ایرج اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے سین کے قریب کھڑا تھا۔ عاصم کی نگاہیں تھوڑی دیر کے لیے اُس کے مغرور چہرے پرمرکوز ہو کر رہ گئیں۔
سین نے قدرے توقف کے بعد آگے بڑھ کر ایک سپاہی کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ لے لی اور اُس پر سوار ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد پڑائو میں نقاروں کی صدائیں بلند ہوئیں اور دس ہزار سواروں کا لشکر چار قطاروں میں کسریٰ کی قیام گاہ کے آگے سے گزرنے لگا۔ شہنشاہ ایران فوج کے سرداروں اور مذہبی پیشوائوں کے ساتھ ایک ٹیلے پرکشادہ سائبان کے نیچے کھڑا تھا۔ اُس کے دائیں ہاتھ سونے کے ایک چوڑے آتش دان میں مقدس آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ مجوسیوں کا بڑا کاہن بلند آواز میں دعا مانگ رہا تھا۔ ’’اہرموزدہ خسرو پرویز کو جو شہنشاہوں کا شہنشاہ اور دیوتائوں کا دیوتا ہے فتح دے۔ اہر موزدہ ہمارے دشمنوں کو تباہ کر۔ ہمارے لشکر کے لیے دمشق اور یروشلم کی طرح قسطنطنیہ کے دروازے بھی کھول دے‘‘۔
اور خسرو پرویز کبھی سین کی قیادت میں کوچ کرنے والے سواروں اور کبھی پڑائو میں لشکر کے اُن خیموں کی سمت دیکھتا جو چاروں طرف حدنگاہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس کا مغرور چہرہ زبان حال سے یہ کہہ رہا تھا کر آج زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے میرے سوا کوئی نہیں۔ آج انبائے آدم کی تقدیر میرے ہاتھ میں ہے۔
عاصم کسریٰ کی قیام گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک اور ٹیلے کے دامن میں کھڑا تھا۔ جب سین کا لشکر گردوغبار کے بادلوں میں روپوش ہوگیا اور نقاروں کی صدائیں فضا میں گم ہو کر رہ گئیں تو وہ نڈھال ساہو کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ سین کے ساتھ رفاقت کا زمانہ اُسے ایک خواب معلوم ہوتا تھا۔ ایک ایسا خواب جس کی کوئی تعبیر نہ تھی۔ وہ دیر تک بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔
پیش گوئی
’’ا۔ل۔م۔ رومی قریب تر زمین میں مغلوب ہوگئے ہیں۔ اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد وہ چند سال کے اندر پھر غالب آجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اُس دن مسلمان اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے۔ وہ غالب اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے اور اللہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘۔
(الروم)
شام میں ایرانیوں کی فتوحات کے ساتھ آگ اور صلیب کا معرکہ ایک فیصلہ کن دور میں داخل ہوچکا تھا۔ کجنلاہِ ایران اپنی تلوار کی نوک سے انسانی تاریخ کا ایک نیا ورق اُلٹ چکا تھا۔ مورخوں کی نگاہ میں بازنطینی سلطنت کی تباہی کے ظاہری اسباب مکمل ہوچکے تھے۔ لیکن کارکنانِ قضا و قدر کی نگاہیں روم اور ایران کی رزمگاہوں سے سیکڑوں کوس دور اُس بے آب و گیاہ وادی کی طرف لگی ہوئی تھیں، جہاں کفر اور اسلام کی جنگ لڑی جارہی تھی۔
مکہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار، جن کے پاس ظاہری اسباب نہ ہونے کے برابر تھے، شرک، جہالت اور گمراہی کی اندھی اور بہری قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوچکے تھے۔ یہ نوروظلمت کا معرکہ تھا اور اس کے نتائج کے ساتھ اُن بے بس انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا تھا جو صدیوں سے توہمات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور جن کے نزدیک زمانے کی ہر کروٹ بے معنی تھی۔
دین اسلام اُس ظلمت کدے کا چراغ تھا، جہاں انسانیت کا قافلہ تاریکی میں بھٹکنے کا عادی ہوچکا تھا۔ عربوں کے نزدیک اپنے مشرکانہ توہمات اور اپنی جاہلی عصبیتوں کے گھروندوں سے باہر زندگی کی کوئی نئی صورت قابل قبول نہ تھی۔ اور خدا کی توحید اور انسانی مساوات کا نعرہ جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بلند کیا تھا ان کے مشرکانہ عقائد اور ان کی جاہلی عصبیتوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ چناں چہ مشرکین مکہ جنہوں نے آج تک کسی اجتماعی نصب العین کے لیے اتحاد کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اسلام کے خلاف پورے عرب کے اتحاد کے متمنی تھے۔ وہ حق پرست جو توحید کے چراغ کی روشنی میں آنکھیں کھولنے کے بعد انہیں نئے راستے اور نئی منزلیں دکھارہے تھے اُن کے نزدیک بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ خطرناک تھے۔ مشرکین مکہ کو اپنی پرانی روش اتنی عزیز تھی کہ توحید و رسالت پر ایمان لانے والے مٹھی بھر انسانوں کی جماعت میں ایک کمزور عورت یا ایک بے بس غلام کا اضافہ بھی انہیں ناقابل برداشت محسوس ہوتا تھا۔ عجم میں قیصر کے جرنیل جس قدر سلطنت روما پرایرانیوں کی یلغار سے پریشان تھے۔ عرب کے اندر اُس سے کہیں زیادہ قبیلہ قریش کے اکابر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے عزم و استقلال سے ہراساں تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ روم پر ایران کی فتوحات کسریٰ پرویز کی عسکری قوت اور جنگی وسائل کی برتری کا نتیجہ تھیں اور قریش اپنی تعداد اور قوت کی برتری کے باوجود اپنے مستقبل کے متعلق مطمئن نہ تھے۔ اُن کا مقابلہ ایک ایسے بے سروسامان لشکر سے تھا جس کے امیر کے وجود میں وہ انسانیت کی تمام عظمتیں دیکھ چکے تھے۔ وہ اُس برگزیدہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کررہے تھے جس کی کوئی بات جھوٹی ثابت نہ ہوئی تھی۔ اہل مکہ کے لیے یہ بات معمولی نہ تھی کہ اُن کی طاقت اور دبدبہ، اُن کی شرانگیزی اور ایذا رسانی کے باوجود محمدؐ عربی کے ایک ادنیٰ غلام کا ایمان بھی متزلزم نہ ہوسکا۔
وہ اسلام کی تعلیمات کو جھٹلانے کے باوجود نبی عربیؐ کی غیر معمولی شخصیت کے معترف تھے انہیں اس بات کا ملال تھا کہ عبدالمطلب کا پوتا جس کی ہمہ گیر شخصیت قریش کی سب سے قیمتی پونجی ہوسکتی تھی اُن کے صدیوں پرانے معتقدات کے خلاف اعلان جنگ کرچکا ہے۔ مکہ میں خدا کا پہلا گھر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے تعمیر ہوا تھا، جہالت اور گمراہی کے ادوار میں ایک بت کدے کی صورت اختیار کرچکا تھا تاہم کبعتہ اللہ سے عربوں کی عقیدت کا رشتہ اب بھی قائم تھا وہ ہر سال حج کے دنوں میں مکہ آتے، کعبے کا طواف کرتے اپنے اپنے خاندان یا قبیلے کے بتوں کے سامنے نذریں پیش کرتے انہیں پوجتے اور اُن سے اپنے دشمنوں کے خلاف اعانت کے طلبگار ہوتے۔ اگر ایک بُت اُن کی خواہشوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتا تو وہ کسی دوسرے بت سے عبودیت کے رشتے استوار کرلیتے تھے۔ اُن کی بے راہ روی اور بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرنا بھی معیوب نہ سجھتے تھے۔
