مغرور گیدڑ

ایک گیدڑ تھا۔ بڑا مغرور اور بڑا شیطان ، بہتوں کو اس نے ستایا تھا اور ان کی بد دعا لی تھی۔
ایک دن اس نے کھٹا انگور کھایا۔ جب اس کے دانت کھٹے ہو گئے تو وہ آگے بڑھ گیا۔ راستے میں املی کے پیڑ کے نیچے اس نے بہت ساری املیاں پڑی دیکھیں۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ املی کھانے لگا۔ اس کے دانت اور کھٹے ہو گئے۔
کچھ اور آگے بڑھنے پر ایک جگہ شہد کا چھتّے لٹکا ہوا نظر آیا۔ اس کا جی للچایا اور اس نے جیسے ہی کھانے کے لئے چھتہ پر منہ مارا شہد کی مکھیاں اس سے لپٹ گئیں۔
وہ درد سے کراہتا ہوا بھاگا۔ دو چار مکھیاں اب بھی اس کی ناک سے چپکی ہوئی اسے ڈس رہی تھیں۔ سامنے مٹی کا ڈھیر نظر آیا۔ وہ اسی میں ناک رگڑنے لگا۔
مٹی کے اس ڈھیر میں بچھو رہتا تھا۔ جیسے ہی گیدڑ نے ناک رگڑی بچھو نے ڈنک مار دیا۔ درد سے گیدڑ کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ وہ بے تحاشہ وہاں سے بھاگا۔ آگے بڑا سا پتھر پڑا تھا۔ وہ اس پتھر سے ٹکرایا تو اس کا سر پھٹ گیا ، اور خون بہنے لگا۔
دوسری سمت سے ایک دوسرا گیدڑ چلا آ رہا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر اس نے پوچھا۔ “کیا ہوا کیا بات ہے”؟
وہ بڑے دکھ سے بولا۔ ” کسی کی بد دعا مت لینا۔ دعا لیکر بھی کسی کو ستانا مت ، بھوک میں انگور چوس لینا۔ مگر شہد مت کھانا ، شہد جو کھا لیا تو ناک مت رگڑنا ورنہ بچھو کاٹ کھائے بچھو کاٹ کھائے تو آنکھیں بند ہو جائیں گی ، اور آنکھیں بند ہو گئیں تو بھاگنا مت ، نہیں تو سر پھٹ جائے گا۔
آہ! اور گیدڑ بلک بلک کر رونے لگا۔