دیوبند کا تاریخی آل انڈیا مشاعرہ

541

(پانچویں قسط)
ایک خاتون برقعے میں بھی آئی تھیں۔ ان کے ساتھ غالباً ان کے شوہر تھے، جن کا اجڑا ہوا چہرہ ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہا تھا کہ ہاں میں ایک نیم مہذب خاتون کا شوہر ہوں۔ یہ جوڑا غالباً پونے بارہ والی گاڑی سے مظفر نگر سے آیا ہو گا۔ کیوں کہ بارہ کے بعد ہی یہ اسٹیج پر پہنچا تھا اور میرے قریب سے گزرتا ہوا آگے کہیں جا بیٹھا تھا۔
’’بڑے بھائی‘‘ نے ہو سکتا ہے انھیں نہ دیکھا ہو، مگر محترمہ شبنم اور وہ ساری بلاؤزر والی خاتون بہرحال مائیک کے قریب ہی تشریف فرما تھیں۔ تثنیہ پر جمع کا اطلاق کب نہیں ہوتا۔ بڑے بھائی نے ’’خواتین‘‘ کہہ کر گرامر کی غلطی بہرحال نہیں کی تھی۔ مگر وہ بوکھلا سے گئے۔ میں اچک اچک کر دیکھ رہا تھا۔ ان کی گول آنکھیں دونوں خواتین کی طرف اس طرح اٹھی ہوئی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں آپ بولیے نا ہم خواتین یہاں موجود ہیں۔
’’آپ شعر پڑھیے جناب‘‘ سیکرٹری صاحب نے جھلا کر کہا۔ موصوف کھنکارے، کھنکار کے ساتھ شاید لعاب دہن کی پھوار آرکسٹرا والے ایریے تک پہنچ گئی ہو گی۔ کسی کی للکار بلند ہوئی:
’’ارے صاحب تھوکیے تو نہیں۔‘‘
موصوف نے جلدی سے رومال نکال کر باچھیں صاف کیں۔رومال گہرے سرخ رنگ کا تھا۔ اب وہ ہانپتی ہوئی سی آواز میں بولے:
’’ہاں تو صاحب۔ قطعہ بہ عنوان ’’صاف انکار‘‘ پیش خدمت ہے، اس میں ہم نے ایک لفظ ’’پکنک‘‘ باندھا ہے۔ لیکن ممکن ہے آپ حضرات اس کا معنی نہ سمجھتے ہوں تو پہلے معنی سمجھ لیجیے۔‘‘
مجھے بڑا صدمہ پہنچا یہ بڑے بھائی بھی نشور صاحب کی طرح ہم دیوبندیوں کو نرا مولوی ہی سمجھ رہے ہیں۔
’’تو پکنک کے معنی یہ ہیں صاحب کہ وہ لڑکیاں اور لڑکے مل کر سیر کو جاتے ہیں۔ بہت سا کھانا پینا پھل فروٹ، تاش، کیرم وغیرہ بھی ساتھ لے جاتے ہیں بڑا مزا آتا ہے۔‘‘
’’آپ بھی کبھی گئے ہیں بڑے بھائی‘‘ میں نے حلق پھاڑ کر پوچھا۔ یہ کوئی بے جا سوال نہ تھا، مگر آس پاس والوں نے مجھے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ کئی ہنسے کئی نے بُرا سا منہ بنایا۔ بڑے بھائی نے بھی چونک کر گردن پشت کی طرف موڑی۔ وہ شاید میرے الفاظ کو ٹھیک طرح سن نہیں سکے تھے، معصوم سے انداز میں بولے:
’’کیا پوچھا آپ نے؟‘‘
’’یہ پوچھا بڑے بھائی کہ پکنک کا مطلب تو اب کچھ کچھ سمجھ میں آ گیا صاف انکار کا مطلب اور سمجھا دیجئے۔‘‘
معلوم نہیں جواب میں انھوں نے کیا کہا، فضا قہقہوں اور منمناہٹوں سے لبریز ہو گئی، سیکرٹری صاحب مجمع کو خاموش کر رہے تھے۔ مگر مجمع اپنے قہقہوں کا گلا گھونٹ کر ہارٹ اٹیک کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
