سوال :آپ نے بہت طویل عرصہ صلاح الدین صاحب کے ساتھ کام کیا اور بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صلاح الدین صاحب ہی تھے جنہوں نے آپ کی کالم نویسی کی صلاحیت اور انٹرویوز کرنے کی استعداد کو دریافت کیا اور اس کو پروان چڑھایا۔ آپ صلاح الدین صاحب کی شخصیت اور فکر اور ان سے اپنے تعلق کے بارے میں کچھ بتائیے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:صلاح الدین صاحب سے میںنے جرأت، بے باکی اور بے خوفی سیکھی۔ہر مصلحت اور خوف سے بے نیاز ہو کر وہ بات کہوجسے تم دل سے صحیح سمجھتے ہو۔ یہ خوبی میں نے صلاح الدین صاحب سے سیکھی۔وہ منظر میں آج تک نہیں بھول سکتا جب ایم کیو ایم کے دور عروج میں پہلے ان کا گھر جلا اور پھر ان کے ہفت روزہ تکبیر کے دفتر پر حملہ ہوا اور اسے بھی جلا دیا گیا۔ اُس وقت میں ان کے دفتر گیا تھا۔ کتابیں، کرسیاں اور میز سب کچھ جلے ہوئے تھے۔وہ اپنی ادھ جلی کرسی پر بیٹھے ڈان کے حمید ہارون سے ٹیلی فون پر بات کررہے تھے۔اسی رات حمید ہارون، میر خلیل الرحمن اور کراچی کے تمام اخبارات کے مدیران و مالکان الطاف حسین سے ملنے نائن زیرو گئے اور انہیں منانے اور راضی کرنے کی کوشش کی، کیونکہ الطاف حسین کو کراچی کے پریس سے بڑی شکایات تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں جاکر معافی تلافی کی۔ صلاح الدین صاحب ڈان کے حمید ہارون سے کہہ رہے تھے: ’’حمید ہارون صاحب آ پ یقین کریں کہ ان (ایم کیو ایم) لوگوں نے میرا پورا دفتر تباہ کردیا ہے، لیکن مجھے اس کا کوئی ملال نہیں۔ مجھے ملال ہے تو صرف اس بات کا کہ آپ لوگوں نے الطاف حسین کے پاس جاکر اس سے معافی مانگی۔ اس بات کا مجھے جو رنج ہے وہ اپنے دفتر کے جلنے کا بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ بات صحافت کی دنیا میں کسی اور شخص میں نہیں دیکھی۔صلاح الدین صاحب بہت ہی جرأت مند آدمی تھے۔
سوال :آپ نے بہت عرصے تک بچوں کے ایک معروف رسالے کی ادارت بھی کی ہے اور بچوں کے ادب پر آپ کی گہری نظر ہے۔آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ پاکستان میں بچوں کا کس طرح کا ادب لکھا جارہا ہے اور اس کا معیار کیا ہے، اس کے اہم لوگ کون کون ہیں، آپ کن لوگوں کو اہم سمجھتے ہیں، بچوں کی ہماری اجتماعی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:بچے کا ذہن سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔آپ اس پر جو کچھ لکھ دیں وہ تحریر زندگی بھر اس کے ذہن کی سلیٹ سے نہیں مٹے گی۔بچوں کو ایک اچھے ادب کا مطالعہ کرانا کئی اعتبار سے بہت ضروری ہے۔اول یہ کہ جب بچہ کہانیاں پڑھتا ہے، داستانیں پڑھتا ہے، شہزادے اور شہزادی کی کہانیاں، جنوں اور پریوں کی کہانیاں…تو اس کے تخیل کی قوت کو مہمیز ملتی ہے۔ تخیل کیا ہے؟تخیل یہ ہے کہ آپ تصور میں اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو آپ کو آنکھوں سے نظر نہ آرہی ہو۔اس عمل سے ذہن میں ایک اڑان پیدا ہوتی ہے۔بلند پروازی آتی ہے۔ ذہن تخلیقی ہوجاتا ہے۔بچہ جب یہ پڑھتا ہے کہ شہزادہ گلفام ننگی تلوار لیے گھوڑے پر سوا رہو کر شہزادی کی تلاش میں نکلا ہے تو اس ایک جملے سے بچہ پہلے اپنے ذہن میں شہزادہ گلفام کی تصویر بنائے گا۔پھر اسے گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھے گا۔اس کے ہاتھ میں موجود ننگی تلوار کا تصور اپنے ذہن میں لائے گا۔اس طرح اس کا ذہن کام کرنا شروع کردیتا ہے۔