سلیم احمد
ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی
یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی
دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی
کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی
یہ دشتِ ہول خیز یہ منزل کی دھند یہ شوق
یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہوگئی
رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے
جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی
خو بُو رہی سہی تھی، جو تجھ میں خلوص کی
اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی
دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر
اب سو بھی جا کہ یار، بہت رات ہو گئی
شعری بھوپالی
غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے
کہ منزل دور ہو اور راستے میں شام ہو جائے
وہی نامہ وہی نغمہ بس اک تفریقِ لفظی ہے
قفس کو منتشر کردو نشیمن نام ہوجائے
تصدق عصمتِ کونین اس مجذوبِ الفت پر
جو اِن کا غم چھپائے اور خود بدنام ہو جائے
یہ عالم ہو تو ان کو بے حجابی کی ضرورت کیا
نقاب اٹھنے نہ پائے اور جلوہ عام ہو جائے
یہ میرا فیصلہ ہے آپ میرے ہو نہیں سکتے
میں جب جانوں کہ یہ جذبہ مرا ناکام ہو جائے
ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش معلوم ہوتی ہے
بہت ممکن ہے کل اس کا محبت نام ہو جائے
حبیب جالب
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن اِن پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں
سیف الدین سیف
راہ آسان ہوگئی ہوگی
جان پہچان ہوگئی ہوگی
موت سے تیری درد مندوں کی
مشکل آسان ہوگئی ہوگی
پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہوگئی ہوگی
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پریشان ہوگئی ہوگی
ان سے بھی چھین لو گے یاد اپنی
جن کا ایمان ہوگئی ہوگی
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہوگئی ہوگی
ظہیر کاشمیری
کس کو ملی تسکینِ ساحل کس نے سر منجدھار کیا
اس طوفاں سے گزرے جس نے ندی ندی کو پار کیا
ائے فرزانو! دیوانوں کے جذبۂ دل کی قدر کرو
ان کی ایک نظر نے آتش آتش کو گلزار کیا
رنجِ محبت رنجِ زمانہ دونوں سے ہم خائف ہیں
ہم نے سوچ سمجھ کر دل کو سرگرمِ پیکار کیا
صحرا صحرا ہم نے نوکِ خار سے تلوے سہلائے
محفل محفل ہم نے اپنی وحشت کا اقرار کیا
اُن سے کہہ دو سامنے آ کر اپنے جلوے عام کریں
خلوتِ ناز میں چھپ نہ سکیں گے ہم نے اگر اصرار کیا
بستی بستی آج ہماری سعیٔ وفا کی شہرت ہے
ہم نے ظہیرؔ اک عالم کو پابندِ نگاہِ یار کیا
جمیل الدین عالی
دلِ آشفتہ پہ الزام کئی یاد آئے
جب ترا ذکر چھڑا نام کئی یاد آئے
تجھ سے چھٹ کربھی گذرتی سو گذاری لیکن
لمحہ لمحہ سحر و شام کئی یاد آئے
آج تک مل نہ سکا اپنی تباہی کا سراغ
یوں ترے نامہ و پیغام کئی یاد آئے
کچھ نہ تھا یاد بجز کارِ محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
خود جو لب تشنہ تھے جب تک کوئی یاد نہ تھا
پیاس بجھتے ہی تہی جام کئی یاد آئے
ادا جعفری
خلش تیر بے پناہ گئی
لیجئے ان سے رسم و راہ گئی
سامنے بے نقاب بیٹھے ہیں
وقعت حسن مہر و ماہ گئی
اس نے نظریں اٹھا کے دیکھ لیا
عشق کی جرأتِ نگاہ گئی
مر مٹے جلد باز پروانے
اپنی سی شمع تو نباہ گئی
دل میں عزمِ حرم سہی لیکن
ان کے کوچے کو گر یہ راہ گئی
تلوک چند کوثر
جو ہوائوں نے گھٹائوں سے کیا
آپ نے میری وفائوں سے کیا
وائے تقدیر، ہمارے ہوتے
پیار نے پیار جفائوں سے کیا
وہ تعلق بھی تھا کتنا معصوم
ہم نے پیدا جو خطائوں سے کیا
ایک جنبش سی ستاروں میں ہوئی
جب ترا ذکر فضائوں سے کیا
گل کیا جس نے وہ تھا اور مگر
شمع نے شکوہ ہوائوں سے کیا
کی ہے توہینِ محبت، تسلیم!
ہاں گلہ میں نے دعائوں سے کیا
نور بجنوری
ان گھٹاؤں میں اجالے کا بسیرا ہی سہی
خیر اگر آپ بضد ہیں تو سویرا ہی سہی
اے غم زیست بلاتی ہیں مہکتی زلفیں
آج کی رات یہ پر نور اندھیرا ہی سہی
دل میں جو آگ لگی ہے وہ کہاں بجھتی ہے
راہ شاداب سہی ابر گھنیرا ہی سہی
ہوشیار اہل خرد خاک نشیں آ پہنچے
آپ کے زعم کا افلاک پہ ڈیرا ہی سہی
تو پریشان نہ ہو خالق فردوسِ بریں
یہ جہنم یہ جہاں آج سے میرا ہی سہی
کتنی یادیں ہیں کہ ناگن کی طرح ڈستی ہیں
نورؔ اِن گلیوں کا اک آخری پھیرا ہی سہی