بمشکل تمام شور کم ہوا۔ بڑے بھائی دہانے کی پوری چوڑائی کے ساتھ مسکرا رہے تھے۔ ان کا خیال شاید یہ تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب داد ہی کی فہرست میں شامل ہے۔ آخرکار قطعہ شروع کیا:
کہا میں نے کہ آ جاؤ وہ بولے ہم نہیں آتے
کہا میں نے کہ مر جاؤں گا وہ بولے کہ مر جاؤ
کہا غیروں نے پکنک کو چلو بولے کہ ہاں چلیے
کہا میں نے چلوں میں بھی کہا تم اپنے گھر جاؤ
مجمع لوٹ پوٹ ہو گیا۔ میں نے آواز دبا کر میر حیرت علی سے پوچھا: ’’کیا خیال ہے میر صاحب۔ اتنے ہلکے پھلکے شعر کیا زمین پر رہ کر کہے جاسکتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو کیا آسمان پر جا کر کہے گئے ہوں گے۔‘‘ وہ الجھ کر بولے۔
میرا تو یہی خیال ہے کہ زمین کی حدود کشش سے نکل کر کہے گئے ہیں۔ وہاں کسی شے میں کوئی وزن نہیں رہتا۔‘‘
’’سنئے صاحبان‘‘ بڑے بھائی کی آواز نے ہماری سرگوشی پر شبنم ڈال دی ’’ایک قطعہ اور ہے۔ عاشق کی التجا یا عاشق کی گزارش کہہ لیجیے‘‘۔
’’ہم کیوں کہہ لیں؟‘‘ کوئی دل جلا چیخا۔ ’’عاشق آپ ہیں آپ ہی کہیے۔‘‘
’’انھ۔۔۔ کہہ تو ہم ہی رہے ہیں۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں عنوان برابر کے ہیں، ہم نے اوپر نیچے دونوں ہی لکھ لیے ہیں۔‘‘
’’اوپر نیچے شیم شیم۔۔۔ تہذیب کے دائرے میں رہیے بڑے بھائی۔‘‘
’’ارے واہ۔۔۔ اس میں بدتہذیبی کی کیا بات ہے قطعہ ملاحظہ فرمائیے حضرات و خواتین۔
’’پھر خواتین‘‘ کوئی غرّایا ’’ہماری داڑھیاں آپ کو نظر نہیں آتیں بڑے بھائی‘‘۔
’’بڑے بھائی بڑے بھائی کیا لگا رکھی ہے آپ لوگوں نے میں آپ کا چھوٹا ہوں‘‘۔
’’بہت اچھا چھوٹے بھائی۔ ہم بڑے بھائی گزارش کرتے ہیں کہ آپ مہربانی فرما کر اسٹیج سے تشریف لے جائیے۔ چھوٹے بھائی۔‘‘
’’بس یہ قطعہ اور سن لیجیے اس میں نئے پیرائے میں محبوب کو دعوت محبت دی گئی ہے۔‘‘
’’وہ نہیں مانے گا چھوٹے بھائی آپ چاہے کچھ بھی کر لیں۔‘‘
اب مجمع میں بھونچال سا آ گیا تھا۔ خدا خدا کر کے ڈبل عنوان کا قطعہ بھی زیب سماعت ہو ہی گیا:
قسم خدا کی تمھارا تو کچھ بھی حرج نہیں
اگر مجھے بھی گلے سے کبھی لگا لو تم
بہت دنوں سے بسے ہو مرے خیالوں میں
مجھے بھی اپنے خیالات میں بسا لو تم
میں نے میر صاحب سے کہا:
’’ذرا سوچئے میر صاحب، یہ شخص اگر کسی کے خیالات میں بس جائے تو خیالات پر کیا گزرے گی۔‘‘
’’ہمیں کیا معلوم کیا گزرے گی، چپکے بیٹھو‘‘ انھوں نے ناخوش گوار لہجے میں جواب دیا۔ اب میں نے ڈرتے ڈرتے عمر رفتہ والے بزرگ سے پوچھا:
’’مولانا کیا آپ کو خیالات کے کسی ایسے سائز کا علم ہے جس میں یہ صاحب سما سکیں؟‘‘
’’صرف آپ کا سانچا ایسا معلوم ہوتا ہے‘‘۔ وہ بھنّا کربولے ’’شعر سننے دیجیے جناب‘‘
’’یہ شعر ہیں مولانا؟ پھر تو میں معافی چاہوں گا‘‘۔
خدا خدا کر کے قطعات کی بارش بند ہوئی۔
