اپنے بچے کو صحت مند جوان بنائیے

514

تمام والدین کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ تن درست و توانا کہلائے‘ مگر صرف آرزو کر لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ بچے کی نشوونما کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنا اور منصوبہ بندی کے ساتھ ان پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے تب کہیں جاکر انتہائی توجہ‘ محنت اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے نتیجے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پیدائش سے لے کر پانچ سال تک کی عمر بچے کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے۔ اسی پر اس کی صحت اور نشوونما کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر بیماری‘ لاپروائی یا کسی اور وجہ سے بچے کی صحت اس عمر میں متاثر ہو جائے تو اس کا خمیازہ اسے ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن میری رائے میں اگر آپ اپنے بچے کو تن درست و توانا بنانے کی کوشش اس کی پیدائش کے بعد شروع کریں گے تو یقینا آپ بہت دیر کر چکے ہوں گے۔ اس کوشش کا آغاز اس دن سے ہی ہو جانا چاہیے جب حمل قرار پانے کا مژدہ سنایا جائے‘ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جب شریک حیات کا انتخاب کیا جائے تو محض اس کی صورت‘ شکل‘ سلیقہ‘ تعلیم‘ خاندان اور ممکنہ جہیز ہی دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کی صحت کیسی ہے۔ سوچیے تو کمزور‘ ناتواں ماں باپ سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تندرست اولاد کو جنم دیں گے۔
کسی فرد کی صحت کا تعین صرف اس کے جسم اور قدوقامت ہی سے نہیں لگانا چاہیے‘ بلکہ شادی سے قبل باقاعدہ طبی معائنہ اور ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہئیں‘ کتنے جوڑے ایسے ہیں جن کے خون کے گروپ آپس میں متصادم ہو جاتے ہیں اور نتیجے میں ان کے ہاں اسقاط ہو جاتے ہیں یا بچے پیدا ہوتے ہیں تو یرقان کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ کتنے گھر اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں اور کتنے ہی جوڑے ایسے بنا دیے جاتے ہیں جو جسمانی اعتبار سے ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
شادی کے بعد عورت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسے اپنے جسم میں ایک اور جان کی پرورش کرنا ہے جس کی تمام غذائی ضروریات کا بوجھ بھی اسے ہی اٹھانا ہوگا‘ اس لیے اسے اپنی صحت پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ اس کا بچہ بھی تن درست حالت میں پیدا ہو اور بعد میں بھی وہ بچے کو دودھ پلانے کی ذمہ داری احسن طریقے پر ادا کر سکے۔کسی بھی حاملہ خاتون کی غذائی ضروریات ایک عام خاتون کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں اور دودھ پلانے والی خاتون کی غذائی ضروریات حاملہ خاتون سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
دودھ ایسی غذا ہے جس میں تمام ضروری غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ صرف حیاتین ج (وٹامن سی) جوش دینے سے ضائع ہو جاتا ہے اس کی کمی تو تازہ سبزیوں اور پھلوں سے پورا کیا جاسکتا ہے لہٰذا زمانۂ حمل اور زمانہ رضاعت (دودھ پلانے کی مدت) میں دودھ بہ کثرت پینا چاہیے۔ تاہم لحمیات کی ضرورت صرف دودھ سے پوری نہیں کی جاسکتی۔