قریش کعبے کے متولّی، نگراں اور محافظ تھے اور اس لحاظ سے ایران کے مجوسی کاہنوں کی طرح انہیں بھی عرب کے دوسرے قبائل پر ایک طرح کی مذہبی، سیاسی اور تہذیبی برتری حاصل تھی۔ حج اُن کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تھا اور خانہ کعبہ کے اندر جمع کیے جانے والے بتوں کے تقدس کا رعب قائم رکھنا وہ اپنا فرض خیال کرتے تھے لیکن پیغمبر اسلامؐ نے خدا کی توحید کا پرچم بلند کرکے قریش کو چونکا دیا تھا۔ چناں چہ بت پرستی کی حمایت اور اسلام کی مخالفت اُن کے نزدیک اپنی مذہبی رسوم کے تحفظ کے علاوہ ایک اہم اقتصادی مسئلہ بھی تھا۔ وہ اُن بتوں کے خلاف کوئی آواز سننے کو تیار نہ تھے جن کی بدولت انہیں ہر سال اپنے ہمسایہ قبائل سے ایک طرح کا خراج وصول ہوتا تھا۔ پھر مکہ سے باہر بھی عرب قبائل کے چھوٹے اور بڑے حاجت روائوں کے بت اور ان کی پوجا کے آداب و رسوم سکھانے والے کاہن موجود تھے اور قریش مکہ کی طرح ان کاہنوں کو بھی یہ گوارا نہ تھا کہ نئے دین کی روشنی مکہ کی تاریک فضائوں میں اُجالا کرنے کے بعد اُن کی مسندوں تک پہنچ جائے۔ چناں چہ توحید کا نعرہ صرف قریش مکہ کی بے راہ روی کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے عرب کی جہالت اور گمراہی کے خلاف ایک اعلان کے مترادف تھا۔ اُن کے کاہن، اُن کے سردار اور اُن کے شاعر اسلام کو ایک اجتماعی خطرہ سمجھ کر متحد اور منظم ہورہے تھے۔ توحید کا چراغ بجھانے کے لیے جو آندھی چند سال قبل مکہ سے اُٹھی تھی اُس کی بھیانک تاریکیاں بتدریج پورے عرب کو اپنے آغوش میں لے رہی تھیں۔
O
جب شام کی رزمگاہوں میں رومیوں کی سطوت کے پرچم سرنگوں ہورہے تھے۔ اہل مکہ کے نزدیک دین اسلام کی مخالفت، وقت کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اپنی مشرکانہ رسوم کے باعث وہ عیسائیوں کی بہ نسبت ایران کے مجوسیوں سے زیادہ قریب تھے۔ اس لیے روم و ایران کی جنگ میں اُن کی ساری ہمدردیاں ایرانیوں کے ساتھ تھیں۔ اس کے برعکس عیسائیوں کا مذہب اپنی حقیقی صورت میں دین اسلام سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا، اور اس کے باوجود کہ انہوں نے خدا کی توحید کے متعلق دین مسیحؑ کے بنیادی تصور کو ایک معّما بنادیا تھا۔ وحی، رسالت اور آخرت کے متعلق اُن کے عقائد عرب کے مشرکوں یا ایران کے مجوسیوں کے مقابلے میں اسلام سے زیادہ قریب تھے۔ اِس لیے ایرانیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کی تباہی و بربادی کی داستانیں سن کر مسلمانوں کا آزردہ اور پریشان ہونا ایک قدرتی بات تھی۔
جب شام سے کسریٰ کی فتوحات کی خبریں آتیں تو مشرکین مکہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے وہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے اِس قسم کی دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ جس طرح مجوسیوں نے عیسائیوں پر شام کی زمین تنگ کردی ہے، اِسی طرح ہم بھی تمہارے لیے عرب میں سانس لینا ناممکن بنادیں گے۔
