برجستہ گو‘ سادہ اور دل میں گھر کر جانے والے شاعر داغ نے ایک عرصہ پہلے اردو زبان کے بارے میں کس قدر درست کہہ رکھا ہے کہ اس کے بھید بھائو آسانی سے گرفت میں آنے والے نہیں:
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
ایک طویل سفر کے بعد اب یہ ایک بڑی اور بین الاقوامی زبان چکی ہے۔ اس کی اپنی رمزیں اور ادائیں ہیں اور اپنے منفرد خدوخال۔ اس میں نرم و لطیف لہجوں کے دوش بہ دوش کھردری اور ہکار آوازوںکا بھی ایک نظام ہے جس کے باعث اردو والے ان آوازوں کے استعمال پر بھی قادر ہیں جہاں کئی عالمی زبانوں والے اپنے عجز کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے حروف تہجی کی منفرد تعداد کے اعتبار سے‘ جو 54 بنتی ہے‘ بہت کم زبانیں اس کی حریف ہیں۔ ذرا شان الحق حقی صاحب کی زبانی سنیے کہ اردو زبان کن کن انوکھی آوازوں کی امین ہے اور ان کے بیان پر قادر‘ قہقہے‘ چہچہے‘ شرّاتے‘ فراٹے‘ ہانک پکار‘ چیخم دھاڑ‘ کھٹ کھٹ‘ کُھس پُس‘ پھک پھک‘ چھک چھک‘ چیں پیں‘ کھوںکھو‘ کھی کھی‘ ہاہا‘ ہُو ہُو‘ غائیں غائیں‘ جھائیں جھائیں‘ تارا را را رم‘ اڑا ڑا ڑا دھم۔ اس آخر ’’دھم‘‘ نے ہمیں ایک شریر شعر یاد دلا نوازش حسین کا:
گھر میں ترے کودا کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام ہوا ہم سے وہ رستم سے نہ ہو گا
اردو زبان نے اگرچہ اپنے ہمہ گیر لسانی ارتقا کی کئی منزلیں طے کرلی ہیں مگر اس کا آگے بڑھنے کا سفر جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندہ انسانوں کی طرح زندہ زبانیں بھی اپنے سینتنے سنوارنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ اردو بھی اس حقیقت کا گہرا شعور رکھتی ہے۔ مثلاً وہ ایک عرصے سے املا کی معیار بندی کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ اس ضمن میں معیاری اور مضحکہ خیز دونوں طرح کی تجاویز نے اس مسئلے کو کس قدر گمبھیر بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ اتنا گمبھیر تھا نہیں‘ املا کی گتھیوں کو حل کرنے کے لیے احسن مارہروی نے 1905ء میں کچھ نہایت مفید تجاویز دی تھیں جن میں سے بعض قبول کر لی گئیں‘ بعد کے برسوں میں اس ضمن میں کئی انفرادی اور اجتماعی تجاویز سامنے آئیں مگر ان سے وحدت اور یگانگت کے بجائے انتشار کو زیادہ فروغ ملا۔
دراصل زبان اور اس کے طریق املا کا مسئلہ ہے ہی بڑا حساس۔ ہمارے بزرگ زبان کے معاملے میں بڑے زود حس تھے اور یہ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ لطیفے کے طور پر مشہور ہے کہ ایک ہونے والے خسر نے اپنے متوقع داماد کو محض اس لیے اپنی فرزندی میں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ صاحبزادہ اضافت کھاتا ہے اور ہاں قارئین کو کسی ظریف کا وہ شعر بھی تو یاد ہوگا جس میں حسرِتِ دیار نے ایک عجب گُل کھلایا ہے:
ہائے رے حسرت دیار کہ اس ہاے کو بھی
لکھتے ہیں ہاے دو چشمی سے کتابت والے
اس کے برعکس یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ ’’دلھن‘‘ کو کہنی دار ’’ہ‘‘ کے ساتھ نہ صرف ’’دُلہن‘‘ لکھتے ہیں بلکہ اسے پڑتے بھی ہیں ’’دُلہَن‘‘ (دُل+ہَن) جو ظاہر ہے درست نہیں ہے۔ ہمارے کراچی والے ’’اردو لغت‘‘ نے اس عزیز دلہا لفظ کا املا دونوں طرح کیا ہے مگر یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔
اردو کے نامور محقق اور زبان دان رشید حسن خان نے ’’اردو املا‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی جو سرحد کے دونوں طرف کئی دفعہ شائع ہوچکی ہے۔ مرحوم نے گو اس کتاب کے لکھنے میں بڑی جگر کاوی سے کام لیا مگر فارسی طرز املا سے ضرورت سے زیادہ تاثر پذیری اور عربی طرز املا سے ضرورت سے زیادہ بے نیازی نے کتاب کو توازن سے محروم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم ’’بوالہوس‘‘ کو فارسی کی پیروی میں کیوں بُل ہو (بُل بہ معنی زیادہ) لکھیں اور موسیٰ‘ عیسیٰ‘ اعلیٰ‘ ادنیٰ کو الف مقصورہ (کھڑے الف) کے بجائے الف سے موسا‘ عیسا‘ اعلا ار ادنا کیوں لکھیں۔ بات یہ ہے کہ اس طرز املا سے ہماری آنکھیں اور ہمارے حافظے ایک مدت سے جمالیاتی اور تصویری بیعت کر چکے ہیں۔ لہٰذا اسے فسخ کرکے اسے موسا عیسا نہیں لکھ سکتے۔یاد رکھنا چاہیے ثقافت کی طرح ادب میں بھی کسی شے کی جس میں کوئی عیب بھی نہ ہو‘ کیسے نفی کی جاسکتی ہے اور رواج عام کو کیسے جلا وطن کیا جاسکتا ہے؟ املا کے باب میں رشید حسن خان کے بعض امور میں شدید اصرار کے باعث ردعمل بھی ہوا اور اس ضمن میں بعض بڑی عمدہ کتابیں مثلاً ’’ادبی بھول بھلیّاں‘‘ (حفیظ الرحمن واصف) اور ’’اردو املا اور اس کی اصلاح‘‘ (ڈاکٹر ابو محمد سحر) وجود میں آئیں۔