برصغیر پاک و ہند میں عموماً حاملہ خواتین میں فولاد کی کمی پائی جاتی ہے۔ زچہ و بچہ کی کمزوری اور ہلاکت کا بڑا سبب یہی ہے۔ بیشتر اموات خون کی کمی کے باعث واقع ہوتی ہیں۔ اگر آپ بچے کو صحت مند دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو ماں بننے والی خاتون کو کھانے میں سبز پتوں والی سبزیاں‘ کلیجی‘ انڈے کی زردی‘ بالائی‘ گندم اور چھلکے والی دالیں فراہم کیجیے۔ کھجور‘ سیب‘ امرود اور انار میں بھی فولا دکی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ جنین کی نشوونما اور صحت مند بچوں کی پیدائش کے لیے حیاتین کا استعمال ضروری ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ حیاتین الف اگر کم مقدار میں استعمال کیا جائے تو جنین کو آنکھوں کے امراض لاحق ہوں گے اور پیدا ہونے والے بچے کی ہڈیاں کمزور ہوں گی اس لیے حاملہ خواتین کو دودھ‘ مکھن‘ انڈے‘ کلیجی‘ مچھلی‘ بند گوبھی‘ گاجر‘ پالک‘ ٹماٹر‘ کیلا وغیرہ استعمال کرتے رہنا چاہیے۔
حاملہ خواتین کو معالج کے مشورے سے ایسی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں جن سے حیاتین حاصل ہوسکیں۔بچے کی پیدائش کے بعد اس کی صحت اور جسم بڑھنے کا انحصار اس کی غذا اور صفائی کی معقول انتظام پر ہے۔ بچے کے لیے بہترین غذا ماں کا دودھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی دوسری خوراک پیش نہیں کی جاسکتی خاص طور پر بچے کی پیدائش کے فوراً بعد تین دن تک جو رطوبت دودھ کی شکل میں خارج ہوتی ہے وہ بچے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ رطوبت گولاس ٹرم کہلاتی ہے۔
اگر کسی وجہ سے ماں بچے کو دودھ نہ پلا سکتی ہو تو متبادل دودھ پلاتے وقت صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ بچے کی عمر کے اعتبار سے دودھ میں پانی ملانا چاہیے۔ بکری یا گائے کے دودھ میں دو حصے دودھ اور ایک حصہ پانی ملایا جاتا ہے جب کہ بھینس کے دودھ میں برابر مقدار میں ملانا چاہیے۔ اگر پائوڈر کا دودھ استعمال کروایا جائے تو ابتدا میں نصف چکنائی والا دودھ لیا جائے۔ اوپر کے دوھ کو ابالتے وقت چونکہ حیاتین جن (وٹامن سی) ضائع ہو جاتا ہے اس لیے بچے کو پھلوں یا سبزیوں کا رس الگ سے دینا چاہیے۔ دودھ میں چینی کی جگہ شہد استعمال کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بچے کو دودھ مناسب مقدار میں دیا جائے۔ ایک تن درست بچہ جس کی عمر سات روز اور روز تین کلو گرام ہو‘ چوبیس گھنٹے میں ڈیڑھ سو ملی لیٹر دودھ پی لیتا ہے۔
چار ماہ کے بعد بچے کو دودھ کے علاوہ نرم غذائیں مثلاً دلیہ‘ چاول‘ کیلا‘ ساگودانہ‘ کھچڑی دینے کا آغاز کرنا چاہیے۔ سب سے اچھی چیز دلیہ ہے جس میں لحمیات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے لیکن اس میں بھی مٹر‘ سویابین‘ دودھ‘ انڈے یا مرغی کا اضافہ کرنا چاہیے تاکہ بچے کو لحمیات زیادہ مقدا رمیں میسر آسکیں۔ دلیہ کو اچھی طرح گھوٹ کر کھلانا چاہے۔ بچوں کا معدہ چھوٹا ہوتا ہے اس لیے انہیں دن میں کم از کم چار بار خوراک فراہم کرنی چاہیے۔
اچھی غذا کی ضرورت عمر کے ہر حصے میں ہوتی ہے لیکن بچوں‘ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے تو اچھی غذا لازمی ہے۔ بعض مائیں اور گھر کے بزرگ بچے کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانے کے شوقین ہوتے ہیں اور جو غذا وہ خود کھا رہے ہوتے ہیں وہی بچے کو بھی کھلانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ چھوٹے بچے کا نظامِ ہاضمہ اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ ٹھوس غذائیں ہضم کر سکے‘ نہ اس کے دانت ہوتے ہیں کہ وہ غذا کو اچھی طرح چبا کر کھا سکے۔ بچے کو تیز مسالوں والی غذائوں سے بھی بچانا چاہیے۔ جب بچے کے دودھ کے دانت نکل آئیں تب ہی اسے ٹھوس غذائیں دینے کا آغاز کرنا چاہیے لیکن ان غذائوں کو بھی اچھی طرح گلانا اور گھوٹ لینا چاہیے۔
