آج کی دنیا خطرناک حد تک الجھی ہوئی ہے۔ یہ الجھن بہت حد تک انسانوں ہی کی پیدا کردہ ہے مگر اس میں سب سے اہم یا مرکزی کردار انتہائی مال دار افراد نے ادا کیا ہے۔ مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا کمال یہ ہے کہ یہ مال داروں کو ایسے معاملات کی طرف لے جاتی ہے جن کی مدد سے یہ زیادہ دولت اکٹھی کرتے جاتے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ دولت کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہنا ہر دور کا معاملہ نہیں تھا۔ گزشتہ تمام ادوار میں ایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے کہ پورے معاشرے یا دنیا کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے۔ آج ایسا ہو چکا ہے۔ چند انتہائی مال دار شخصیات نے اپنے اداروں کو اُس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ ہر طرح کے معاملات پر اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتے ہیں۔ آج ایسے ادارے موجود ہیں جن کی مجموعی دولت دنیا بھر کے 80 فیصد ممالک کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ امریکا اور یورپ کے کئی اداروں کے بجٹ درجنوں ممالک کے بجٹ سے بڑھ کر ہیں۔ یہ صورتِ حال معاملات کو انتہائی درجے کی الجھن کی طرف لے جارہی ہے۔
آپ نے کبھی change.com کا نام سنا ہے؟ اس ویب سائٹ پر انتہائی مال دار افراد اور اداروں کے خلاف دستخطی مہم چلائی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کی دولت کو اپنی مٹھی میں بھینچ رکھنے والی اِن شخصیات اور اِن کے اداروں کی اجارہ داری کے خلاف کم و بیش 48 کروڑ افراد اب تک متعلقہ درخواست پر دستخط کرچکے ہیں۔ اس ویب سائٹ کو وزٹ کرنے والے بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت کن شعبوں میں کس نوعیت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مثلاً امریکا میں گن کنٹرول، مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں، ماحول کو پہنچنے والے نقصان، دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، زندگی میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل، صحتِ عامہ کے معاملات اور دیگر بہت سے امور پر لوگ اپنی رائے کھل کر دیتے ہیں تاکہ کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے۔ اس حوالے سے ووٹنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔
امریکا کی اس ویب سائٹ پر جو بڑے چیلنج پیش کیے گئے ہیں اُن کے بے لاگ تجزیے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ آج دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن کے ذمہ دار چند انتہائی مال دار افراد اور ادارے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر جوز بیزوز (امیزون)، رچرڈ برانسن (ورجن)، بل گیٹس (مائیکرو سوفٹ)، مارک زکر برگ (فیس بک)، لیری پیج، سرگئی برن (گوگل) اور ایلون مسک (ٹیسلا) جیسی شخصیات اور اسلحہ بنانے، بیچنے والے چند بڑے اداروں کو بھی نشانے پر لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں چین، جاپان اور ایشیا کے دیگر ممالک کے کھرب پتی اور یورپ کے انتہائی مال دار افراد بھی دنیا کو خرابیوں سے دوچار کرنے کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔ اس ویب سائٹ کے مواد کا تجزیہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انتہائی مال دار افراد نے دنیا بھر میں کروڑوں بلکہ اربوں افراد کو دبوچ رکھا ہے، اُن کے وسائل پر قبضہ کیا ہے اور اب ان پر حکومت کرنے کا مذموم ارادہ رکھتے ہیں۔
اس ویب سائٹ سے وابستہ افراد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انتہائی مال دار افراد دنیا بھر سے آئی ٹی سمیت مختلف ٹیکنالوجیز سے تعلق رکھنے والے انتہائی ذہین افراد کی خدمات خرید کر ایسے آلات تیار کرواتے ہیں جن کی مدد سے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ غلام بنانا آسان ہو۔
