“امی امی جلدی سے کھانا دیں دیں بہت بھوک لگی ہے”۔
سانیہ صفیہ اور راشد نے اسکول سے آ کے شور مچایا۔
“جی بیٹا ابھی کھانا لگاتے ہیں “.
صدیقہ بیگم کچن میں چکن کا سالن گرم کرتے ہوئے بولیں ۔ثانیہ، راشد ،صفیہ صدیقہ بیگم اور عابد صاحب کی تین اولادیں تھیں جو بہت ہی فرمانبردار تھیں اور سب اسکول میں پڑھتے ثانیہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھی صفیہ ساتویں کی اور راشد آٹھویں جماعت میں تھا۔
صدیقہ بیگم نے جلد ہی دستر خوان لگایا اور کھانا سب کے آگے پیش کیا اور خود ان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
بچوں نے کھانا شروع کیا۔
“امی اور دادی ماں آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہیں خیر تو ہے آپ بھی لیں نہ “.
صفیہ نے سالن کے ساتھ روٹی کا لقمہ لیتے ہوئے کہا۔
“بیٹا آج تو ہمارا روزہ ہے آپ کو تو پتا ہے ذی الحج کا چاند نکل آیا ہے اس مہینے کے دس دن بڑے فضیلت والے ہیں”.
صدہقہ بیگم بولیں۔
“امی امی میں بھی روزہ رکھوں گا”. راشد نے صدیقہ بیگم کی بات سن کر کہا۔
“ہاں بیٹا تم ان دس دنوں میں روزہ رکھنا اور صفیہ ،ثانیہ تم بھی۔ ساتھ میں اللہ تعالی کا ذکر اور رات میں عبادت بھی ہمارے ساتھ مل کر کرنا کہ اس سے اللہ پاک بہت اجر دیں گے۔ بیٹا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئ دن ایسے نہیں جن میں عبادت کرنا اللہ تعالی کو عشرہ ذی الحج (کی عبادت ) سے زیادہ پسند ہو کیونکہ ان میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہے اور ہر اک رات کا جاگنا شب قدر کے جاگنے کے برابر ہے”.
(ابن ماجہ و الترمزی و قال اسنادہ ضعیف).
ان کی دادی بشری بیگم نے سمجھایا۔
” جی دادی ماں ہم سب ہی اللہ پاک کی عبادت کریں گے” صفیہ اور ثانیہ ایک ساتھ بولیں۔
یوں باتوں باتوں میں بچوں نے کھانا ختم کرکے دسترخوان سمیٹا اور الحمد للہ کہتے ہوئے کچن سمیٹ کر قبلولہ کے لے کمرے میں آئے اور شام کو افطاری کی تیاری کی۔ افطار کر کے مغرب کی نماز ادا کی اور بچوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے کہا۔
عشرہ ذی الحج بہت خوبصورت انداز میں گزر رہے تھے عابد صاحب ، صدیقہ بیگم ، بشرا بیگم بچے رات میں عبادت کرتے اور روزہ رکھتے افطار میں اچھے اچھے پکوان سے لطف اندوز ہوتے اور اللہ پاک کا شکر ادا کرتے یوں دن گزرتے چھ ذی الحج آگئی۔
” امی دادی دیکھیں دیکھیں ہمارے گھر دو بکرے آگئے واہ واہ آجاؤ سب صحن میں۔۔ راشد نے ابو کے ہاتھ میں بکرے کی رسی لی اور خوشی سے کہا۔
امی، دادی، صفیہ، ثانیہ خوشی خوشی صحن میں اپنے جانور دیکھنے آئے۔
“ابو یہ جانور کتنے کے آئے اتنے خوبصورت دونوں بکرے کالے اور سفید زبردست ہم گھمانے لیں جائیں”.راشد بولا ۔
بیٹا یہ نوے ہزار کی جوڑی لائیں ہیں آج کل تو جانوروں کی قیمت کہاں پہنچی ہوئی ہے اور ہاں تم ان کو گھمانے لے جاؤ اور دوستوں کو بھی لے جانا اور ان کے جانوروں کو بھی ساتھ گھمانے لے جانا ان کا ان تین دنوں میں خوب خیال رکھنا کیونکہ عید الضحی میں ان کی قربانی کرنی ہے کہ حدیث میں ہے حضور پاک نے فرمایا!” جس نےخوش دلی سے طالب ثواب ہوکر قربانی کی،تو وہ قربانی اس کے لیے جہنم کی آگ سےحجاب یعنی روک دی جائے گی”.
اب تو یہ بچے تھے اور یہ جانور۔۔
سب ان جانوروں کا خوب خیال رکھتے کبھی چارا کھلاتے کبھی نہلاتے اس طرح وہ دن بھی آگیا اور جس کا انتظار تھا جی عید الاضحی آگئی عابد صاحب راشد نے عید کی نماز ادا کی ، جانوروں کی قربانی کا فریضہ ادا کیا بچوں نے نئے کپڑے پہنے بزرگوں سے عیدی لی۔
اور صدیقہ بیگم کے لیے تو آج کا دن کافی مصروفیت میں گزرنے والا تھا کہ ان قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے تھے اپنے ، رشتے داروں کے ہمسائوں ،غریبوں مسکینوں کے اور عید کے پکوان تیار کرنے تھے۔
صدیقہ بیگم ان سب کے لیے تیار تھیں کہ یہ سب اللہ پاک کا حکم ہے انھوں نے اللہ پاک کا شکر کرتے ہوئے کچن میں چل دیں۔