’’قوتِ حافظہ‘‘ ہر باشعور انسان کی کل متاع ہے۔ یہ لٹ جائے تو اسے سیانا نہیں کہتے۔ یہ جتنا جس کے پاس ہے وہ اتنا ہی انسان ہے۔ یادداشت اس کی ہر ضرورت کو سہارا دیتی ہے۔ تعلیم اداروں سے جڑے بچے ہوں کہ زندگی میں ارادوں سے جڑے بڑے۔ سب کو اس کا بات کا خوب اندازہ ہے کہ علم کے ظاہری صرف تین ہی روپ رنگ ہیں۔ ایک ’’لفظ‘‘ دوسرا ’’نقشہ (میاپ)‘‘ اور تیسر ا ’’عدد‘‘۔ آج ہم عددکو اپنی جادوی ہنر سے اسے نغمات میں بدل دینے کا ہنر سیکھیں گے۔ جس کے بعد ہزاروں لفظ بھی آپ کی آواز پر ہاتھ باندھے یاد کی روشن سطح سے لبیک کہیں گے۔ یہ آپ کے غلام یا نوکر بن جائیں گے۔ آپ ایک بادشاہ کی طرح انھیں جس لباس میں کہیں گے‘ وہ پہن کر آئیں گے۔ ویسے عدد ہیں کتنے، صرف 10 یعنی صفر کو شمار کریں اور نو تک گن لیں تو صرف دس عدد بنتے ہیں۔ باقی آپ کئی لاکھ لکھیں یا کروڑ سب صفر تا نوکے
عدکا الٹ پھیر ہے۔ اس سے پہلے ہم عدد کوگیت کا سرگرم بنا کر سیکھ کر اسے نئے نغموں کی دھن دیں گے۔ پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس سے ہمارا کیا فائدہ ہے اور نہ سیکھنے سے کیا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کو سیکھ کر ہم کتنی ذہنی مہارت حاصل کرسکتے ہیں یا ذہنی پسماندگی کی تہمت کے ساتھ جیتے رہیں گے۔
عدد اساس جملہ بندی کا ہنر ہمیں بغیر کسی ذہنی تھکن کے ہماری ایسی مدد کرتا ہے۔ جس کے سہارے ہم تاریخ کے دن، ماہ وسال یادکرسکتے ہیں۔ آیتِ قرآنی کا نمبر، ملک کے دستور کے دفعات کا نمبر، فون نمبر، پاس ورڈ، کیمیائی ویلیو نمبر، حساب کا کوئی عدد، تاریخ پیدائش، واقعات کی تاریخ، ملکوں کا طول و عرض، نہروں، علاقوں کی لمبائی و چوڑائی۔ فضائی فاصلوں کی دوری بلکہ جو کام پہلے ابجد نے عاملوں کا بھلا نہیں کیا اس سے زیادہ ہمارا فائدہ ہوگا۔
کہتے ہیں کہ فرانس کے ماہر فلکیات و حساب دان Pierre Hérigone نے 1643-1580 کے زمانے میں سوچا کہ ذہن کی زبان عدد سے مانوس نہیں ہے۔ یا توعددکو انسانی تصور کے قریب لایا جائے یا عد د کوآواز میں بدل دیا جائے۔ عدد کی آواز اگر بامعنی بن جائے جیسے ’’فلک‘ زمین‘‘ تو پھر عد د کو تصور یا بدن مل جائے گا اور وہ آواز یا تصور کے سہارے ذہن میں سماجائے گا۔ پھر چھوٹی چھوٹی آوازوں کو جوڑ کر لفظ بنایا جائے، وہی آوازکسی پیکر میں ڈھلے، اس پیکر سے ایک کہانی جوڑ کر سارے لفظوںکو ہم یاد کرسکتے ہیں۔ لفظ کیا ہوں گے؟ ایک جملہ یا کوئی کہانی ہوں گے۔اس نے پہلے عدد کو صرفConsonants سے جوڑا اور اس کو Vowels سے آزاد کیا، یعنیVowels کی آواز شمار نہیں کی۔ جیسے 1کو اس نے ’’ٹا ، ڈا‘‘ کی آوازیں دے کر کہا کہ اس سے جڑی ساری آوازیں صرف عدد 1 سے نکلے گی۔ جیسے ٹا، ٹی، ٹو، ٹے، تھا، تھی،ڈا، ڈی،ڈو وغیرہ۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دس عدد میں ہر زبان کی ساری آواز آگئیں۔ اس تصور کو اب ہم مکمل کرتے ہیں۔ 1 سے ٹا، ڈا(دوآوازیں)، 2: نا، 3: ما، 4: را، 5: لا، 6: چا، جھا، شا (تین آوازیں)، 7: کا، گا (دو آوازیں)، 8: فا، وا(دوآوازیں)، 9:پا، با(دو آوازیں)، 0: سا، زا، (دو آوازیں)۔ بس اتنی سے تبدیلی سے عدد کی کل کائنات ہمارے لیے سرگم بن گئی۔ اس میں شرط وہی تھی۔ Vowels کی آواز نہیں ہوگی بلکہ آدھے Vowels اور ’’ھا، حا‘‘ کی آواز بھی شمار نہیں ہوگی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ ہم چاہے جتنی آوازیں Vowels کی مدد سے لفظ کے پہلے یا درمیان اور آخر میں لے آئیں اس کا شمار نہیں ہوگا۔ ابھی بس چند سطروں میں اس کی گتھی سلجھ جائے گی۔ جیسے: گائے : 7، ٹائی: 1، داو: 1، نائی: 2، مائی: 3، لانا: 52، پکانا: 972۔ اس طرح ایک آواز، دو، تین یا جتنی چاہے آوازوں کو جوڑ کر عدد کو لفظ بنا لیں پھر پیکر یا کہانی بنالیں تو عدد آواز میں ڈھل کر حافظہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ ویسے یہ تھوڑی سے عملی کوشش سے یاد کی روشن سطح پر آجاتا ہے۔ میں اس کو سمجھنے کے لیے چند ویب سائٹس کے لنک دے رہا ہوں جس کی مدد سے اس پر مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے گاندھی جی کا قتل 1948 میں ہوا۔1:ٹا، 9: پا، 4: را، 8: ف Top Roof ۔ اب ایک کہانی بنائیں ۔ نتھو رام گوڈسے نے چھت سے گاندھی جی پر گولی چلائی اور گاندھی جی کو ہلاک کیا۔ انگریزی کے دو لفظ ”Top Roof” سے آپ کو تاریخ یاد ہوجائے گی۔ مزید مہارت کے لیے 6 ویب سائٹس میں کوئی ایک ضرور دیکھیں:
1.Artofmemory.com,
2.Numzi.com,
3.Pinfruit.com,
4 Major system info.
5 2know,
6. Rememberg.com
عدد جیسے ہی بامعنی لفظ میں ڈھل جائے گا اس سے ایک پیکر ابھرے گا جو ہمیں کہانی تراشنے اور تصور کرنے میں مدد دے گا۔ مثال کے طور پر آپ مغلیہ سلطنت کی پوری تاریخ کو تین جملوں میں لکھ سکتے ہیں۔ اس طرح آپ من چاہے رد و اختیار سے کہانی بنا سکتے ہیں۔ ذہن کو ایک ہلکا سے اشارہ بھی عدد کی بازیافت کو کافی ہوتا ہے۔ ہند چین جنگ 1962 میں ہوئی ؛ چ:6، نا: 2۔چائینا کا اشارہ کافی ہوگا۔آپ چاہیں تو 19 (تباہ) کی آواز بھی شامل کرسکتے ہیں۔ ہندو پاک جنگ 1971؛ کا: 7،ٹا: 1 (Kite یعنی پتنگ)۔ اب فسانہ بنائیںکہ سرحد پر پتنگ بازی ہورہی تھی اور اسی سبب جنگ ہوگئی۔ اس طرح تصور میں عدد کے مقابلے میں پتنگ کا آنا آسان ہے اور کئی سال کے بعد 71 کا عدد بھولنا ممکن ہے بلکہ امتحان میں بھولنے کا سبب زیادہ ترکنفیوژن ہی ہوتا ہے۔
اس فن کی مہارت کو دیگر میموری ماسٹری کے ہنر اور ترکیبوں سے جوڑا جائے تو کمال کا حافظہ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کی تربیت کے نتیجے میں میں اپنے ہزاروں طلبہ کو ہزاروں عدد بھی تھوڑی ہی دیر میں حافظہ کا حصہ بناسکتا ہوں۔ اگر ہم یہ سیکھ لیں تو مسابقتی امتحانا ت ہو کہ زندگی کی کوئی ضرورت ہو ہمارا مقابلہ کوئی ذہین سے ذہین شخص بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ پلک جھپکنے کی دیر میں کئی عدد ذہن میں ایک روپ لے کر جگہ بنالیتے ہیں اور مدتوں یادداشت کا حصہ بن کر رہتے ہیں۔ چاہے قرآن کی آیات ہوں کہ دنیاداری کی کوئی ضرورت‘ عدد کو نغموں میں ڈھالنا سیکھنا ہے ناکہ رٹنے کی اذیت تاکہ بھولنے کی ذلت سے ہمیں چھٹکارا مل سکے۔