اس بات کا خیال رکھیے کہ بچے کو کسی قسم کا گرائپ واٹر‘ گھٹی یا ٹانک معالج کے مشورے کے بغیر یا بلا ضرورت شروع نہ کیجیے۔ اگر بچے کو بلا ضرورت یہ چیزیں دی جائیں گی تو اس کے اپنے اعضا کمزور ہو جائیں گے اور وہ تمام عمر‘ ان ادویہ یا ایسی دیگر دوائوں کا محتاج رہے گا۔ بچے کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے وقت پر ٹیکے لگانا بھی ضروری ہے۔
بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے‘ اس کی غذائی ضروریات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بچپن سے لے کر تیس‘ بتیس سال کی عمر تک جسم بڑھ رہا ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں (پروٹین) لحمیات کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچپن اور لڑکپن میں بھاگ دوڑ اور جسمانی حرکات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے جسم کو حراروں (کیلوریز) کی بھی ضرورت ہوتی ہے ورنہ جسم میں قوت پیدا کرنے کے لیے لحمیات خرچ ہونے لگتے ہیں اور جسم کا بڑھنا متاثر ہو جاتا ہے۔ جسم کے بڑھنے میں غذا بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غذا موزوں نہ ہو‘ بہت کم لی جائے یا بہت زیادہ لے لی جائے‘ ہر صورت میں جسم کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
غذا کے ساتھ ساتھ کئی دیگر باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ صاف ستھرے ماحول میں رہائش اختیار کیا جائے‘ ایسے مکانات جن میں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو‘ امراض کا گھر بن جاتے ہیں۔ غذا کے جزو بدن بننے میں تازہ ہوا اہم کردار ادا کرتی ہے اور دھوپ ہڈیوں پر اثر انداز ہو کر کیلشیم اور حیاتین ’د‘ کے جذب ہونے میں مدد دیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دھوپ کی تیزی جراثیم کو ہلاک کر دیتی ہے‘ جسم کی مناسب نشوونما کے لیے روزانہ صاف پانی کافی مقدار میں پینا چاہیے۔
جسم کی بڑھوتری میں کھیل کود اور ورزش کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ بچہ جب ماں کی گود میں ہوتا ہے تو وہ رو کر یا تیزی سے ہاتھ پائوں چلا کر ورزش کر لیتا ہے‘ اس کے بعد بچہ چلنے اور بھاگنے لگتا ہے یا کھیلنے کودنے لگتا ہے تو اس کی ورزش کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ پھر ایک عمر میں باقاعدہ ورزش شروع کر دینی چاہیے۔
ورزش سے جسم کو تازہ ہوا خاصی مقدار میں مل جاتی ہے‘ دورانِ خون تیز ہونے سے خون اس حصوں میں پہنچ جاتا ہے جہاں عام حالت میں نہیں پہنچتا۔ عضلات‘ اعصاب‘ رگ‘ پٹھوں اور دماغ میں طاقت آجاتی ہے‘ نظام ہضم درست رہتا ہے اور بے کار فاضل مادی پسینے کی صورت میں خارج ہو جاتے ہیں۔ فاضل غذا جسم میں چربی کی شکل میں جمع ہو کر مختلف امراض پیدا کرتی ہے اور جسم کو بدوضع بنا دیتی ہے‘ ورزش سے یہ فاضل غذا خرچ ہو جاتی ہے۔
بچپن سے لے کر پندرہ سولہ سا کی عمر تک ایسے کھیل کھیلنے چاہئیں جن دوڑنا بھاگنا پڑے اور عضلات (مسلز) کو حرکت دی جائے۔ اس عمر میں پیراکی‘ سائیکل سواری‘ رسی کودنا‘ یا بھاگ دوڑ والے کھیل مناسب رہتے ہیں۔ سولہ سال کی عمر کے بعد وزن اٹھانے (ویٹ لفٹنگ)‘ مگدر گھمانے‘ اسپرنگ کھینچنے یا اسی نوعیت کی دیگر ورزشیں کی جاسکتی ہیں‘ عمر ڈھلنے پر پھر ہلکی ورزش خصوصاً چہل قدمی کرنی چاہیے۔
