ٹی وی چینلز پر ایک موبائل کمپنی کا ایک اشتہار آرہا ہے ’’سوپر فار چینج۔‘‘جس میں تیسری جنس کے ایک فرد کو نمایاں کیا گیا ہے اور یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی سب کے اختیار میں ہونا چاہیے بالخصوص خواتین کو سپر بننا پڑے گا تبھی معاشرے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
اب تک تو خواتین کے حقوق اور ان کی امپاورمنٹ ہی ایشو تھا آپ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کی آڑ میں کیا ہونے جا رہا ہے اس سے بے خبری بہت بڑی بے خبری ہوگی۔ اللہ رب کریم اس دنیا میں فیصلے کسی کی مشاورت سے نہیں کرتا۔
کس کو نابینا بنانا ہے، کس کو جسمانی معذور، کس کو ذہنی پسماندہ پیدا کرنا ہے، کس کو تھرڈ سیکس پیدا کرنا ہے‘ یہ اُس کے فیصلے ہیں جس میں اس کی مشیت کار فرما ہے۔ دنیا میں جو بھی جس حوالے سے معذور ہوتا ہے وہ کسی خاندان کا فرد ہوتا ہے چاہے وہ ذہنی معذوری ہو یا جسمانی کمزوری۔ ایک فرد کو اس کے خاندان کا پورا تحفظ ہونا چاہیے اور ریاست کو بھی اس کا مددگار ہونا چاہیے۔
ہم نے بچپن سے اب تک معاشرے میں تیسری جنس کے شاذ و نادر ہی افراد دیکھے۔ ہر بستی میں ایسے دو چار ہی لوگ ہوتے تھے جن کو زنخا کہتے تھے جو ناچ گا کر روزی کماتے تھے۔ شریف گھرانوں میں ایسا فرد عورت یا مرد کا روپ دھار کر مکمل خاندانی تحفظ پاتا تھا۔
بالکل ایسے ہی جیسے کوئی نابینا فرد لکھنے پڑھنے کی اہمیت ہو تو لکھ پڑھ کر صحت مند سماجی زندگی گزارتا ہے اور اگر اہلیت نہ ہو تو ہنر وغیرہ سیکھ کر بوجھ نہیں بنتا۔ باوقار زندگی جیتا ہے۔ لیکن کوئی بھی اپنے خاندان کے نابینا یا ذہنی معذور شخص کو یتیم خانوں میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔
ایسے سینکڑوں گھرانے ہمارے سماج میں پائے جاتے ہیں جہاں اہل خانہ معذور بچوں کو صحت مند بچوں کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتے ہیں۔ کئی کئی سال پورا خاندان اس معذور بچے کی خدمت میں لگا رہتا ہے جب تک اللہ نے زندگی دی ہوتی ہے۔ کوئی بھی عقل مند شخص اپنی معذوری کی تشہیر کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہم نے جسمانی معذروں کو یونیورسٹی کی سطح پر اعتماد سے معلمی کے فرائض انجام دیتے دیکھا ہے۔
یہ سروے ہونا چاہیے کہ ایک دم ٹرانس جینڈرز کی تعداد میں اتنا اضافہ کیسے ہوگیا۔ حکومتوں کی ہمدردیاں اگر عورت کی مساوات یا ویمن امپاورمنٹ کے لیے ہوتی ہیں تو اس کے پیچھے بہت اہم اور خفیہ ایجنڈے ہوتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کے حقوق کی بازگشت بھی اپنے پہلو میں خطرناک ایجنڈے رکھتی ہے۔ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کے قانون منظور کرنے والے ممالک فرد کو اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جنس اپنی مرضی سے تبدیل کرا سکے۔
یہ دنیا چوں کہ چار دن کا کھیل ہے انتہائی لذت کا حصول مقصد زندگی ہے لہٰذا جب جی چاہے عورت بن جاؤ جب جی چاہے مرد۔ یہ ڈیکلیئر کرنا 2018 کے منظور شدہ ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل کے تحت فرد کے اختیار میں دے دیا گیا کہ وہ جب محسوس کرے اپنی افتاد طبع کے رجحان کو اپنی جنس تبدیل کرالے۔ صرف پچھلے تین برس میں پاکستان میں بیس ہزار سے زائد افراد نے اپنی جنس تبدیل کرائی۔
اگر کسی مرد کا من یہ کہتا ہو کہ اس کے جسم میں غلطی سے عورت کی روح ڈال دی گئی( معاذ اللہ) لہٰذا یہ آخری اختیار فرد کے پاس ہونا چاہیے کہ وہ کیا رہنا چاہتا ہے۔ دنیا بھر کے چینلز ایسے لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کررہے ہیں جنھوں نے جنس تبدیل کرائی۔ اس پر فلمیں بن رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑا عالمی ایوارڈ ملا ہے اس ڈاکومینٹری کو جس میں ایک عورت نے ٹرانس جینڈر سے شادی کی۔ گویا اللہ کا باغی انسان دنیا کو فساد سے بھرنے کے بعد اب اس کی ساخت کو چیلنج کررہا ہے۔
