سند بادجہازی کے حیرت انگزی سفر

310

جزیرہ ہلنے لگا
کچھ ملّاح کھانا پکانے کے لیے ساحل پر آئے۔ گھاس پھوس جمع کر کے آگ جلائی۔ اچانک اس وقت دو عجیب و غریب باتیں ہوئیں۔ اوّل یہ کہ جزیرہ ہلنے لگا۔ مسافر حیران و پریشان ہو گئے۔ کپتان تجربے کار آدمی تھا۔ وہ فوراً چلّایا، “جلدی سے جہاز پر سوار ہو جاؤ۔ یہ جزیرہ نہیں، یہ تو حوت مچھلی ہے۔ جو برسوں سے پانی کی سطح پہ سو رہی تھی۔ تم نے جو آگ جلائی ہے۔ اس کی تپش سے جاگ اٹھی ہے۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔”
جو لوگ جہاز کے بالکل قریب ہی کنارے پر تھے وہ دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں لوگوں سے دور تھا۔ مجھے زیادہ فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں سرپٹ دوڑا۔ لیکن جزیرہ جو صرف پہلے ہلا تھا۔ اب پانی کے اندر گھسے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت آندھی آئی۔ اس نے جہاز کو دور لے جا پھینکا۔ پھر مجھے نہیں معلوم مجھ پر کیا گزری۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا میں پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ جزیرہ بھی غائب اور جہاز بھی غائب تھا۔ میں اپنے دل میں دعا مانگنے لگا، “اے اللہ! کیا میں بے گور و کفن سمندر میں تن تنہا ڈوب کر مروں گا۔ اے میرے اللہ مجھ پر رحم فرما۔”
الله تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔ ادھر میں نے دعا مانگی ادھر پانی کی ایک لہر ایک بڑے برتن کو میرے قریب لے آئی۔ میں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ جان بچانے کا سہارا مل گیا، لیکن آزمائشیں ابھی باقی تھیں۔ سمندر کی لہریں مجھے اور میرے برتن کو پٹک پٹک کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں۔ زندگی اور موت کی آپس میں زبردست کشمکش جاری تھی۔ اسی حال میں رات گزر گئی۔ دن بیت گیا۔ پھر دوسری رات اور دوسرا دن گزر گیا۔ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔ انگلیاں سن اور بازو شل ہو گئے تھے۔ مجھے یہ ڈر کھائے جاتا تھا کہ کہیں برتن ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
زمین! زمین! میرے اللہ زمین
جب بھی مجھے ہوش آتا تو میں گڑگڑا کر دعا ضرور مانگتا تھا۔ ہوا کے تھپیڑے مجھے ساحل کی طرف لے گئے، لیکن میں خود اس بات سے بےخبر تھا۔ دراصل میرے جسم میں طاقت نام کو نہیں تھی۔ بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوں۔ پھر غشی کا دورہ پڑا۔ ایسی حالت میں کس کو دن اور وقت یاد رہ سکتا ہے، لیکن اندازے سے کہہ رہا ہوں کہ دو دن اسی حال میں بے خبر پڑا رہا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ الله جو کرتا ہے اس میں بندے کی بہتری ہوتی ہے۔ اس طرح پڑے رہنے سے میری تھکن اور کوفت قدرے کم ہو گئی۔ پھر مجھے مشہور مثل یاد آ گئی، اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ میں اٹھا کہ پانی اور غذا تلاش کروں۔ پیروں پر نظر پڑی تو داغ نظر آئے۔ شاید مچھلیوں نے جگہ جگہ کاٹا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، “سندباد الله کا شکر ادا کرو اور آگے بڑھ کر تازہ پانی تلاش کرو۔ تازے پانی سے پیر دھوؤ گے تو یہ زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔”
میں اٹھا تو اٹھا نہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے لاٹھی سے میری چول چول ڈھیلی کر دی تھی۔ کبھی گھسٹ گھسٹ کر کبھی بازوؤں پر چل کر میں آگے بڑھتا رہا۔ طبیعت میں تازگی تو تھی نہیں کہ میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں۔ میں تو اندھے کی طرح چل رہا تھا۔ اچانک کسی چیز سے ٹکرایا دیکھا کہ ایک پھل دار درخت سے ٹکّر لگی ہے۔ نظر اٹھائی تو پاس ہی صاف شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