ہماری راہ نمائی ہماری ضرورت کے مطابق کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بھی حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثلاً گوگل میپ میں آپ کسی مقام تک پہنچنے کے لیے کہیں غلط مُڑ جائیں تو مشین آپ کی راہ نمائی کرتے ہوئے درست موڑ تک لے جائے گی تاکہ آپ راہ سے ہٹ نہ سکیں۔ لیکن ہاں، اگر ہم کہیں ٹریفک میں پھنس جائیں اور الجھن محسوس کریں تو مشین ہمیں پُرسکون رہنے کو نہیں کہے گی۔ ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق درست ترین مشورہ دینے کے لیے مشینوں کو ابھی غیر معمولی تحقیق کا سہارا درکار ہے۔
4۔ سیلف اویئر : یہ ہے مصنوعی ذہانت کا نقطۂ عروج، یعنی مشین کو اپنے بارے میں خود ہی بہت کچھ معلوم ہو، اپنے وجود کا احساس ہو جیسا کہ بلیک لیموئن نے دعویٰ کیا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب اُس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں وہ انسانی ذہانت کو چُھوسکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کو مزید دو درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1۔ آرٹیفیشل نیرو انٹیلی جینس، 2۔ آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس
نیرو انٹیلی جنس کسی ایک معاملے ہی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آج ہمارے زیرِ استعمال بہت سے آلات میں نیرو انٹیلی جنس ہی بروئے کار لائی جارہی ہے۔ اس نوعیت کی مصنوعی ذہانت سونپا ہوا کام عمدگی سے کرتی ہے۔ مگر صاحب! اِتنے سے ہمیں سکون کہاں ملنے والا ہے؟ ہم تو ایسی مشینیں تیار کرنا چاہتے ہیں جو انسانی ذہن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہماری خدمت انجام دیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ انسان کا ذہن اور کمپیوٹر کن کن معاملات میں یکساں ہے اور کہاں کہاں فرق واقع ہوا ہے۔
انسانی ذہن کس طور کام کرتا ہے؟
انسان نے بہت ترقی کی ہے۔ بہت کچھ بنالیا گیا ہے، دریافت کرلیا گیا ہے، مگر پھر بھی ماہرین اب تک انسانی ذہن کی حقیقی نوعیت اور کارکردگی کو اطمینان بخش حد تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہر انسانی دماغ میں 100 ارب سے 500 ارب تک انتہائی باریک خلیے ہوتے ہیں جنہیں نیورون کہا جاتا ہے۔ یہ نیورونز انسانی دماغ کا صرف 10 فیصد رقبہ گھیرتے ہیں۔ دماغ کے باقی رقبے میں نیورونز کی کارکردگی کا معیار برقرار رکھنے میں مدد دینے والے خلیے واقع ہوتے ہیں۔ ہر نیورون میں معلومات کو وصول کرنے اور آگے بڑھانے کا نظام پایا جاتا ہے۔ نیورونز آپس میں مل کر ایک ایسا نظام تیار کرتے ہیں جو معلومات کو تیزی سے آگے بھی بڑھاتا ہے اور اُن کا تجزیہ کرکے ہمیں مطلوب نتائج یا فیصلے تک پہنچنے میں مدد بھی دیتا ہے۔ ہر نیورون کو معلومات فراہم کرنے کے لیے کئی اِن پُٹ کنکشن ہوتے ہیں، جبکہ نیورون سے معلومات کو باہر لانے کے لیے صرف ایک آؤٹ پُٹ کنکشن ہوتا ہے۔
قصہ مختصر، کسی بھی دماغ اور مشین میں معلومات کو حاصل کرنے اور اُن کا تجزیہ کرکے مطلوب نتائج دینے والے خلیے اور کنکشن ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن اور مشین کے درمیان مماثلت یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
انسانی دماغ میں ہر نیورون دوسرے دس بارہ ہزار نیورونز سے جُڑا ہوتا ہے، جبکہ کسی بھی کمپیوٹر مائیکرو پروسیسنگ چِپ میں موجود ٹرانزسٹرز چند ہی ٹرانزسٹرز سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