آئن اسٹائن سے کسی نے پوچھا کہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے؟اس پر آئن اسٹائن نے جواب دیا کہ بچوں کو ’’فیری ٹیل‘‘یعنی پریوں اور شہزادوں کی کہانیاں پڑھائی جائیں اور اگر آپ ان میں مزید تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو بچوں کو اور زیادہ فیری ٹیلز پڑھائیں۔ ہمارے یہاں یہ تصور آگیاہے کہ یہ سب فضولیات ہیں، خرافات ہیں۔ ہر گز نہیں۔دوسری بات یہ کہ اس سے بچے زبان سیکھتے ہیں۔ الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا ہے۔کہانی لکھنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔پڑھنے لکھنے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔بچپن میں اگر پڑھنے لکھنے کی عادت پڑجائے تو پھر ساری زندگی آدمی پڑھتا رہتا ہے۔کتابیں بدلتی جائیں گی،موضوعات بدلتے جائیں گے، لیکن پڑھنے کی عادت برقرار رہے گی۔چوتھی بات یہ کہ جتنا بھی داستانی ادب ہے اس میں ایک پیغام ہوتا ہے کہ حق اور باطل میں لڑائی ہے۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان معرکہ ہے۔شہزادہ گلفام سچائی اور دیو برائی کا کردار ہے۔ ان میں ٹکراؤ ہے۔ فتح یاب گلفام ہوتا ہے۔ حق فتح یاب ہوتا ہے۔یہ سوچ جب دماغ میں بیٹھ جائے تو اس سے زندگی کے تصورات واضح ہوتے ہیں۔بچے کے ذہن میں لاشعوری طور پر یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اسے بڑا ہوکر شہزادہ گلفام بننا ہے اور بدی کے دیو سے لڑنا ہے۔ ہار نہیں ماننی ہے۔اس سے بچے کے اندرایک بہترین انسان بننے کی تربیت ہوتی ہے۔پڑھنے کے اتنے فائدے ہیں کہ میں گنوانا شروع کروں تو وقت ختم ہوجائے لیکن بات ختم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس بارے میں میری سوچ یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو نااتفاقی، خودغرضی،بے رحمی اور درندگی نظر آرہی ہے یہ ادب نہ پڑھنے کا نتیجہ ہے۔اگر ان لوگوں نے پریوں اور شہزادوں کی کہانیاںپڑھی ہوتیں، ادب کا مطالعہ کیاہوتا تو انسان رہتے، درندے نہ بنتے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سرکاری سرپرستی میں یہ کام نہیںہورہا۔انفرادی ذوق و شوق کے تحت لوگ لکھ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ آگیا ہے کہ پہلے اردو کے جتنے بھی منجھے ہوئے ادیب تھے وہ سب بچوں کے لیے لکھتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی، امتیاز علی تاج، رشید جندل، قرۃ العین حیدر،غلام عباس وغیرہ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔مگر اب المیہ یہ ہوگیا ہے بڑے لکھاریوں نے بچوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔جو لکھنے والے تھے ان کا انتقال ہوگیا ہے۔جیسے میرزا ادیب وغیرہ۔آج کل کے لکھاری بچوں کے لیے نہیں لکھتے۔ادھر اسلام آباد میں ایک دعوۃ اکیڈمی ہے جو بچوں کے ادب پر توجہ دیتی ہے۔وہ ادارہ لکھاریوں کو جمع کرتا ہے۔ انہیں لکھنے کی تربیت دیتاہے۔ انسٹیٹیو ٹ دیتا ہے۔بچوں کے رسالے میں مقابلے کراتا ہے۔ انہیں ایوارڈز دیتا ہے۔ اس ادارے کے افتخارکھوکھر صاحب نے خاصا کام کیا ہے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت اب بھی نکل رہا ہے۔ نونہال پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اس میں مسعود احمد برکاتی صاحب کی بہت زیادہ خدمات ہیں۔اسی طرح جمعیت کا رسالہ ’’ساتھی‘‘بہت اچھا اور معیاری رسالہ ہے۔ ۔ہمارے لکھاریوں کو بھی چاہیے کہ بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھیں۔
