اُس نے نگاہیں اٹھا کر چمکتے آسمان کو دیکھا۔ سنہری دھوپ کی چادر پورے آنگن میں تنی ہوئی تھی۔ آنگن میں رکھا تخت، تکیے، پودے، گملے سب ہی تو سونے کی طرح چمک رہے تھے اور یہ چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ شاید زندگی کو بھی۔
’’خود کو زندگی کے اس نئے المیے کے ساتھ ڈھالنے میں بہرحال کچھ وقت تو لگے گا۔‘‘ اس نے خود کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔ یہ انہونی اس کی زندگی میں آ چکی تھی جسے اس نے پوری سچائی کے ساتھ قبول کرنا تھا۔ اس کا ذہن پھر ماضی کی طرف سفر کر گیا تھا۔
’’کیا کہا تھا فضہ نے…؟‘‘
’’ہاں یہی کہ خرم اور وہ ایک دوسرے میں دل چسپی رکھتے تھے اور خرم نے اسے پروپوز کر دیا، اگلے ہفتے منگنی۔‘‘
’’ارے یہ اتنے سارے معاملات نمٹ گئے اور میں بے خبر؟‘‘ نمرہ منہ کھولے سنتی رہی اور پھر خاموشی سے اٹھ گئی، ہاں چلتے چلتے مبارک باد دینا نہ بھولی۔کچھ نہ بچا تھا۔ اس کی روح کے زخم جو نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں کو زخم تو صرف مادی جسم پر ہی نظر آتے ہیں۔
’’تو کیا وہ سراب تھا ؟‘‘ وہ یونیورسٹی سے گھر آکر کتنی ہی دیر سوچتی رہی، تانے با نے بُنتی رہی اور کھڑکی سے باہر اُن پرندوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھتی رہی، جو سارے دن کی مشقت کے بعد اب اپنے بسیروں میں جا رہے تھے۔
’’خواب، سراب ہوتے ہیں اور سراب عذاب ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے کہیں پڑھا تھا۔ تو کیا یہ گزرا تعلق جو شاید یک طرفہ تھا، اس کی زندگی کو عذاب بنا دے گا؟ نہیں… شاید ہاں…!‘‘ اس نے تھک کر سر جھکا لیا تھا۔
’’کیا تھا وہ؟‘‘ اُسے خرم کی باتیں یاد آئیں۔ ’’شاید فریبِ نظر… لیکن اس نے کوئی وعدہ تو نہیں کیا تھا‘ وہی آس کے دیپ جلاتی رہی…تو قصور وار کون تھا؟ وہ خود…‘‘ اس نے حقیقت سے نظریں چرائیں جو آج پوری سفاکی سے عیاں تھی۔
چند ماہ اسی طرح گزر گئے تھے۔ آج فضہ اپنی شادی کا کارڈ لے کر آئی تھی۔
’’تم شادی میں آؤ گی ناں ؟‘‘وہ یقین دہانی چاہتی تھی۔
’’کیوں نہیں…‘‘ نمرہ نے ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتے ہوئے کہا اور وہ خوشی سے گلے لگ گئی تھی۔
’’تم ہی تو میری ایک سچی دوست ہو۔‘‘ اس نے چلتے چلتے کہا۔ بہار کے سارے رنگ اس پر چھائے ہوئے تھے۔ شادی میں شرکت کسی پلِ صراط سے کم نہ تھا۔ لیکن اس نے یہ عبور کر لیا تھا۔
…٭…
’’ٹک ٹک ٹک…‘‘زندگی مصروف تھی۔ ایک… دو… تین… تین سال گزر گئے تھے۔ گھر والے نمرہ سے شادی پر اصرار کر کر کے ہار گئے لیکن اس کی نہ، ہاں میں نہ بدلی۔
وہ لان چیئر پر اپنی پسندیدہ جگہ پر پورے چاند کی روشنی میں بیٹھی تھی۔ لیکن پھر بھی بے نور تھی۔ ’’کیا تھا وہ؟‘‘اس نے خود سے پوچھا۔
قصہ ختم، کہانی ختم… لیکن درد ختم نہ ہو رہا تھا۔ درد ملتے ہی اس لیے ہیں کہ ختم نہ ہوں۔ منفی سوچ پھر حاوی تھی۔ ماضی پھر ذہن پر دستک دے رہا تھا۔ تاریکی جو‘ ہر شے کو ڈھانپ لیتی ہے‘ ہر وجود پر غالب آجانے والی‘ یہ تاریکی ہی تو تھی‘ جو اس کی ذات کا حصہ بن گئی تھی۔ اندر بھی، باہر بھی۔
…٭…
آج طویل عرصے بعد فضہ کا فون آیا تھا۔ اس کی آواز سن کر وہ چونک گئی ’’نمرہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ فضہ کی آواز میں کانچ کے ٹکڑوں کی چبھن تھی۔ نمرہ کا دل دھڑکا تھا۔
…٭…
’’سراب، سب سراب نکلا۔‘‘ کتنے سال پہلے جو الفاظ نمرہ کے دل و ذہن میں ہلچل مچا گئے تھے۔ آج فضہ کی زبان پر تھے۔ ’’خرم وہ نہیں، جو نظر آتا تھا۔‘‘ کھوکھلا پن فضہ کی آواز میں نمایاں تھا۔ لہجہ کی جھنکار کہیں کھو گئی تھی۔ ’’ملمع تھا جو اتر گیا۔‘‘وہ مزید بولی۔
’’…سراب، ملمع…؟‘‘ نمرہ سمجھ نہ پائی۔ وہ کیا کہہ رہی تھی، نمرہ کو بمشکل یقین آرہا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘ نمرہ الجھ کر بولی۔ فون کی بیل نے دونوں کے درمیان ٹھہرے سکوت کو توڑا۔
’’خرم مجھے لینے آرہے ہیں، تم بھی مل لو۔‘‘
’’میں…؟‘‘ نمرہ جز بز ہوئی۔پھر کچھہ وقت جو اس نے ان دونوں کے ساتھ گزارا۔
سچ کہہ رہی تھی فضہ… یہ چہرہ اسے پہلے کیوں نہ نظر آیا؟ بات بات پر جھنجھلاہٹ، درشتی، بدظنی، سختی، دونوں کی آپس کی گفتگو نے ، پرت در پرت کئی تہیں جیسے اتار دی تھیں۔
…٭…
’’اُف… کتنی بے وقوف تھی میں، جس نے ایک شخص کے نام پر تین سال، تین قیمتی سال ضائع کر دیے۔ میں کیوں بھول گئی کہ زندگی آگے بڑھنے، رنگ کشید کرنے کا نام ہے۔ زندگی تو زندہ دلی سے جینے کا نام ہے۔ زندگی خواب نہیں ،سراب نہیں، عذاب بھی نہیں، زندگی تو گلاب ہے۔‘‘
نمرہ یہ سب فضہ سے نہیں کہہ سکتی تھی ، لیکن کھلی فضا میں سانس لے کر وہ کھل کر مسکرا دی تھی۔