یہ ایلومیناتی شیطانی منصوبے ہیںضرورت ہے سنجیدہ غور وفکر کی۔ مگر جس وقت غور کرنے کی بات کوئی اور ہوتی ہے ہم الجھ کہیں جاتے ہیں۔ انسانی فطرت کی اس کمزوری کو سورہ کہف بیان کرتی ہے کہ ’’جب اصحاب کہف کے واقعہ سے عبرت کا مقام تھا تو لوگ سوچ رہے تھے کہ مقبرہ کو یادگار کیسے بنایا جائے؟‘‘
جان رکھیے قومیں نصف روٹی کھا کر، گاڑی کی جگہ سائیکل استعمال کر کے اور چائے چھوڑ کر زندہ رہ سکتی ہیں مگر اخلاقی اقدار کی تباہی ان کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوتی ہے۔ عامر لیاقت کی کسمپرسی کی موت پر سوچے جانے کی بات یہ تھی کہ بڑے شہر چھوڑیں‘ گاؤں دیہات تک میں اخلاقی اقدار اتنی نیست ونابود ہو چکی ہیں کہ ایک نوعمر نو بیاہتا لڑکی اپنے بیڈ روم کی تصاویر ڈالتے ہوئے ذرا شرمندہ نہیں۔ کیا زوجین کے رشتے کو ہم نے یوں پامال بھی دیکھنا تھا۔ اس وقت ہم اس بحث میں الجھے رہے کہ موت کا سبب دوسری زوجہ تھی کہ تیسری؟ جب کہ سوچے جانے کی بات یہ تھی کہ برے وقت میں کیا جوان اولادوں کو باپ کو تنہا چھوڑ دینا چاہیے؟ باپ کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانا چاہیے؟ ہمارے یو ٹیوبرز کسی کے گھر کے گندے کپڑے چوراہوں پر دھو کر ریٹنگ بڑھاتے رہے۔ غیر شائستہ وڈیوز کو وائرل کرنے والے آسمان سے تو نہیں اترے تھے۔ کون ہیں وہ لوگ جو انتہائی غیر شائستہ وڈیوز کو آن کی آن میں وائرل کردیتے ہیں؟ مومنین کی تو صفت یہ بتائی گئی تھی کہ لغویات سے گزر جاتے ہیں۔ (شاید اب سب سے سخت حساب ہماری انگلیوں کی ان پوروںکا ہوگا جو بن سوچے حرکت میں رہتی ہیں۔)
جب کہ سوچے جانے کی بات یہ تھی کہ ’’پرسنالٹی ڈس آرڈر‘‘ کیا ہوتا ہے؟ کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کسی شخص نہیں بلکہ ’’شخصیت‘‘ کو ہیرو سے زیرو کردیتا ہے؟ جانے والا ایک فرد تو ’’ٹیسٹ کیس‘‘ تھا‘ رب مغفرت فرمائے۔
نظر ڈالیے! ہمارے خاندانوں میں کتنے لوگ اس ’’پرسنالٹی ڈس آرڈر‘‘ کا شکار ہیں جن کو ہم نے یہ کہہ کر چھوڑ رکھا ہے کہ ’’فلاں بد دماغ ہے… فلاں بداخلاق ہے… فلاں بدزبانی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے…فلاں وہمی ہے… فلاں رشتہ داروں سے نفرت کرتا ہے وغیرہ۔
یقین جانیں ان سب کو نفسیاتی معالج کی ضرورت ہے۔ ہم تیسری دنیا کے لوگ اپنی ذہنی پسماندگی کے سبب نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھانا شرمندگی سمجھتے ہیں اگر جانا پڑ جائے تو سماج سے چھپاتے ہیں کہ خاندان پر تہمت لگ جائے گی کہ اس کنبے میں نفسیاتی مریض ہیں‘ آئندہ کوئی رشتہ نہیں دے گا اس خاندان کو۔ ہمیں کوئی نہیں بتانے والا کہ جسمانی کی طرح ذہنی بھی امراضِ ہوتے ہیں۔وہ مریض بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم جنرل فزیشنز کی طرح سائیکاٹرسٹ سے بروقت رابطہ کرلیں تو کتنے نو بیاہتا علیحدگی سے بچ جاتے!!
آخری بات… چوبیس کروڑ لوگوں کا ہاٹ ایشو ایک گھر سے بھاگنے یا سازش سے بھگانے والی لڑکی نہیں ہے۔ معاملہ عدالت میں رہنے دیں اپنی سوچوں کو صحت دیں۔ ان یو ٹیوبرز کو اللہ ہدایت دے جو ریٹنگ کے لیے قوم کے ذوق کا ستیاناس کررہے ہیں۔ مکھیاں تو پھولوں پر بھی بیٹھتی ہیں وہ شفا بخش شہد ہمیں عطیہ کرکے کتنی بڑی انسانی خدمت کرتی ہیں۔ معاف کیجیے گا ہمارا میڈیا وہ مکھی ہے جو صرف غلاظت پر بھنبھناہٹ کر کے ہماری ساری توجہ کشید کر رہا ہے۔ ایک طرف دعا زہرہ کے والدین کے ستے ہوئے چہرے… ان پر بننے والی سینکڑوں وڈیوز،انٹرویوز ہیں تو دوسری جانب لاکھوں نظروں سے گزری وہ غیر شائستہ وڈیوز جو تیسری بیوی نے شوہر کی بنائیں اور وائرل کیں۔اس کو مزید پھیلانے میں جس جس کا ہاتھ ہے اسے روز قیامت حساب دینا ہوگا۔ اگر رشتوں میں اعتماد نہ رہے گا تو پھر کیا بچا ہمارے خاندانی نظام میں۔ یہاں اس اعتماد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی گئی ہے‘ بگل بج رہا ہے‘ وقت ہے سنجیدگی سے اپنی نسلوں کے مستقبل کے سوچنے کا۔ اس روئے زمین پر خاندان ہمارا واحد تحفظ ہے مگر ہمارے دشمنوں کی سازشوں کا مرکز۔