حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ہمیشہ کی زندگی نہیں ہے‘ آخرت کے بعد کی زندگی دراصل دائمی و ابدی زندگی ہوگی اور وہاں کانظام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی چلائے گا۔ بے شک اس دنیا کا نظام بھی اللہ ہی چلا رہا ہے۔
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے
لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمت اور احسان کامل ہے کہ اس رب العالمین نے انسانوں کو اس دنیا کے نظام کو چلانے میں اپنا نائب یعنی ’’خلیفہ‘‘ مقرر کرکے ایک اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اس اعزاز کو اپنا مکمل اختیار سمجھنا ہماری بہت ہی بڑی غلطی، گناہ عظیم اور جرم بن جاتا جس کی وجہ سے بعض افراد اور بعض قومیں عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جب قوم کے اعلیٰ یعنی سرکردہ افراد گھمنڈ، تکبر، غفلت،نافرمانی،انانیت اور ظلم کی حدوں کو پھلانگ جاتے ہیں، اللہ کے خوف پکڑ اور عذاب سے غافل ہو جاتے ہیں۔ خود کو کمزوروں بے بسوں اور لاچاروں کا مالک اور مختار کل سمجھنے لگتے اللہ کے دیے ہوئے اس اختیار کو جس کا مقصد ایک نظام زندگی کو اس کے احکاماتِ کے تحت چلانا ہے خود اپنے بنائے ہوئے سسٹم پر چلانے پر بضد ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خالقِ حقیقی وہ باری تعالیٰ وہ مالک الملک ایسے سرکش انسانوں کو اپنے رب العالمین ہونے‘ معبود بر حق ہونے، موت اور زندگی کا کلّی اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے اور اس زمین کے ذرّے ذرّے کا اپنے قبضہ قدرت میں ہونے کا اظہار و اعلان کرنے کے لیے ایسے فرعون، قارون، ہامان، شداد، قیصر و کسریٰ جیسے کروفر رکھنے والے بادشاہوں شہنشاہوں کو اور قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور دیگر اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان بد بخت اور ظالم شہنشاہوں کی جگہ نئے عادل منصف اور متقی اور پرہیز گار حکمرانوں کو مقرر فرماتا ہے۔
اسی طرح ان بد کردار، بد قماش ،دیدہ دلیر، نافرمان اور بدعنوان قوموں کی جگہ نئی قوم لے آتا ہے یہ اس خالق و باری و متکبر کے لیے چنداں مشکل نہیں وہ تو ’’کن‘‘ کا مالک ہے۔ اس کا ایک اشارہ کافی ہوتا ہے اس ایک اشارے کی باری بھی تب ہی آتی ہے جب وہ ان سب کو بار بار تنبیہ اور عبرت انگیز و سبق آموز واقعات و نشانیوں سے مسلسل نصیحت کرتا ہے انبیا اور نیک بندوں کے ذریعے اپنی آیات (نشانیاں) اور محیر العقول واقعات سامنے لاتا رہتا ہے۔ وہ رب کریم تواتر اور تسلسل کے ساتھ ایسی رہنمائی کا ہر ہر لمحہ فراہم کرتا ہے کیوں کہ وہ رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ ستار ہے‘ غفار ہے‘ ہادی ہے۔ لیکن یہ انسان بھول جاتا ہے کہ وہ جبار و متکبر بھی ہے‘ ذو الجلال بھی ہے‘ سریع الحساب بھی ہے۔ عذاب فی الدنیا والآخرۃ کا مالک بھی ہے۔
چنانچہ قرآن میں ہمیں جو واقعات سنائے جاتے ہیں وہ محض قصے کہانیوں کے طور پر تفریح طبع کے لیے نہیں ہیں محض وقت گزاری کا سامان نہیں ہیں اور رٹنے و بیان کا سحر طاری کرنے کے لیے نہیں ہیں‘ نہ وہ عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھے بلکہ ان واقعات کو رہتی دنیا تک کی اس رہنما کتاب میں اس لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ انسان اپنے لیے ایک بہترین سعادت بھری پُرامن‘ پُرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزارنے کی توفیق حاصل کر سکے۔ وہ دنیا جسے اس نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے
سورہ الجاثیہ آیت نمبر 13 میں ہے ’’اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنی طرف سے تمہارے کام میں لگادیا، بے شک اس میں سوچنے والوں کے لئے نشا نیاں ہیں۔انسان نے اپنے لیے کبھی مسخر کیا تھا نہ کر سکتا ہے اور نہ کر سکے گا۔‘‘
یہ مسخر کیا ہے تو صرف اس نے تاکہ انسان یہاں ان نعمتوں سے بھرپور فوائد اٹھائے اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہتر گزارنے کی کوشش کر سکے اور آخرت کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ قربانیاں بھی دے جو نیک اعمال کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
یہ اب کچھ کمی قرآن کی کئی اہم سورتوں کے عمیق مطالعے سے معلوم ہوگا جن میں سورہ مومنون، سورہ الانبیا‘ سورہ ہود، سورہ یوسف جیسی عظیم سورتیں ہیں۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے ان واقعات میں جو اللہ رب العزت نے قرآن کریم فرقان حمید میں بیان فرما دیے ہیں سورہ یوسف کو’’احسن القصص‘‘ قرار دیا ہے کیوں کہ اس میں ایک خاندان سے لے کر نظامِ کاروبار حکومت تک چلانے کے اصول اور گر سکھائے گئے ہیں یہ وہ اصول اور گر ہیں جن میں سیاست‘ معیشت معاشرت ، سماجی اور ثقافتی و رفاہی اداروں کے کامیابی سے چلانے کے قواعد و ضوابط کھول کھول کر بیان ہوئے ہیں۔
بس پڑھنے والی آنکھ، سننے والے کان، سمجھے والا دل اور عمل کرنے پیرا ہونے والی نیت و اخلاص درکار ہیں۔
اس کو وسعت دینا اللہ کا کام ہے جو معیار دیکھتا ہے مقدار نہیں۔ ’’دار ارقم‘‘ کسی بھی جگہ کو بنایا جا سکتا ہے۔ کوہِ صفا کوئی بھی اسٹیج ہو سکتا ہے‘ کوئی تحریر‘ کوئی تقریر‘ کوئی موبائل فون کی ایپ کوئی‘ کمپیوٹر پروگرام کوئی‘ آڈیو‘ کوئی ویڈیو‘ کوئی چینل ہو سکتا ہے۔ داعی الی اللہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آگے بڑھنا اور کوشش کرنا لازمی ہے۔ جیسا کہ اللہ کے آخری رسول پیغمبر اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے۔
اللہ تعالی اس ضمن میں ہونے والی کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