“لاکھ لاکھ شکر تیرا، اے میرے پالن ہار۔” یہ ورد کرتے ہوئے میں نے ندی کا رخ کیا۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر پیاس بجھائی۔ بدن میں کچھ تازگی آئی۔ پھر اپنے پیر دھوئے اور کچھ دیر سستانے کے بعد اس درخت کے پھل کھا کر میں وہیں سو گیا۔ میرا کئی روز تک یہی معمول رہا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ بدن میں طاقت لوٹ آئی ہے اور پاؤں ٹھیک ہو گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند محسوس کرنے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بے فکر زندگی گزارنے کو یہ بہترین جگہ تھی۔ لیکن پاؤں کے چکّر کا کیا علاج۔
اگرچہ یہ سمندر کا ساحل تھا اور یہ امید تھی کہ شاید کبھی کوئی جہاز یہاں آ جائے، لیکن میں اٹھا اور الله کا نام لے کر آگے بڑھا۔ خیال تھا کہ اگر یہاں ندی اور درخت ہیں تو آگے بھی ہوں گے۔ دن بھر چلتا رہا مگر ہو کا عالم تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ ندی نہ درخت۔ پھر سے مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ پیچھے مڑوں کہ آگے بڑھوں، اسی کشمکش میں چلتا رہا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ کہاں بغداد جہاں آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا تھا اور کہاں یہ سنسان بیابان جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔
ویرانے میں ایک گھوڑا
میں سہما سہما چپکے چپکے چلا جا رہا تھا۔ سوچوں میں گم، نظریں اپنے پیروں پر گری ہوئی کہ اچانک ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو ایک گھوڑا نظر آیا۔ یا الہی! اس ویرانے میں گھوڑا! گھوڑا بھی اس قدر خوبصورت! کیا سچ مچ کا گھوڑا ہے یا چھلاوا۔ اگر سچ مچ کا گھوڑا ہے تو یہاں کیسے آیا، کیا کھاتا ہے، کہاں رہتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے گرج دار آواز ای، “خبر دار! گھوڑے کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ تیر تمہارے سینے کے پار نکل جائے گا۔”
ایک آدمی بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ میں نے کہا، “بھی، معاف رکھنا۔ میں تو ایک مسافر ہوں۔ گھوڑے کو فقط ایک نظر دیکھا ہے۔ کیا نام ہے جناب والا کا؟”
اس نے للکار کر کہا، “کون ہو تم اور یہاں کیوں آے ہو؟
میں نے کہا، “الله تعالیٰ کے رحم و کرم سے میں سمندر میں ڈوبنے سے بچ کر ساحل پر آ گیا۔ پھر میں نے اپنی آپ بیٹی اس کو سنائی تو اسے اعتبار آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک غار میں لے گیا، مجھے پانی پلایا اور پھر کھانے کے دسترخوان پر بٹھایا۔
اس نے کہا، “واقعی الله نے آپ پر بڑا کرم کیا ہے۔”
ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ ہر سال بادشاہ سلامت ایک ہفتے کے لیے اس جزیرے پر اپنے بہترین گھوڑوں کو بھیجتے ہیں۔ اس جگہ کی ہوا گھوڑوں کے لیے بہت عمدہ ہے۔ جزیرہ بالکل سنسان ہے، لیکن سرکار کے ملازم ضروری سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر یہاں رہ کر گھوڑوں کو واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے ملازم بھی اپنے اپنے گھوڑے لے آئے۔ انہوں نے بھی میری سرگزشت سنی۔ سب نے مجھ سے ہمدردی کی اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی۔
دوسرے دن ہمارا قافلہ وہاں سے چلا۔ سواری کے لیے انہوں نے مجھے بھی ایک خوبصورت گھوڑا دیا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ بڑا مہربان اور قدردان ہے۔ وہ ریا کو اپنی مہربانیوں سے خوش رکھتا ہے اور رعایا اس پر جان چھڑکتی ہے۔ نزدیک اور دور سے لوگ ہمارے شہر میں آتے ہیں۔
جب ہم شہر پہنچے تو ملازموں نے بادشاہ تک خبر پہنچائی۔ میری طلبی ہوئی۔ انہوں نے توجہ سے میری دکھ بھری داستان سنی۔ ان کے حکم سے مجھے نیا لباس دیا گیا۔ میری امید سے بڑھ کر میری خاطرداری کی۔ چند دنوں میں بادشاہ کا مجھ ناچیز پر اعتماد قائم ہو گیا۔ میرے سپرد یہ ذمہ داری تھی کہ میں روزانہ بندرگاہ اور بازار جا کر تاجروں اور جہاز کے کپتانوں سے مل کر حال احوال معلوم کر کے بادشاہ کو باخبر رکھا کروں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز تھا۔ میں روزانہ پہلے بندرگاہ جاتا۔ جہاز کے کپتانوں سے ملتا، ملاحوں سے باتیں کرتا اور پھر بازاروں میں تاجروں کا حال احوال معلوم کرتا۔ شام کو دربار میں بادشاہ کے سامنے اپنی کار گزاری پیش کرتا۔
ایک دن بندرگاہ پر ایک بڑا جہاز لنگر انداز ہوا۔ حسب معمول میں وہاں گیا۔ جہاز پر سوار تاجر مال اسباب بیچنے کے لیے باہر لائے۔ جہاز کے کپتان سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، “کیا تمام مال فروخت کے لیے نکال لیا گیا ہے یا کچھ باقی ہے؟”
(جاری ہے)