انسانی دماغ اور کمپیوٹر چِپ میں پائی جانے والی مماثلت اور تفاوت کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ کسی بھی کمپیوٹر میں بہت بڑے پیمانے پر معلومات محفوظ کی جاسکتی ہیں۔ اِن معلومات کی پروسیسنگ بھی ممکن ہے اور مطلوب نتائج بھی بہت تیزی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ کمپیوٹر چِپ میں بہت سے پروگرام (ایپز) داخل کرکے اُن سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا قدرے آسان ہوتا ہے۔ کمپیوٹرز کے معاملے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ اُن میں بہت بڑے پیمانے پر جو ڈیٹا محفوظ کیا گیا ہو اُس کی بنیاد پر بننے والی کوئی بڑی تصویر ہمیں واضح طور پر دکھائی نہیں دیتی۔ انسانی دماغ کو جو معلومات حاصل ہوتی ہیں اُن کی بنیاد پر وہ بہت آسانی سے ہمیں ایک بڑے کینوس پر تصویر بناکر پیش کرتا ہے۔ یہ کام مصور بھی کرتا ہے اور مصنف بھی۔ جو کچھ دیکھا، پڑھا اور سُنا ہو اُس کے تجزیے کی بنیاد پر ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچا جاسکتا ہے جو ہماری اِس حقیقی دنیا سے ہٹ کر اور زیادہ دل کش ہو۔
کمپیوٹرز میں بہت کچھ ایک ساتھ جمع کیا جاسکتا ہے اور محفوظ بھی رکھا جاسکتا ہے، جبکہ انسانی دماغ دھیرے دھیرے پنپتا ہے۔ اُس میں پہلے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پیدائش کے وقت انسان کا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے۔ بچہ ماحول میں جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ اُس کے دماغ کا حصہ بنتا جاتا ہے، اور یوں اُس کی فکری ساخت بھی پروان چڑھتی جاتی ہے۔ انسان بہت کچھ غیر محسوس طور پر سیکھتا جاتا ہے، اور یوں اُس کی کارکردگی بھی بتدریج بہتر ہوتی جاتی ہے۔ بعض معاملات کو سیکھنے میں انسانی ذہن ایک طویل مدت لیتا ہے۔
انسانی ذہن کو ایک خاص برتری حاصل ہے … یہ کہ نیورونز چونکہ آپس میں غیر معمولی، بلکہ حیرت انگیز حد تک جُڑے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے اُن میں کسی بھی معاملے کا تجزیہ کرکے ایک انوکھا نتیجہ کشید کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انسانی دماغ یہ کام بہت تیزی سے کرتا ہے۔ انسانی دماغ حاصل شدہ معلومات کو آپس میں جوڑ کر ایک انوکھا نتیجہ اخذ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ کمپیوٹر اپنے طور پر نہیں سوچ پاتا بلکہ جو کچھ بھی اُس میں فیڈ کیا گیا ہو اُسی کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔ انسانی دماغ معلومات کے تجزیے سے ایسا نتیجہ کشید کرسکتا ہے جو وہم و گمان میں نہ ہو۔
آج ماہرین کی ساری کوشش اس بات کے لیے ہے کہ کمپیوٹر چِپ میں پائے جانے والے ٹرانزسٹرز کو نیورونز کی طرح آپس میں جوڑا جائے تاکہ مطلوب نتائج لگے بندھے نہ ہوں بلکہ حیرت انگیز حد تک مختلف ہوں اور اُن کی مدد سے کچھ بہتر کرنے کی تحریک ملے۔ ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ کمپیوٹرز چِپس میں اگر نیورل نیٹ ورکنگ ممکن بنادی جائے تو کوئی بھی مشین انسانوں کی طرح سمجھنے اور سوچنے کے قابل ہوسکے گی۔ یوں کوئی مشینی معاملہ محض مشینی نہیں رہے گا بلکہ بہت حد تک انسانی ہوجائے گا۔ اب تک تو مشینیں لگے بندھے انداز سے کام کرتی آئی ہیں۔ بعض ماہرین کسی ایک کمپیوٹر میں نیورل نیٹ ورک کھڑا کرنے کے بجائے مختلف کمپیوٹرز کو نیورل نیٹ ورک کی طرح آپس میں جوڑنے کے حوالے سے بھی تجربے کررہے ہیں۔
ہماری زندگی میں مصنوعی ذہانت :
دنیا بھر کی ہائی ٹیک کمپنیاں (گوگل، ایپل، ایمیزون، بیئیڈو وغیرہ) بہت سے سپر کمپیوٹرز کے نیٹ ورکس کی مدد سے ڈیپ لرننگ، نیچرل لینگویج پروسیسنگ اور کمپیوٹر وژن جیسی ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لاکر مصنوعی ذہانت کو ہماری زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت ہمیں بہت عجیب لگتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے، مثلاً آپ اسمارٹ فون کو آواز کی مدد سے چلاسکتے ہیں۔ ہماری آواز اور الفاظ کو پہچان کر اسمارٹ فون کا نیٹ ورک کال ملاتا ہے، ای میل ایپ کھولتا ہے، یا پھر الارم سیٹ کردیتا ہے۔