ایرانیوں کی فتوحات پر مشرکین مکہ کے خوش ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عراقِ عرب اور یمن کے بعض قبیلے کسریٰ کے حلیف بن کر اس جنگ میں شریک ہوچکے تھے اور اُن کے وحشیانہ کارناموں کی داستانیں عربوں کے نسلی غرور اور جاہلی عصبیتوں کے لیے تسکین کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ ان حالات میں احکم الحاکمین نے اپنے برگزیدہ رسولؐ پر قرآن کی وہ آیات نازل کیں جن میں رومیوں کی فتح کی بشارت دی گئی تھی۔
اگر یہ پیش گوئی صرف روم و ایران سے تعلق رکھتی تو شاید مشرکین مکہ اِس قدر دلچسپی کا اظہار نہ کرتے لیکن اس میں مسلمانوں کو بھی فتح کا مژدہ سنایا گیا تھا اور یہ بات اُن کے لیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھی۔ ناقابل یقین اس لیے کہ وہ اپنی عقل، سمجھ اور اپنے اندازوں کے مطابق دین اسلام کے لیے کامیابی کے تمام راستے بند کرچکے تھے اور ناقابل برداشت اس لیے کہ مقہور و مجبور مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت اپنی مظلومیت، اپنی مجبوری اور بے سروسامانی کے باوجود اِس پیش گوئی کی صداقت پر ایمان لے آئی تھی۔ اِس حقیقت کے باوجود کہ قریش کے بڑھتے ہوئے مظالم سے تنگ آکر اُن کی ایک جماعت حبشہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکی تھی۔
مسلمانوں کے پاس مشرکین مکہ کے اِس سوال کا کوئی جواب نہ تھا کہ تمہارے پاس کامیابی اور فتح کے وسائل کون سے ہیں۔ تاہم اُن میں ایک بھی ایسا نہ تھا جسے اِس پیش گوئی کو صداقت پر یقین نہ ہو۔ وہ اپنے ہادیؐ برحق کی نگاہوں سے اپنی منزل دیکھ چکے تھے اور انہیں اِس بات کی کوئی پروا نہ تھی کہ اُن کے راستے میں آلام و مصائب کے کتنے پہاڑ کھڑے ہیں۔
مشرکین مکہ اُن کی ’’سادگی‘‘ اور ’’بے خبری‘‘ کا مذاق اُڑاتے تھے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان بلاکشان محبت کی نگاہیں ظاہری اسباب کی سرحدوں سے آگے دیکھ رہی ہیں اور جس زمین کے کانٹوں سے اُن کے پائوں چھلنی ہوئے ہیں اُس پر رحمت کے پھولوں کی بارش ہونے والی ہے۔ آج جس دین کی فتح کا تصور ایک مذاق معلوم ہوتا ہے، کل اُسی کی حمایت میں وہ جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ جس چراغ کو آج وہ بجھانا چاہتے ہیں اس کی روشنی سے عرب و عجم کے ظلمت کدے منور ہونے والے ہیں اور جس نازک پودے کو آج وہ جڑ سے کاٹنا چاہتے ہیں کل اُس کی آبیاری کے لیے اپنا خون پیش کریں گے۔ لیکن وہ کل ابھی دور تھی۔ اس وقت مشرکین مکہ شام کی مخالفت سے آگے کوئی بات سوچنے کو تیار نہ تھے۔
ایک دن امیہ بن خلف، عقبہ بن ابومعیط، عتبہ بن ربیعہ، عاص بن وائل، ابوسفیان اور مکہ کے چند اور رئوسا قریش کے سب سے بڑے سردار ولید بن مغیرہ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ مکہ کے عوام کی طرح ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیم تھی جو اُن کے مشرکانہ عقائد کی نفی کرتی تھی صرف اتنا فرق تھا کہ بے فکر سے عوام ہادی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن پر ایمان لانے والوں کے خلاف اپنے شاعروں اور مسخروں کے طنزواستہزأ پر بے اختیار قہقہے لگایا کرتے تھے۔ اور یہ لوگ جن کے کندھوں پر قریش کی سیادت کا بوجھ تھا نسبتاً سنجیدہ کے ساتھ اپنے حال کے واقعات اور مستقبل کے مسائل پر غور کررہے تھے۔