وفادار ہاتھی

188

یہ کہانی پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ سچی بھی ہے۔ یہ بات مغلوں کے دور کی ہے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ایک ہاتھی تھا۔ نام تھا اس کا “مولا بخش” یہ ہاتھی اپنے مالک کا بے حد وفادار تھا۔ ہاتھی خاصہ بوڑھا تھا مگر تھا بہت صحت مند۔ بہادر شاہ ظفر سے پہلے بھی کئی بادشاہوں کو سواری کروا چکا تھا۔ فطرتاً شریر اور شوخ تھا۔ ہر وقت مست رہتا تھا۔ اپنے مہاوت کے علاوہ کسی کو پاس نہ آنے دیتا تھا۔
یہ ہاتھی کھیلنے کا بڑا شیدائی تھا۔ قلعے کے قریب بچے اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے تھے اور مولا بخش ان کے ساتھ ساتھ کھیلتا رہتا۔ پہلے بچے اسے کہتے کہ ایک ٹانگ اٹھاؤ وہ اٹھا لیتا۔ بچے کہتے ایک گھڑی (یعنی ایک منٹ) پوری ہونے سے پہلے نہ رکھنا۔ وہ ایک گھڑی یعنی ایک منٹ تک ایسے ہی رہتا۔ پھر بچے کہتے گھڑی پوری ہوئی تو وہ ٹانگ نیچے رکھ دیا۔ پھر وہ مخصوص آواز نکالتا جس کا مطلب ہوتا کہ”بچو! اب تمہاری باری آئی۔۔”چنانچہ بچے اپنی ٹانگ اٹھا لیتے۔ گھڑی پوری ہونے سے پہلے کوئی بچہ ٹانگ نیچے کرنے لگتا تو ہاتھی زور زور سے سر ہلاتا۔ یعنی ابھی گھڑی پوری نہیں ہوئی۔ جب بچوں کے ساتھ بہت خوش رہتا تھا۔ انہیں اپنی سونڈ سے گنے اٹھا اٹھا کر دیتا۔ جس دن بچے نہ آتے اس دن شور مچاتا مجبوراً مہاوت بچوں کو بلا کر لاتا ویسے تو یہ بہت شوخ ہاتھی تھا لیکن جب بادشاہ کی سواری کا موقع آتا تو بہت مؤدب اور سنجیدہ ہو جاتا۔ جب تک بادشاہ صحیح طرح بیٹھ نہ جائے کھڑا نہ ہوتا۔
1857ء میں جب انگریز قلعہ پر قابض ہوئے اور بہادر شاہ ظفر نے ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی تو مولابخش بہت اداس ہو گیا۔ بادشاہ سے بچھڑنے کا اسے اتنا غم ہوا تھا کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ قلعے کے نئے انگریز انچارج سانڈرس کو یہ خبر ملی تو اس نے لڈو اور کچوریوں سے بھرے ٹوکرے منگوائے اور ہاتھی کے سامنے رکھے۔ ہاتھ نے اپنی سونڈ سے وہ تمام ٹوکرے اٹھا کر پھینک دئیے۔ سانڈرس کو غصہ آ گیا کہ یہاں تو ہاتھی بھی باغی ہے۔ اس نے ہاتھی کی نیلامی کا حکم دیا۔ ہاتھی کو بازار میں کھڑا کر دیا گیا مگر کوئی بھی بولی نہیں لگا رہا تھا۔ پھر ایک پنساری نے اڑھائی سو روپے کی بولی لگائی اور ہاتھی اس کے ہاتھ نیلام کرنے کا فیصلہ ہوا۔
مہاوت نے یہ دیکھ کر کہا ‘مولابخش! ہم دونوں نے بادشاہ کی بہت غلامی کر لی اب تو تجھے ہلدی بیچنے والے کے دروازے پر جانا پڑے گا۔”
یہ سننا تھا کہ ہاتھی دھم سے زمین پر گرا اور مر گیا۔ ہاتھی کی وفاداری کا یہ قصہ بہت انوکھا ہے۔ مولا بخش نے اپنے مالک کے علاوہ کسی کے پاس رہنا پسند نہ کیا اور اس غم نے اس کی جان لے لی۔

حصہ