شاعر بڑے اچھے اچھے آئے ہوئے تھے۔ جام اکبر آبادی، عارف عباسی، واقف مراد آبادی، عندلیب نگینوی، نور تقی میرٹھی، امیر دہلوی، کامل قریشی، رفیق نجیب آبادی، شاہد نوحی، فانی کھتولوی، حفیظ میرٹھی، روش صدیقی۔
ان کی آوازیں، ان کے لہجے، ان کے اشعار یادداشت کے خانے میں کچھ اس طرح شیرشکر ہو گئے کہ تجریدو تجزیہ سخت مشکل ہے کوشش کرتا ہوں کچھ کام چلے۔
حفیظ میرٹھی پختہ گو ہیں، پاکیزہ گو ہیں۔ پڑھتے بھی خاصا ہیں۔ مگر دو باتیں کبھی انھیں آل انڈیا نہیں بننے دیں گی۔ ایک تو یہ ان کے پاس آل انڈیا گلا نہیں ہے۔ دوسرے وہ دین و اخلاق کے چکر سے نہیں نکل سکے ہیں۔کلب گھر میں آپ برقعے کے فوائد پر لکچر دینے لگیں تو لوگ آپ کے چہرے پر دیوانگی کے آثار ضرور تلاش کریں گے۔
مشاعرے ثواب کے لیے منعقد نہیں ہوتے۔ پہلے وہ ادبی مشغلے کی حیثیت سے منعقد ہوتے تھے۔ اب ان کی حیثیت ذہنی اعتبار سے تھیٹر سینما کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تفریح اور کاروبارکے دو اجزا کا مرکب! آل انڈیا مہاشوں کو تو کیا کہیے بالشت بالشت بھر کے شاعر وہ پتے کے ہاتھ دکھاتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ مثلاً دعوت نامے کے جواب میں وہ لکھیں گے:
جناب والا!
دعوت نامہ ملا۔ اس اتفاق کو کیا کہیے کہ جس تاریخ میں آپ کا مشاعرہ ہے اسی تاریخ میں لنکا میں بھی بڑے پیمانے پر مشاعرہ ہو رہا ہے۔ میں سیکنڈ کلاس کے کرائے اور سو روپے نذرانے پر وعدہ دے چکا ہوں۔ آپ سے بھی بدلحاظی برتنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا سوچ رہا ہوں کہ لنکا کے بجائے آپ ہی کے ہاں حاضرہو جاؤں۔ پچاس کا منی آرڈر تار سے بھیج دیجیے۔ سو میں حاضر ہونے کے بعد لے لوں گا۔ تنگ آ گیا ہوں دعوت ناموں سے۔ ایک درجن دعوت نامے اس وقت بھی میری میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ فقط والسلام۔
آپ کا جلوہ۔روہیل کھنڈوی
حالاں کہ اکثر حالتوں میں خط کا یہ مسودہ بھی کسی غیر شاعر ہی سے لکھوایا ہوا ہوتا ہے اور میز کا جہاں تک تعلق ہے آپ کبھی اچانک جلوہ صاحب کے یہاں تشریف لے جا کر دیکھیں، ان شاء اللہ ٹھنڈے سانسوں کے ہجوم میں یہ شعر پڑھے بغیر نہ رہ سکیں گے:
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھانس کے ہے میرے درباں کا
مشکل یہ ہے کہ ان بالشتیوں کو پیدا اللہ میاں نے گانے بجانے کے لیے کیاتھا۔ اسی نسبت سے سریلا گلا بھی عطا کر دیا تھا۔ سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ فلمی گانوں نے تال سر بھی گھر بیٹھے بھیج دیے۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ آیا چوکھا۔ بس پھر تو یہ شاعر ان کے گھر کا کتا بھی شاعر۔ اب یا تو خود رنگ برنگے الفاظ جوڑ لیے یا کسی فاقہ کش نوش شاعر کی ہتھیلی پر اٹھنی رکھی اور یہ کہہ کر غزل مانگ لی کہ اٹھنی بطور ایڈوانس ہے۔ دس روپے مشاعرے سے لوٹ کر ملیں گے۔ شاعر سوچتا ہے چلو اٹھنی تو نقد آئی چار پیالی چائے پئیں گے اور ہر پیالی کے ساتھ ایک تازہ غزل اور کہہ لیں گے۔ دس بعد میں مل گئے تو گھر والی کے زچہ خانے میں کام آ جائیں گے۔(معاف کیجیے گا یہ اس وقت کاقصہ ہے جب چائے کی پیالی دو آنے ملتی تھی)
یہ تو کاروباری گوشے تھے۔ دوسرا گوشہ جنسی بھی ہے یعنی ثقافتی۔ ہو سکتا ہے آپ گانے بجانے کو جنسیات سے نتھی کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔ چلیے وہ روحانی سہی، مگر کیا یہ نیرنگ زمانہ آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہندوپاک دونوں میں اب جنس لطیف بھی شاعروں کے اسٹیج پر پورے میک اپ کے ساتھ جلوہ گر ہوتی جا رہی ہے اور سامعین کی صف میں تو وہ ہر اونچے مشاعرے میں افراط کے ساتھ ملے گی۔
اعتراض مقصود نہیں۔ منظورہے گزارش احوال واقعی۔ یہ دور ہی ایسا ہے کہ عورت کو شمع محفل کی حیثیت سے ہر کلچرل اجتماع میں موجود رہنا ہی چاہیے۔ اسے دیکھ کر مردہ دلوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حرکت میں برکت سے کون کافر انکار کر سکتا ہے۔
اب اس پس منظر میں سوچیے تو بھلا ایسے شعروں کی عوام کی نظر میں کیا قیمت ہو سکتی ہے:
نا محکم بنیاد ہوس عشق سراپا صدق و ثبات
یہ حفیظ صاحب کا شعر ہے۔ کوئی بتاؤ جس ’’ہوس‘‘ پر آج یک جگ مگ کرتے تہذیب و تمدن، آج کے ثقافت و کلچر، آج کے آرٹ، آج کے پورے نظام فکر و عمل کی بنیاد ہو اس کی تحقیر کر کے کوئی مولانا قسم کا شاعر کیسے غیر معمولی مقبولیت حاصل کر سکتا ہے عشق! ہاہاہا۔ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ کہاں ہے کوئی عاشق لا کے دکھاؤ۔ میں نے تو دسیوں عاشق دیکھے۔ ان میں اور بوالہوس میں صرف کیچلی کا فرق تھا۔ اندر سے وہی جبلت وہی جذبہ۔ جس کا پیٹ گوشت کی بوٹیوں کے سوا کسی چیز سے نہیں بھرتا۔
یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ میرے اندر کا وہ قریب المرگ مْلّا کہہ رہا ہے جس کی نظروں کے سامنے پرانے علم الاخلاق کی ایک ایک دیوار گرتی جا رہی ہے۔ ایک ایک ستون لرزہ براندام ہے۔ ایک ایک سانچا ٹوٹتا جا رہا ہے۔ لوگ چیخ رہے ہیں کہ قدامت کی ہر یادگار کو تہس نہس کر کے رکھ دو۔ فرسودہ قدروں کے ایک ایک نشان پرنئے تہذیب و تمدن کے ٹریکٹر چلا دو۔ عورت اور مرد برابر ہیں۔ انھیں قریب لاؤ۔ اتنا قریب کہ درمیان میں کوئی پردہ کوئی بھید بھاؤ کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے۔ مغرب اس راہ میں بہت آگے بڑھ گیا ہے مشرق کو بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانا چاہیے۔
(جاری ہے)

حصہ