تعلیم کے ساتھ ہنر ضروری ہے

347

جب سے گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوئی ہیں‘ والدین اور پریشان نظر آرہی ہیں‘ ان کی پریشانی کی اصل وجہ ہے بچے اور ان کی فراغت۔ اس فراغت کو مشغولیت میں تبدیل کرنے کے لیے تمام والدین نے کچھ نہ کچھ سوچ رکھا ہے۔ بہت سے والدین ایک دوسرے سے مشورے کر رہے ہیں کہ چھٹیوں میں کون سا سمر کیمپ اچھا ہے‘ کس علاقے میں ہے اور وہاں کیا کیا مشاغل ہیں۔ اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے لوگوں نے اپنا اپنا سمر کیمپ کھول لیا ہے‘ کیا برا ہے اگر دو پیسے ہاتھ میں آجائیں تو آخر کو بچوں کو ہی سنبھالنا ہے۔ اسی بنیاد پر واٹس ایپ پر ایک خاتون کی پوسٹ نظر سے گزری جس میں انہوں نے بہت مزے مزے کی تراکیب بتائی تھیں جن کے ذریعے مختلف عمر کے بچوں کے گھروں میں مصروف رکھا جائے مگر اس کے لیے ظاہر ہے والدین کو بھی ساتھ لگنا پڑے گا جو کہ اکثر والدین نہیں چاہتے۔
اس معاملے میں والدین میانہ روی اختیارکریں بہتر ہے کہ بچوں کو گھر میں مصروفیات دیں‘ روٹی بنانا سکھائیں‘ پینٹنگ میں ہاتھ صاف کرائیں‘ باغ بانی کرائیں‘ ان کی پسند کے آسان آسان کھانے بنانا سکھائیں جیسے میکرونی‘ چائے‘ چاول اور فرنچ فرائز وغیرہ۔ لڑکیوں کو ضرور باہر کھیلنے بھیجیں‘ کمپیوٹر اور وڈیو گیمز میں ہرگز وقت برباد نہ کرنے دیں نہ ہی ٹی وی کا بے جا استعمال کروائیں۔ سمر کیمپ میں اگر ڈالنا چاہتے ہیں تو وہاں کی مصروفیات ضرور دیکھ لیں اگر کوئی ٹیلنٹ سکھا رہے ہیں جیسے سوئمنگ‘ بیڈ منٹن‘ سلائی کڑھائی‘ کراٹے وغیرہ تو بہترہے ورنہ پڑھائی وغیرہ تو اسکول میں بھی چلتی رہتی ہے۔
پچھلے دنوں ایک ٹیچر جو کہ سیکنڈری کلاس کو پڑھاتی تھیں‘ نے سوال اٹھایا کہ کیا بچوں کے لیے اسکول کی پڑھائی اس قابل ہے کہ وہ اپنی آگے زندگی میں کامیابی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرسکیں‘ اور کیا وہ پیسے کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں‘ ان کے مطابق یہ سوال ان کے تین ٹاپ اسٹوڈنٹس نے کیا تھا جو کہ ان کے بہترین شاگرد تھے‘ میٹرک میں ٹاپ کرنے کے بعد انٹر میں 90% امتحان میں لے کر آئے لیکن چھ سال بعد اپنی استانی سے ملنے آئے تو نوکری کی تلاش اور معاش نے انہیں سخت پریشان کر رکھا تھا۔ ان کے مطابق وہ نمبر تو لے لیے تھے‘ ٹاپ کر لیتے تھے لیکن آفس میں انٹرویو کلیئر نہیں کر پاتے تھے۔ ان کو نمبر لینے کی مشین تو بتایا گیا مگر زندگی گزارنا نہیں سکھایا گیا۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام میں ایک بڑا پہلو ہے کہ رٹا سکھاتا ہے اور جوت پیدا نہیں نہیں کرتا‘ لیکن کیا ہم اس سوال کے جواب میں صرف تعلیمی نظام کو برابھلا کر کہہ کر فارغ ہو سکتے ہیں؟ کیوں کہ زندگی تو تجربے کا نام ہے۔ بزرگ کہتے ہیں سونا تپ کر کندن بنتا ہے یا تجربے سے ہم نے سیکھا ہے اس لیے بچوں کو بھی تجربات کی بھٹی میں ڈالیں‘ ان کو کندن بنائیں‘ زندگی تو نام ہی مشکلات کا ہے۔
تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ ٹاپ کرنے والے افراد عموماً زندگی نہیں گزار پاتے‘ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں‘ اس بارے میں ایک مضمون پڑھا جس میں بتایا گیا تھا ایک آئی کیو (I.Q) لیول ہوتا ہے جس کے بارے میں سب ہی نے سن رکھا ہے کہ انٹیلی جنس لیول بہت زیادہ ہے مگر ایک ای کیو (E.Q) لیول ہوتا ہے جسے ایموشنل لیول کہا جاتا ہے‘ اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جو لوگ آئی کیو اور ای کیو دونوں میں اچھے ہوتے ہیں وہ کامیاب لیڈر ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں ای کیو کو سمجھیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے ایموشنز کو کتنا کنٹرول کرسکتے ہیں‘ کیا غصے میں آپ پاگل تو نہیں ہو جاتے‘ کیا اداسی میں خودکشی کی طرف تو نہیں چلے جاتے اور خوشی میں حواس باختہ تو نہیں ہو جاتے اور زیادہ تر ذہین لوگ ای کیو لیول میں کم ہوتے ہیں اس لیے وہ ٹاپ کر جاتے ہیں مگر جب زندگی انہیں جھٹکے دیتی ہے تو وہ سہہ نہیں پاتے اس لیے کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو ای کیو لیول میں بھی آگے لے کر آئیں‘ ان کو سہولیات کا عادی نہ بنائیں‘ ان کی ساری خواہشات پوری نہ کریں‘ ان کو زندگی کے منفی پہلو بھی دکھائیں‘ مشکلات سے نبرد آزما ہونا بھی سکھائیں‘ ان کا ردعمل دیکھیں‘ پر ان کو صبر سکھائیں‘ مشکلات کا حل بتائیں‘ غصے اور غم کو قابو کرنا سکھائیں۔
کچھ عرصے قبل ایک سیلی کون ویلی کے ملینئر کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے والدین نے ان کو میٹرک کی چھٹیوں میں میکنک کا کام سیکھنے پر لگا دیا تھا جہاں سے انہوں نے بزنس کے اصول سیکھے‘ ہم نے سے کتنے والدین ہیں جو ایسا کریں گے؟ یہ سوال ان والدین کے لیے ہے جو اپنے بچوں کو ہنر نہیں سکھاتے‘ سوشل لائف اسکلز نہیں سکھاتے‘ یہ سوچ نہیں بناتے کہ پڑھائی پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں ہے‘ تعلیم تو ہمیں شعور دیتی ہے‘ ہاں معاش کے لیے صرف تعلیم نہیں بلکہ ہنر اورمحنت بھی کام آتی ہے۔ جاپان سے سیکھیں جہاں پانچ سال تک بچوں کو اسکول میں صرف اخلاقیات سکھائے جاتے ہیں‘ زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھایا جاتا ہے‘ دوسروں سے بات چیت کا طریقہ سکھایا جاتا ہے‘ مختلف زبان سکھائی جاتی ہیں اس لیے صرف اسکولوں میں ہی نہیں والدین بھی اس معاملے میں بچوں کو رٹو توتا نہیں بنائیں بلکہ کامن سینس سکھائیں۔

حصہ