جسم کی بہترین نشوونما کے لیے نیند کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چند گھنٹے سونے سے نہ صرف جسمانی تکان اتر جاتی ہے بلکہ نیند کی حالت میں جسم بڑھتا ہے اور خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ سوتے ہیں اور تیزی سے بڑھتے ہیں۔ جسم پوری طرح بڑھ جانے کے بعد نیند کے دورانیے میں رفتہ رفتہ کمی ہونی لگتی ہے۔
ایک اور بات کا خیال رکھنا ضروری ہے بعض خاندانوں میں کچھ امراض کی نوعیت موروثی یا کسبی ہو جاتی ہے یعنی اگر باپ دادا کو کوئی مرض تھا تو بیٹے اور پوتے کو بھی وہی مرض ہو جاتا ہے۔ مثلاً ذیابیطس‘ فشارِ خون (بلڈ پریشر)‘ مٹاپا‘ دبلا پن‘ جوڑوںکی تکالیف‘ فالج‘ دماغی امراض‘ قد چھوٹا ہونا یا بالوں کا کم اور کمزور ہونا۔ ماں باپ سے جو امراض ملتے ہیں ان پر پوری طرح قابو پانا ذرا مشکل ہوتا ہے تاہم اگر ابتدا ہی سے بچے کی صحت پر توجہ دی جائے تو بچے کو ان امراض سے بڑی حد تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
اگر کسی خاندان میں دل کے امراض یا فشار خون عام طور پر پایا جاتا ہے تو بچے کو شروع ہی سے ایسی غذائیں صرف ضرورت کے مطابق دیں جو کہ کولسٹرول پیدا کرتی ہیں یعنی گھی اور مکھن وغیرہ۔ نمک کا استعمال بھی احتیاط سے کروانا چاہیے۔ جن خاندانوں میں ذیابیطس کئی افراد کو ہو چکا ہو‘ وہاں بچوں کو شکر اور نشاستہ والی غذائیں بہت زیادہ نہ دی جائیں۔ جوڑوں کے امراض کی شکایت اگر کسی خاندان میں کئی افراد کو رہی ہو تو بچوں کو شروع ہی سے یورک ایسڈ پیدا کرنی والی غذائوں سے ممکنہ حد تک بچایا جائے یعنی بڑا گوشت اور چکنائی وغیرہ۔
کسی خاندان میں اگر بیشتر افراد کا قد چھوٹا ہو تو بچے کو غذا میں دودھ‘ رس دار پھل دیں تاکہ اسے کیلشیم حاصل ہو سکے اور بادام‘ اخروٹ اور لحمیات رکھنے والی غذائیں بھی دیں تاکہ بچے کے جسم کو فاسفورس میسر آسکے۔ اس کے ساتھ حیاتین ’’الف‘‘ اور ’’د‘‘ بھی دیے جائیں اور ایسی ورزشیں کروائی جائیں جو قد بڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں مثلاً پیراکی‘ لٹک کر جھولا جھولنا‘ دوڑنا‘ سائیکل سواری وغیرہ۔
بچے کو تنومند جوان بنانے کی یہ ساری کوششیں ادھوری رہ جائیں گی اگر ہم لڑکپن سے جوانی تک کی لغزشوں کو نظر انداز کر دیں۔ عمر کا یہی وہ پُر خطر حصہ ہے جب اچھی عادات اپنا کر بچہ صحت مند جوان بن سکتا ہے اور خراب عادات کا شکار ہو کر نحیف و لاغر جوان کے طور پر ابھرتا ہے۔
بچے کو سگریٹ‘ تمباکو‘ پان یا کسی نشہ آور شے سے بالکل دور رہنا چاہیے۔والدین اور بزرگوں کو اس ضمن میں بچے کی نگرانی کرنی چاہیے اور اس کے دوستوں‘ اس کی مصروفیات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بچے کے مطالعہ یا مشاہدے میں جو چیزیں (کتب‘ ٹیلی ویژن کے پروگرام‘ وڈیو فلمیں) آ رہی ہیں ان پر بھی نظر رکھیے‘ جو باتیں اخلاق کو بگاڑتی ہیں وہ صحت کو بھی بگاڑ دیتی ہیں۔ یاد رکھیے پوری طرح جوان ہونے اور جسم کی نشوونما مکمل ہونے سے پہلے کسی بھی نوعیت کے جنسی افعال میں ملوث ہو جانا صحت پر سخت منفی اثرات ڈالتا ہے نیز ذہنی اور نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے۔
اگر آپ اپنے بچے کو صحت مند اور تن درست و توانا جوان کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچے کی خوراک پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی عادات و اخلاق پر بھی توجہ دیجیے اور ربِ کریم سے ہر دَم دُعا گو رہیے کہ وہ آپ کے بچے کو سیرت اور صحت دونوں اعتبار سے بہترین انسان بنائے۔

حصہ