سوال :سوشل میڈیا کے استعمال سے سماجی انحطاط بڑھتا جارہا ہے‘ اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: سماجی انحطاط کا سلسلہ تو سوشل میڈیا سے بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا اور سوشل میڈیا تو موجود سماجی انحطاط کا محض ایک مظہر ہے۔ اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ وہ سماجی گھٹن اور اندر ہی اندر جنم لے کر مرجھا جانے والا اضطراب جو اجتماعی نفسیاتی الجھنوں کا باعث بنتا تھا‘ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے غیظ و غضب ناراضی اور مایوسی کے اضطراب اور جذبات کی عکاسی ہو جاتی ہے اور اس عکاسی کے سیاسی و سماجی اثرات بھی ہیں جو مرتب ہو کر بہتر نتائج پیدا کرتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر عمومی معاشرتی احساسات و جذبات اور خیالات کی جو عکاسی ہو رہی ہے اسے سماجی انحطاط سے زیادہ اجتماعی شعور میں رفتہ رفتہ آنے والی پختگی کی علامت سمجھنا چاہیے اور اس میں مایوسی اور تشویش کا کوئی پہلو نہیں ہے۔سوشل میڈیا نے بہت سے نام نہاد مقدس بتوں کو توڑا ہے اور یہ دکھلایا ہے کہ عام آدمی اور اس کی رائے کتنی اہم اور طاقتور ہے۔
سوال :آج کل ماں باپ سے اولاد دور دور نظر آتی ہے‘ یعنی اولاد اور والدین میں ایک گیپ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے‘ کیا یہ فاصلہ ہر دور میں رہا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:اس گیپ کو ماصی میں ’’جنریشن گیپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ والدین جن اخلاقی اور معاشرتی اقدار میں زندگی گزار کر بڑے ہوتے ہیں ان کی اولاد کے زمانے وہ اخلاقی اور
معاشرتی اقدار بڑی حد تک بدل جاتی ہیں۔ چنانچہ والدین اپنے بچوں سے اپنی ہی اقدار کو اپنانے کی تلقین بلکہ اس پہ اصرار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے نئی نسل جو نئی ہوتی ہے‘ وہ کس طرح وہ اقدار جو پرانی ہوگئیں‘ ماضی کی یادگار ہوگئیں انہیں اپنائیں۔گویا یہ زاویۂ نگاہ کا فرق ہوتا ہے کہ والدین کے زاویۂ نگاہ کو انکی اولاد اختیار نہیں کرتی‘ وہ اپنے زاویۂ نگاہ سے چیزوں کو اور معاملات کو دیکھتی ہے۔ یہیںسے اختلاف اور ٹکرائو جنم لیتا ہے والدین اور اولاد میں۔ مثلاً والدین رشتہ داروں کو اہمیت دیتے ہیں اور بچوں کو بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی رشتہ داروں کو اہمیت دیں۔ بچے کہتے ہیں ہمارے دوست رشتہ داروںسے زیادہ اہم ہیں کیوں کہ ان سے زیادہ فرینڈلی ماحول ملتے ہیں اور بوقت ضرورت وہ کام بھی آتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں رشتہ داروں میں کہاں۔ یہ اور اسی طرح پہننے اوڑھنے‘ سونے جاگنے‘ زندگی گزارنے کے انداز اور چلن میں والدین اور ان کی اولاد میں زاویۂ نگاہ کا فرق ایک گیپ یا خلا پیدا کر دیتا ہے۔ اس حقیقت کو والدین اگر سمجھ جائیں تو وہ مسئلے کی گمبھیرتا پر قاپو پا سکتے ہیں۔
سوال :کہا جاتا ہے کہ میڈیا نے بہت ترقی کرلی ہے۔ اگر میں آپ سے یہ سوا ل کروں کہ اس کا فائدہ کس کوہوا تو آپ کاجواب کیا ہوگا؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:میڈیا کی ترقی کا سب زیادہ فائدہ اول نمبرپر مالکان اور میڈیاہاؤسز میں کام کرنے والی چند سیلیبرٹیز کو ہوا ہے۔ باقی وہ افراد جو تکنیکی طور پر بہت اہم سمجھے جاتے ہیں یا جو پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں، انہیں بھی کچھ فائدہ ہوا۔ رہے قارئین اور ناظرین یا معاشرہ… تو انہیں کچھ نہیں ملا۔