اردو میں املا کی بعض صورتیں اب تک دو عملی کا شکار رہی ہیں مثلاً ’’زکوٰۃ‘‘ کو تائے دراز یعنی ’’ت‘‘ سے لکھا جائے یا گول ’’ۃ‘‘ سے۔ معرّا اور ہیولا کو الف مقصورہ سے معرٰی اور ہیولیٰ لکھا جائے یا اس کے برعکس۔ تمھیں‘ انھیں‘ جنھیں کو بہت سے لکھے والے تمہیں‘ انہیں اور جنہیں لکھتے ہیں اور بعض ان اوّل الذکر صورتوں میں تحریر کرتے ہیں۔ اضافت کے ضمن میں بھی ایسی ہی دو عملی دیکھی جاتی ہے مثلاً شادابیِ چمن یا شادبیِ ٔچمن‘ خانۂِ انور یا خانہ انوری۔
صحافیانہ تحریروں میں آج کل ایک بدعت تیزی سے در آئی ہے یعنی انگریزی لفظوں کی جمع بھی انگریزی کی کورانہ تقلید میں اس طرح لکھی جانے لگی ہے ’’کتنے ہی میڈیا سنٹرز‘‘ قائم ہو چکے ہیں۔ بہت سے ’’ممبرز‘‘ نے مخالفت کی۔ حال آنکہ یہاں ماضی کی طرح بہ آسانی ’’سنٹر‘‘ اور ’’ممبروں‘‘ کا استعمال ہو سکتا ہے۔ جیسے کتنے ہی میڈیا سنٹر قائم ہوچکے ہیں‘ بہت سے ممبروں نے مخالفت کی وغیرہ۔
اردو املا کی انھی دو عملیوں اور بوالعجبیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ادارۂ فروغ قومی زبان قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن (اسلام آباد) نے مارچ 2022ء کی سترہ اور اٹھارہ تاریخ کو دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا جس میں وطنِ عزیز کے طول عرض سے محققوں اور ادیبوں نے شرکت کی اور اردو کی معیار بندی کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا اور تجاویز دیں۔ املا کی مروج مگر نظر ثانی کی محتاج صورتوں پر بڑی دل چسپ اور سیر حاصل بحثیں ہوئیں۔ سیمینار کی آخری نشست میں کُل پاکستان تشکیل کردہ املا کمیٹی نے ذیلی کمیٹیوں کی تجاویز پر نظر ثانی کرکے انہیں مزید قابل عمل بنانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔ ادارۂ فروغ قومی زبان کے موجودہ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ان کے تمام رفقائے کار خصوصاً ڈاکٹر راشد حمید اور ڈاکٹر انجم حمید ہمارے تشکر کے مستحق ہیں کہ ان کی مساعی سے اردو املا کی معیار بندی کے باب میں ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس سیمینار کا افتتاحی اجلاس بھی قابل داد ہے کہ اس میں ملک کے دو نامور ادیبوں پروفیسر فتح محمد ملک اور افتخار عارف نے خطاب کیا اور مرکزی وزیر تعلیم شفقت محمود اور وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ارشد محمود نے شرکت کی اور اظہارِ خیال کیا۔ افتخار عارف کے خطاب کے اس نکتے کو شرکائے محفل نے سراہا کہ ادارۂ فروغ قومی زبان کو اس قدر با اختیار بنانا بہرحال ضروری ہے کہ وہ ملک گیر سطح کی علمی اور املائی سفارشات کا مؤثر نفاذ کر سکے۔ اس افتتاحی اجلاس کا ایک قابل ستائش پہلو یہ بھی تھا کہ اس ادارے کے زیر اہتمام بڑی محنت اور سلیقے سے قائم کی گئی قومی لسانی انگریزی اردو لغت کے ایپس بنائے جانے کی خوش کن اطلاع بھی دی گئی۔ علاوہ ازیں ادارۂ فروغ قومی زبان کی مساعی سے کمپیوٹر میں اعلیٰ علمی مقالات و مضامین کے اردو بلاگ بھی فراہم ہوگئے ہیں تاکہ اس جدید ٹیکنالوجی سے پاکستان کی نئی نسلیں اور بیرون ملک اردو سے محبت کرنے والے بہ سہولت استفادہ کرسکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو املا کی معیار بندی پر منعقدہ کانفرنس اپنے علمی معیار اور حسن انتظام دونوں حوالوں سے ایک یادگاری کانفرنس تھی۔ امید ہے کہ املا کے سلسلے میں قومی سطح پر مرتبہ سفارشات کو پورے ملک کے علمی‘ صحافتی اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع‘ دانش گاہوں‘ نصاب ساز اداروں‘ کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ تک پہنچایا جائے گا تاکہ یکساں اردو املا ہمارے ملک کے تحریری سرمائے میں رواج پا سکے۔ یہ دراصل اسی وحدت کی طرف ایک قدم ہوگا جو قوموں کی بقا کے لیے علمی‘ فکری‘ نظریاتی اور سیاسی سطح پر ناگزیر ہوتا ہے اور جس سے قومی باوقار اور سربر آوردہ ہوتی ہیں۔