انتہائی مال دار افراد دنیا بھر میں زمین، جنگلات، ماحول، قدرتی وسائل، توانائی کے متبادل ذرائع اور ذہنی اثاثوں پر قبضہ جماتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے بیشتر ادارے انہوں نے بلا واسطہ یہ بالواسطہ طور پر خرید لیے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ تمام حکومتیں اِن کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوں گی۔ دنیا بھر کی سیاست اِن کی ڈگڈگی پر ناچے گی۔ دنیا بھر میں لوگ کیسے جئیں، بازاروں میں کیا کیا دستیاب ہونا چاہیے، توانائی کے کن ذرائع پر زیادہ انحصار ہونا چاہیے، کیا پڑھنا چاہیے، کیا سیکھنا چاہیے یہ سب کچھ اب یہ انتہائی مال دار افراد طے کرنے لگے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ انتہائی مال دار افراد کے خلاف یہ تحریک سوشلزم یا کمیونزم طرز کی کوئی کوشش ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ جس طرح کے منصوبے پیش کر رہے ہیں، جن تیاریوں کے ساتھ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لے کر خرابیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں اُن تمام منصوبوں کے خلاف ڈٹ جانے کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ جن منصوبوں کے ذریعے اپنی دولت میں بے لگام اضافہ کرتے جا رہے ہیں اُس کے خلاف سینہ سپر ہونے کا وقت آچکا ہے۔ سوال صرف دولت کمانے کا نہیں۔ یہ انتہائی مال دار لوگ اپنے کاروبار کو وسعت دیتے دیتے بہت زیادہ کمانے کے لیے فطرت سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں، ماحول کو غیر متوازن کرنے پر تُلے رہتے ہیں، دنیا کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر ٹیکنالوجیز میدان میں لاکر دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے اشاروں پر ناچنے والے کھلونوں میں تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اِن کی کوشش ہے کہ پوری دنیا کے لوگ محض روبوٹس کی طرح جئیں اور روبوٹس کی طرح مر جائیں۔
یہ دنیا اب چند کھرب پتیوں کی مٹھی میں ہے۔ حکومتیں بھلے ہی یہ سمجھتی ہوں کہ وہ معاملات چلا رہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاسی معاملات اور معیشت و معاشرت کا ڈھانچا سبھی کچھ صرف اور صرف ان چند کھرب پتیوں کی مرضی کے مطابق تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ وقت تقریباً آہی چکا ہے جب صَرف کا رجحان، فیشن، طرزِ زندگی، اندازِ خور و نوش، تعلیم، ثقافت اور سلامتی کے معاملات … سبھی کچھ دنیا کے نو رتنوں میں شمار ہونے والے بڑے کاروباری اداروں اور گروپوں کی مرضی کا سَودا ہوں گے۔ اِن اداروں کی فراہم کردہ اشیا و خدمات ہی کی مدد سے یہ طے کیا جائے گا کہ اب دنیا کو کس طور چلنا چاہیے۔ یہ بڑے کاروباری ادارے دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کو فنڈز دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی ہے کہ سیاسی پالیسیوں پر یہ اثر انداز نہیں ہوتے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام بڑے کاروباری ادارے ایسی پالیسیاں بنواتے ہیں جن سے صرف اور صرف اِنہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ کسی بھی زیرِ اثر ملک میں اہم ترین عہدوں پر اِنہی کاروباری اداروں کے حمایت یافتہ افراد تعینات ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی اِن کی مرضی سے بنتی ہے اور پالیسیاں بھی۔
کھرب پتیوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں شامل صحافیوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں لگانا شروع کیا ہے جن میں شامل مواد پڑھ کر امریکا، یورپ، چین اور دیگر ممالک کے انتہائی مال دار افراد کے خلاف عام آدمی کے دل میں شدید نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ چند برس قبل تک بیزوز، گیٹس، بفیٹ، زکربرگ، مسک اور دیگر کھرب پتی تھوڑی بہت خیرات بانٹ کر اپنے آپ کو ایک سخی شخصیت کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ سماجی بہبود کے منصوبوں کے لیے اِن کی فنڈنگ کے ڈھول پیٹے جاتے تھے مگر اب اِن سب کی شخصیت کا اصل روپ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔
انتہائی مال دار افراد کے پاس کتنی دولت ہے اِس کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک پوسٹ میں بیزوز کی دولت کا اندازہ لگانے کا موقع دینے کی غرض سے لکھا گیا کہ کولمبس نے (1492 میں) جس دن امریکا دریافت کیا تھا اُس دن سے اگر اُسے یومیہ پانچ ہزار ڈالر دینے کا سلسلہ شروع کیا جاتا اور کولمبس آج بھی زندہ ہوتا تو اُس کے پاس اُتنی دولت نہ ہوتی جتنی بیزوز کی بیوی کو طلاق کی صورت میں شوہر کی طرف سے ملی۔
کھرب پتیوں کے خلاف تحریک چلانے والے گروپ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صرف پانچ فیصد افراد نے باقی پچانوے فیصد افراد کی دولت پر قبضہ جماکر اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق جینے پر مجبور کرنے کے لیے سازشوں کا سہارا لیا ہے۔ گروپ کا مؤقف ہے کہ یہ مال دار لوگ تمام قدرتی وسائل بے دریغ نکال کر صرف اپنی دولت میں اضافے کے نام پر ضائع کر رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ماحول کا توازن بگڑ رہا ہے۔ یہ لوگ سراسر غیر انسانی طور پر دریاؤں، سمندروں، میدانوں، پہاڑوں اور دیگر قدرتی وسائل کے مالک بن کر پوری دنیا کے انسانوں کو اُن کے حصول کی قیمت چُکانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے ہمیں نعمت کے طور پر مفت عطا کیا ہے اُسے یہ کھرب پتی اپنی ملکیت میں لے کر ہمیں قیمت ادا کرکے حاصل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
کورونا اِس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ذرا سوچیے کہ دنیا بھر میں 6 ارب 50 کروڑ افراد کے لیے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی دو خوراکیں۔ کٹس، ہاسپٹلائزیشن کا خرچا اور دوسرا بہت کچھ۔ دوا ساز اداروں کی تو چاندی ہوگئی۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر میں ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والے صنعتی اداروں کو تیزی سے پنپنے کا موقع ملا ہے۔ پانی اور ہوا کی آلودگی کی شکل میں ہمارے لیے بہت بڑے چیلنج پیدا ہوئے ہیں۔
افریقا اور امریکا کے غریب ترین افراد کو ضرورت کے مطابق اناج اور کسانوں کو مزدوری کے مواقع فراہم کرنے کے نام پر یہ مال دار طبقہ دیہات کے دیہات اور قصبے کے قصبے خرید رہا ہے۔ لاچار کسانوں سے لاکھوں ایکڑ زمین معمولی نرخوں پر حاصل کی جا چکی ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کو یہ مال دار افراد سہولتوں سے مزین زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے نام پر کاہل اور آرام طلب بنا دیتے ہیں اور جب زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ تبدیل ہو جاتا ہے، لوگ آرام طلب ہو جاتے ہیں تب اُن سے وصولی شروع کردی جاتی ہے۔ یہ لوگ ایسا ماحول بھی پیدا کرتے ہیں جس میں لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایسا بہت کچھ کرنے لگتے ہیں جس سے اُن کی زندگی میں توازن برقرار نہیں رہتا، ضرورت سے کہیں زیادہ صَرف اور خرچ کرنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھنے لگتا ہے۔
ہوا ہمیں قدرت کی طرف سے دیا گیا شاندار اور حیات آفریں تحفہ ہے۔ اِس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ پانی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِسی طور سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش اللہ کی نعمت سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ خلائی تحقیق کے نام پر بیرونی فضا کو آلودہ کرنے کا بھی ہمیں یا کسی اور کو کوئی حق نہیں۔ سمندر اس لیے نہیں کہ اُن میں ہم اپنا کچرا ڈالتے رہیں۔ دریا اور ندیاں اس لیے نہیں کہ اُن میں صنعتی اداروں کا انتہائی زہریلے کیمیکلز والا پانی انڈیلا جائے۔ جنگلات کی اپنی اہمیت ہے مگر ہم بہت بڑے پیمانے پر درخت کاٹ کر جنگلات کا توازن بگاڑ رہے ہیں اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جنگلات کی زمین صاف کرکے وہاں کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔
’’ٹیکنو انقلاب‘‘ کے نام پر ایسا بہت کچھ کیا جا رہا ہے جو صرف خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ بہت سی نئی مصنوعات زندگی کے ڈھانچے کو خطرناک انداز سے تبدیل کرکے مکمل تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے جو کچھ کیا جا رہا ہے اُس سے بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ یہ سلسلہ نہ تھما تو دنیا بھر میں بہت بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوکر رہے گا۔ جدت اور جدیدیت کی حقیقی تعریف سائنس دان اور ماہرینِ عمرانیات و بشریات اب تک طے نہیں کر پائے ہیں۔ کیا ماحول اور انسانی زندگی کو زیادہ غیر متوازن بناکر محض جدید آلات کی فراہمی یقینی بنانے اور انسان کو پرواز کے قابل بنا دینے کو جدیدیت کہا جاسکتا ہے؟ یہ محض ایک المیہ ہے کہ کھرب پتیوں نے زندگی کو زیادہ متوازن اور اعلیٰ معیار سے مزین بنانے پر کبھی زور نہیں دیا۔ اس کے نتیجے میں آج انسانی زندگی مہنگائی، بیماری، ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور عدم تحفظ جیسی قباحتوں میں گِھری ہوئی ہے۔
خاندانی نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ خوراک، رہائش اور علاج کی سہولتوں سمیت کسی بھی معاملے میں انسانوں سے مساوی سلوک کی اب گنجائش نہیں رہی۔ اب کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے طریقے سوچنے کے بجائے اُس سے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کوئی بھی ایسی تحقیق نہیں کی جا رہی جس کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے ریلیف کا اہتمام یقینی بنانا ممکن ہو۔ کیا یہ سب ان کھرپ پتیوں کی ذمہ داری نہیں؟ ان سب نے حالت یہ کردی ہے کہ پانی بھی پُڑیا کی شکل میں مل رہا ہے۔ ایک زمانے سے یہ بات زور و شور سے کہی جارہی ہے کہ اگلی بڑی جنگ پانی کے لیے ہوگی۔ اس صورتِ حال کا کوئی معقول تدارک سوچنے کے بجائے دوسرے سیاروں پر پانی تلاش کیا جا رہا ہے!
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ کھرب پتی اب خیالات و نظریات پر بھی حکمرانی کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ برانڈنگ کے نام پر دنیا کو زیادہ متکبر اور نامعقول بنانے والوں کو ہیرو کی طرح پوجا جا رہا ہے۔ مذہب اور طبقے کے نام پر لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے محض سفاکی اور درندگی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے بین المملکتی تعلقات میں خرابی پیدا کرکے جنگ کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے ہے کہ ایک طرف تو بعض ممالک کی معیشتیں ڈانواڈول رہیں اور دوسری طرف ہتھیاروں کی فروخت کا گراف بھی بلند رہے۔ لوگوں نے اپنا ڈی این اے بھی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔
آئیے! آخر میں ارب پتی بننے کے حساب کتاب پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ ایک سال میں دس لاکھ ڈالر کمانے ہوں تو ہر منٹ 500 ڈالر کمانا ہی پڑیں گے۔ اور اگر ارب پتی بننا ہو تو فی سیکنڈ 60 ڈالر کمانا ہی ہوں گے۔ آج دنیا کے کھرب پتیوں کی ذاتی ملکیت 5 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر تک ہے۔ اِن کھرب پتیوں نے یہ ساری دولت محض ڈیڑھ دو عشروں کے درمیان ہی تو حاصل کی ہے۔ کیسے حاصل کی ہوگی؟ زمین اور اُس کے مکینوں کی زندگی کو داؤ پر لگاکر ہی ایسا کیا جاسکتا ہے اور یہی کیا گیا ہے۔