سوال :میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈراموں سے نشر ہونے والی خبروں تک، سب پر ایک عام آدمی بھی کوئی نہ کوئی رائے دیتا ہے۔ صحافت کے ایک استاد کی حیثیت سے آپ میڈیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ میڈیا کے پاس دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ وہی کچھ دکھا رہا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: آپ کا اشارہ اگر الیکٹرانک میڈیا کی طرف ہے تو ان میں گہری یکسانیت پائی جاتی ہے۔ بسا اوقات انہیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ نام سب نے الگ الگ رکھے ہوئے ہیں لیکن چینل ایک ہی ہے۔کیونکہ پروگرامات کے اعتبار سے، مواد اور مذاکروں اور مباحثوںکے اعتبار سے، حتیٰ کہ ان میں حصہ لینے والی شخصیات کے اعتبار سے انتہائی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ مجھے تو ٹیلی ویژن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، کبھی کبھی ریموٹ لے کر بیٹھتا ہوں۔ سما پرایک اینکر بیٹھا ہے چار مہمان بیٹھے ہیں۔ افغانستان پر گفتگو چل رہی ہے۔ اے آر وائی پر ایک اینکر اور چارافراد بیٹھے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات پر بات ہورہی ہے۔ اب اس پر کیا سنوں! پھر جیو لگایا تو پتا چلا کہ نجم سیٹھی بیٹھا ہے اور سوالوں کے جواب دے رہا ہے۔ یا کامران خان یا حامد میر… اور وہی ملتے جلتے موضوعات، شخصیات کی یکسانیت، وہی شیخ رشید،خواجہ آصف ،شہباز گل ، ۔ بعض اوقات تو ایک ہی لباس پہنے ایک کے بعد دوسرے ٹی وی چینلز کے پروگرام میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ میں آپ کو ناموں کی ایک فہرست دے دوں گا، آپ جب بھی ٹیلی ویژن کھولیں گے آپ کو وہی چہرے نظر آئیں گے۔ ان کے خیالات سے میں اتنا واقف ہوگیا ہوں کہ آپ ایشو اور جواب دینے والے کا نام بتائیں میں اس کے خیالات بتادوں گا۔ اتنی یکسانیت ہوگئی ہے کہ لوگ اکتا گئے ہیں۔ اس لیے کوئی نیا خیال، نئی معلومات، نیا تجزیہ، نئی فکر نہیں آرہی۔ جب یہ صورت حال ہوگی تو ذہن ارتقائی منازل کیسے طے کرے گا؟ نئی فکر کہاں سے آئے گی؟ کیونکہ جتنے لوگ میڈیا پر بیٹھے ہیں سب کے سب اوسط ذہنی سطح کے لوگ ہیں۔ اوسط درجے کا علم رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے جس نے پاکستان اور یہاں کے معاشرے کو درپیش مسائل کا گہرائی و گیرائی سے حقیقی تجزیہ کیا ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ ہی معلوم نہیں ہے۔ان سے اگر پوچھیںکہ 50 کی دہائی میں کیا ہوا؟55،56 میں کیا ہوا؟62 میں کیا ہوا ؟حتیٰ کہ71میں کیا ہوا ؟انہیںنہیں پتا!یہ صرف آج کے بارے میں جانتے ہیں۔چائیں، چائیں، چائیں، چائیں کرتے نظر آئیں گے۔انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ایک بات کررہا ہوتا ہے، دوسرا درمیان میں بول پڑتا ہے۔ چیخنے چلاّنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوںکو ہمارے چینلز پروموٹ کررہے ہیں۔ اس سے معاشرے کو کیا فائدہ ہوگا؟ لوگ اتنے بے زار ہیں کہ ’’اردو کانفرنس‘‘ میں جب میں نے ’’پاکستانی معاشرہ اور ذرائع ابلاغ‘‘کے موضوع پر یہ بتایا کہ پاکستانی معاشرہ یہ ہے اور ذرائع ابلاغ یہ ہیں تو اتنی تالیاں بجیں کہ ہر فقرے پر تالیاں بجتی رہیں۔ میں نے واضح طور پر کہاکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اپنے معاشرے کی قطعی طور پر ترجمانی نہیں کرتے، ان کے تو مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔ انہیں معاشرے کے مسائل کا ہی پتا نہیں۔ میں جب مقالہ پڑھ کر بیٹھا تو ایس ایم ایس آنے لگے۔ مجھ سے ملنے لوگ کراچی یونیورسٹی آئے۔ اس میں میرے مقالے کی خوبی نہیں تھی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے ان کے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔ لوگ ان چینلز سے، اس میڈیا سے بالکل بے زار ہیں، مگر کوئی بولنے کی ہمت نہیں کرتا۔ میڈیا سے کون لڑائی مول لے! دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کون کرسکتا ہے! اس لیے میں میڈیا سے بہت مایوس ہوں۔
اب اس پر آتے ہیں کہ میڈیا کیا دکھا رہا ہے۔آپ مجھے ایک بات کا جواب دیں کہ یہ انکشاف آپ کو کب اور کیسے ہوا کہ جو کچھ آپ دکھا رہے ہیں وہی عوام دیکھنا چاہتے ہیں؟کیا آپ نے کوئی سروے کرایا؟ کوئی سوالنامہ تقسیم کیا؟ کوئی تحقیق کی؟ لوگوں سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کسی تحقیق، کسی سروے،کسی تجزیے یا کسی سوالنامے کو تقسیم کیے بغیر آپ نے یہ بات کیسے کہی؟ دراصل یہ لوگ ایک مفروضے کو آڑ بناتے ہیںکہ عوام یہ چاہتے ہیں۔ عوام کیا چاہتے ہیں؟ اس پر آپ اگر ان سے زیادہ بحث کریں تو کہیں گے کہ عوام کے ٹیلی فون آتے ہیں۔کتنے ٹیلی فون آتے ہیں! دس، بیس، پچیس، پچاس؟ کیا پچاس لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں؟ یہ جو پچاس لاکھ افراد ٹی وی دیکھتے ہیں کیا ان سے کبھی پوچھا کہ ہم جو کچھ دکھا رہے ہیں آپ دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ یہ جھوٹ ہے۔ یہ کاروباری حرص و لالچ کے شکار لوگ ہیں۔ اپنی سوچ کی تکمیل کی خاطر یہ معاشرے کو ذہنی طور پر، اخلاقی طور پر، دینی طور پر، ہر اعتبار سے کرپٹ کررہے ہیں۔ اور اس مفروضے کہ ’لوگ یہ چاہتے ہیں‘ کو کرپشن کا جواز بناتے ہیں۔ عوام ہرگز یہ سب کچھ نہیں چاہتے۔ اگر عوام یہ چاہ رہے ہوتے تو میرے مقالے پر اتنی تالیاں ہرگز نہ بجتیں۔ لوگ مجھ سے ملنے نہ آتے۔ عوام یہ سب کچھ بالکل نہیں چاہتے، بلکہ وہ تو اس کرپٹ میڈیا سے تنگ ہیں۔
سوال :آپ ایک طویل عرصے سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ابلاغ عامہ کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس میں داخلہ لینے والوں کی تھیوریکل نالج تو اچھی ہوتی ہے، نظری علم تو ان کے پاس ہوتا ہے مگر عملی تربیت کم ہوتی ہے۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے اور اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے آپ کے خیال میں کیا کیا جانا چاہیے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:یہ بات بالکل صحیح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ٹی وی اسٹوڈیو نہیں ہے۔ اخبار نہیں ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جامعہ اردو، جامعہ پنجاب، ملتان اور سندھ یونیورسٹی میں تو ٹی وی اسٹوڈیو ہے، پھر یہ معاملہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کالجوں سے جامعات میں آنے والے طلبہ کی حالت بہت خراب ہے۔ انہیں تربیت ہی نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا ہرسال جو طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان میں بہت تھوڑے ہی اہل ہوتے ہیں۔ کمیونی کیشن زبان کا کھیل ہے۔ یہاں طلبہ کو زبان ہی نہیں آتی۔ ٹی وی چینل کے لیے اچھی گفتگو آنی چاہیے۔ الفاظ کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ مذکر مونث کے فرق کا فہم ہونا چاہیے۔ ش ق ٹھیک ہونی چاہیے۔ چاہے اخبار سے ہی وابستہ ہوں زبان جانتا تو ضروری ہے۔ مگر یہاں کالجوں سے آنے والے طلبہ و طالبات کا حال یہ ہے کہ الف سے عورت اور آصف زرداری ع سے لکھتے ہیں۔۔ بچپن سے عادت ہو تو پھر اخبار پڑھنا بھی آسان ہوجاتا ہے) تو وہ کیا جان سکے گا کہ صحافت کیا ہے؟ والدین اور اساتذہ عادت نہیں ڈالتے۔ عادت کیسے ڈالیں گے؟ استاد خود ہی نہیں پڑھتا! تدریس سے وابستہ ہوئے مجھے پچیس، تیس سال ہوگئے ہیں، مجھے یاد نہیں کہ ان پچیس، تیس سالوں میں اساتذہ سے اپنی محفل میں کبھی کسی نئی کتاب پر گفتگو ہوئی ہو۔ اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اساتذہ نہیں پڑھتے۔ کوئی آدمی اگر پڑھتا ہے تو اس کا اثر ظاہر ہوجاتا ہے۔آپ اگر خود کتاب نہیں پڑھیں گے تو اپنے شاگرد سے کیونکر پوچھ سکیں گے کہ تم نے شیخ مجیب الرحمن کی سوانح عمری پڑھی ہے؟ اس لیے جب استاد ہی نہیں پڑھے گا تو طالب علموں سے سوال کیا کرے گا؟ اور کیا پڑھائے گا؟ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ طالب علم کے اندر علم کی پیاس پیدا کردے۔ استاد اگر یہ کام کرلے تو باقی کام طالب علم خود ہی کرلے گا۔ اس لیے جامعہ کے استاد کا بنیادی کام طالب علم میں ’’تھرسٹ آف نالج‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کتاب سے اس کا رشتہ جوڑنا ہے۔ لیکن جب اس کا اپنا رشتہ ہی قائم نہیں ہے تو وہ طالب علم کا رشتہ کتاب سے کیسے جوڑے گا؟
سوال :ایک وقت تھا کہ آپ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔جسارت سے طویل عرصہ وابستہ رہے۔ پھرآپ کے بارے میں یہ اطلاع آئی کہ آپ تصوف کے کسی سلسلے میں چلے گئے، احمد جاوید کے ہاتھ پر آپ نے بیعت کرلی، پھر کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ وہ بیعت آپ نے ختم کردی ہے۔ تو اس کا کیا پس منظر ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:اصل بات یہ ہے کہ ادب میں حسن عسکری اور سلیم احمد صاحب کو اپنے دو معنوی استاد کہتا ہوں۔ دونوںکی زندگی میں ایک ہی چیز میںنے دیکھی ہے: صداقت اور سچائی کی تلاش، اور اسی کی جستجو میں لگے رہنا۔ عسکری صاحب نے تو یہ تک لکھا ہے کہ کوئی نیا خیال، نیا تصور، نیا مؤقف یا نیا نکتہ نظر اگر مجھ قائل کرلے تو میں بڑی بے شرمی سے اپنی رائے بدل لیتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معیارِ حق میری ذات نہیں ہے۔ حق، صداقت اور سچائی میری ذات سے باہر کہیں وجود رکھتے ہیں۔ مجھے ان تک پہنچنا ہے۔ سچائی تک پہنچنے میں بہت سے مراحل آتے ہیں۔ اس میں جھوٹ، مبالغہ، ابہام، غلط راستہ سب کچھ ممکن ہے۔ یہ آدمی کا علمی، فکری اور روحانی سفر ہوتا ہے۔ ہم مسافر ہیں۔ ہم نکلے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی سے شروع ہوکر اشرف علی تھانوی تک پہنچے۔ اشرف علی تھانوی سے شاہ ولی اللہ اور پھر وہاں سے مجدد الف ثانی تک پہنچے۔ وہاں سے حدیث اور قرآن پاک تک کا سفر کیا۔ یہ سارے مراحل ہیں۔ جس منزل پر بھی پہنچے اس نے اپنا اثر چھوڑا، لیکن پھر محسوس ہوا کہ یہ منزل نہیں ہے۔ بیعت سے پہلے ہی یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر کو پڑھنے کی وجہ سے دین کی جانب رجحان پیدا ہوگیا تھا لیکن دین کو سمجھنے کا موقع ملا نہ توفیق ہوئی۔ ایک دن پی ایچ ڈی پر تحقیق کے دوران یہ خیال پیدا ہوا کہ اِدھر اُدھر کی کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ ایک کتاب پروردگار نے بھی نازل کی ہے، اسے اب تک نہیں پڑھا۔ قیامت میں اگر رب نے پوچھ لیا کہ میرے بندے تُو نے سارے جہاں کی کتابیں پڑھیں لیکن جو کتاب میں نے اتاری اسے پڑھا ہی نہیں! تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اس سوال نے مجھے قرآن پاک پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کی جانب مائل کیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن ترجمہ اور تشریح کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ اس کا پڑھنا تو غضب ہوگیا۔ گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ خوف، حزن و ملال کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔نمازوں میں باقاعدگی آنے لگی۔ تراویح باقاعدگی سے پڑھی۔ رمضان کا آخری عشرہ آیا تو اعتکاف میں بیٹھ گیا۔ پھر ایک واقعہ ہوا جس کی وجہ سے داڑھی رکھ لی۔ ان حالات پر جسارت یا کسی میگزین میں میرا ایک مضمون ’’قرآن جس نے مجھے بدل ڈالا‘‘شائع ہوا تھا۔ (نئی کتاب میں میرا پہلا مضمون ہی یہی ہے) قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ ’’اگر تم رسول کا اتباع کرو گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کو پالو گے۔‘‘ اس بات نے بے چین کردیا۔ اس کے ادراک کے لیے کئی مفسرین و مفکرین کی کتابیں پڑھیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جیسے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت بڑھتی جائے گی، اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت قریب آتی چلی جائے گی۔ مگر یہ مشابہت صرف ظاہری نہیں بلکہ باطنی اعتبار سے بھی ہو۔ آج کل تو داڑھی، سر پر ٹوپی اور شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حُبِّ رسولؐ کا تقاضا پورا ہوگیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیںہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے غم پر غمزدہ ہوجاتے تھے۔ ہر ایک کے لیے خیرخواہانہ جذبات بنیادی چیز ہے۔ دوسروں کا بھلا چاہنا، دوسروں کی ذات کو ترجیح دینا وغیرہ وغیرہ… یہ باتیں باطنی اوصاف کا حصہ ہیں۔ ان چیزوں نے طبیعت کے اندر ایک انقلاب بپا کیا، ایک تبدیلی اور تغیر پیدا ہوا۔ میرا حلیہ بھی بدل گیا۔ تمام چیزوں میں تبدیلی آگئی۔ اس دوران میں نے بیعت بھی کرلی۔ یہ سلسلہ دو سال تک قائم رہا۔ اس میں بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ پھر میں نے بیعت توڑ دی.
سوال :اگر آپ کو اپنا انٹرویوکرنا پڑے تو وہ کون سے تین سوال ہیں جو آپ خود سے کرنا چاہیں گے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود:خلیل جبران کہتا ہے کہ بخدا کبھی میں لاجواب نہیں ہوا مگر اس شخص کے سامنے جس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ تو میں سب سے پہلا سوال تو خود سے یہ کروں گا کہ اے اجنبی! سچ سچ بتا کہ تو کون ہے؟
دوسرا سوال یہ پوچھوں گا کہ اپنی ناکامیوں پر دوسروں کو موردِ الزام کیوں ٹھہراتا ہے‘ اس کی ذمہ داریاں خود کیوں نہیں اٹھاتا؟
تیسرا سوال کیا اب اردگرد کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس سے تو انٹرویو کرسکے کہ مجبور ہو کر اپنے انٹرویو کی نوبت آگئی ہے؟