اسمارٹ فون کی طرح الیگزا یا گوگل ہوم جیسے پرسنل اسسٹنٹ بھی ہماری روزمرہ گفتگو کو سمجھ لیتے ہیں۔ فیس بک کے اسٹیٹس اپ ڈیٹس میں فیڈ کی جانے والی تصویروں میں لوگوں کے چہرے فیس بک ایپ شناخت کرکے اپنا کام کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ڈیپ لرننگ سسٹم کے ذریعے ہوتا ہے۔ مختلف سرچ انجن بھی اِسی طور کام کرتے ہیں۔ کسی بھی شخص، چیز، عمارت، سڑک یا دریا، پہاڑ، میدان وغیرہ کی تصویر تلاش کرنی ہو تو سسٹم ہمیں ٹیگنگ کی بنیاد پر ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ہماری مطلوب تصاویر کے ساتھ ساتھ اور بھی لاکھوں تصویریں ہوتی ہیں۔ ہم درست ٹیگنگ کے ذریعے اپنی مطلوب تصویر تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ مصنوعی ذہانت کا کمال ہے۔
اگر ہماری ای میلنگ ایپ میں ہماری کام کی ای میلز کے ساتھ غیر مطلوب یا غیر ضروری ای میلز آ پڑیں تو سسٹم خود ہی اُنہیں الگ کردیتا ہے۔ ایسی ای میلز کو spam کہا جاتا ہے۔ ہم چاہیں تو اُنہیں براہِ راست حذف کرسکتے ہیں یا پھر جائزہ لے کر اُن میں سے جو کام کی ہو اُسے الگ رکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی ای میلنگ سسٹم ہماری ضرورت کو اچھی طرح اُس وقت سمجھ پاتا ہے جب ہم اُسے زیادہ بروئے کار لائیں اور دن رات ٹریفک جاری رہے، یعنی ہم ای میل بھیجتے رہیں اور وصول کرتے رہیں۔ یہ سب کچھ عام آدمی کے لیے نہیں ہوتا مگر کاروباری افراد اور بڑے اداروں یا سرکاری محکموں، وزارتوں، ڈویژنز وغیرہ کے لیے بہت کام کام کا ہوتا ہے، کیونکہ دنیا بھر میں روزانہ ایسی لاکھوں ای میلز بھیجی اور وصول کی جاتی ہیں۔
مائیکرو سوفٹ کی مشہور ایپ اسکائپ میں اب یہ بھی ممکن ہوچکا ہے کہ کوئی شخص انگریزی میں بات کررہا ہو اور فریقِ ثانی اُسے اطالوی زبان میں سمجھ رہا ہو۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والا نظام انگریزی میں کہی جانے والی بات کو اُسی وقت اطالوی زبان میں بدل کر پیش کررہا ہوتا ہے!
بعض ای میلنگ ایپس اب اسمارٹ ریپلائیز کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں، یعنی جو ای میل ہمیں موصول ہوئی ہے اُس کے تین موزوں ترین ممکنہ جواب تجویز کیے جاتے ہیں۔ آپ چاہیں تو فوری رسپانس دے سکتے ہیں۔ یعنی ای میلنگ ایپ آپ کو ٹائپنگ وغیرہ کے جھنجھٹ سے آزاد کردیتی ہے۔
بہت سی ایپس میں ٹائپنگ اس لیے بھی آسان ہوگئی ہے کہ جب ہم کچھ ٹائپ کر رہے ہوتے ہیں تب کمپیوٹر ہمیں اگلا متوقع لفظ تجویز کرتا ہے۔ اگر وہ لفظ ہماری مرضی کے مطابق ہو تو ہمارے ذہن کا بوجھ کم ہوجاتا ہے۔
ڈیپ لرننگ میتھڈ کے ذریعے بہت سی ویب سائٹس کسی خاص طرح کا مواد الگ کردیتی ہیں۔ ایسی صورت میں یوزر کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر الگ کیا جانے والا مواد اپنی مرضی کا ہو تو ٹھیک، ورنہ اُسے حذف کردیجیے۔ یوں مصنوعی ذہانت ہماری زندگی پر چھائی ہوئی ہے۔ ہم دن بہ دن مصنوعی ذہانت کے غلام ہوتے جارہے ہیں۔ اگر کل کو ہمارے ذہن کام کرنا چھوڑ دیں یعنی ہم سبھی کچھ مشینوں کے حوالے کردیں، سوچنے کا مرحلہ بھی موقوف رکھتے ہوئے مشینوں کے کیے ہوئے فیصلے قبول کرتے چلے جائیں تو اِسے غلامی ہی کی ایک شکل کہا جائے گا۔ ٹیکنالوجی کا سفر روکا نہیں جاسکتا۔ ہمیں اپنی فکر کرنی ہے، درست راستے پر رہنا ہے۔ ہم اپنی راہ پر رہیں گے تو ٹیکنالوجیز سے کماحقہٗ مستفید بھی ہوسکیں گے اور زندگی میں توازن بھی برقرار رکھ سکیں گے۔