”واہ بھئی واہ کیا کہنے، آج تو فریش مال بیچ رہے ہو۔“
”لے جاؤ بھائی صاحب، جنت کے تحفے ہیں، بہت وی آئی پی آم ہیں۔“
”کیا جنت سے سیدھے تمہاری ریڑھی پر آن گرے ہیں؟ اچھا چھوڑو، یہ بتاؤ کیا کلو لگاؤ گے؟“
”ارے بھائی صاحب، مذاق مت کرو، بس لے جاؤ۔“
”پھر بھی بتاؤ تو سہی کلو کے کیا دام ہیں؟“
”گھر کی بات ہے پوچھو مت، 200 روپے کلو بیچا ہے، تم 180 دے دینا۔ سوچو مت، بسم اللہ کرو۔“
”نہیں بھئی اتنی گنجائش کہاں! بہت مہنگے دے رہے ہو۔“
”180 روپے کلو بھی مہنگے ہیں؟ ڈیڑھ سو روپے میں تو کچرا بک رہا ہے، یہ تو ایک نمبر سندھڑی ہے۔“
”نہیں بھیا ابھی نہیں، ایک دو روز میں لے جاؤں گا، ابھی واقعی گنجائش نہیں۔“
”ارے کہا نا، کہ پیسوں کی فکر مت کرو، وہ تو آتے رہیں گے، تم یہ بتاؤ کتنا تول دوں؟“
”بھائی، پیسے کل بھی مجھے ہی دینے ہیں، اور ویسے بھی ادھار لینا اچھی بات نہیں، ابھی جیب اجازت نہیں دے رہی، ایک دو روز میں لے لوں گا۔“
”چلو پھر تمہاری مرضی، اب اس سے کم تو نہیں مل سکتے۔“
”ویسے فرید بھائی، ایک بات تو ہے کہ تم سے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب زیادہ تر گھروں میں فریج نہ تھے۔ اُس زمانے میں آنگن کے کسی کونے میں رکھے مٹکے کا پانی پی کر ہی تازگی محسوس ہوتی تھی۔ اُس وقت والد صاحب جب دفتر سے گھر آتے تو کوئی نہ کوئی پھل ضرور لاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ابو جب آم لاتے تو پانی سے بھری بالٹی یا کھلے برتن میں ڈال دیا کرتے، اور دو سے تین گھنٹے تک آموں کو پانی میں ہی رہنے دیا جاتا۔ پھر رات سونے سے قبل ہم سارے بہن بھائی مزیدار آموں پر حملہ کردیا کرتے۔ بعدازاں آم کی گرم تاثیر کو مارنے کے لیے کچی لسی کا استعمال کیا جاتا جس سے جسم میں ٹھنڈک اور تازگی محسوس ہوتی۔ چونکہ ہم متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے بچپن سے پھل کھانے کا یہی طریقہ دیکھا۔ رفتہ رفتہ خوشحالی آنے لگی اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوتے ہی بازاروں میں الیکٹرونکس اشیاء کی بھرمار ہونے لگی۔ یوں برف خریدنے والے بھی فریج کے مالک بن گئے۔ جیسے جیسے معاشی بہتری آئی، الیکڑونکس چیزیں ایک عام شہری کی دسترس میں آگئیں۔ فرید بھائی! تم یقین کرو مجھے بچپن سے ہی پھلوں کا بادشاہ آم پسند ہے، خاص طور پر سندھڑی کی تو بات ہی نرالی ہے، اس لیے مَیں گھر میں آنے والے فریج کو آم کے گودام کی صورت میں دیکھتا۔ اُس وقت چند روپوں کے عوض آم سے بھری پیٹی مل جاتی تھی،بلکہ سو روپے میں چار سے پانچ کلو درجہ اوّل کا کوئی بھی پھل بآسانی مل جاتا تھا۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے، مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس لیے کوئی پھل کھانا تو درکنار، پاکستان میں بڑے پیمانے پر کاشت ہونے والا میٹھا اور خوش ذائقہ آم بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اب سندھڑی ختم ہونے کو ہے اور چونسا آنے والا ہے، سوچتا ہوں جب سندھڑی نہیں کھا سکا تو چونسا کیسے چکھ پاؤں گا؟ جس تیزی سے آم غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہا ہے ان حالات کو دیکھ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو آموں کی مشہور اقسام سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی کی تاریخ پڑھ کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔
آج کے حالات دیکھ کر سوچتا ہوں کہ پہلے کا زمانہ ہی کچھ اور تھا، مجھے یاد ہے جب آم کے درختوں پر پھول آنے شروع ہوتے تو گھر کے بچے کچے آموں کی تلاش میں لگ جاتے اور کچی کیریاں توڑ کر نمک لگاکر کھاتے، جبکہ امی لکڑی کی ایک موٹی سی پٹی پر جڑے سروتے نما بڑے سے اوزار کی مدد سے کیری کو چار حصوں میں کاٹتیں، اور جب ڈھیر ساری کیریاں کٹ جاتیں، تو انہیں گھر کی چھت پر پھیلی دھوپ میں سُکھانے کے لیے ایک چارپائی پر چادر ڈال کر صبح سے شام تک کے لیے رکھ دیا جاتا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد چینی مٹی کے بنے سفید اور زرد رنگ کے مرتبانوں میں ان کا اچار ڈال کر رکھ دیا جاتا۔ اس اچار کا کچھ حصہ عزیز واقارب کے گھروں میں بھی بھیجا جاتا، یوں سال چھ مہینے تک یہ اچار مزے لے لے کر ہر کھانے کے ساتھ کھایا جاتا۔ جب سے گھروں میں لگے آم کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں تب سے گھر میں اچار ڈالنے کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے جب کیریاں بازار سے خریدنا پڑیں اور مصالحوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوں تو بھلا کون اچار ڈال سکتا ہے!“
”میاں آپ اخبار میں لکھتے ہیں، میں آم والا ہوں کوئی لکھاری نہیں۔ آپ نے تو آم کی پوری تاریخ بیان کردی ہے۔ بھائی صاحب! کس دور کی بات کررہے ہیں؟ پہلے ایسا ہوتا تھا، اب زمانہ بدل گیا ہے، اِس دور میں ایسا نہیں ہوتا لیکن گاہک تو یہی سمجھتا ہے کہ یہ مہنگائی ہم نے کی ہے۔ بھائی صاحب! مال پیچھے سے ہی مہنگا آرہا ہے، آم ہی نہیں ہر چیز کے دام بڑھ چکے ہیں۔ آپ کراچی شہر کے رہنے والے ہیں اس لیے حقیقت سے لاعلم ہیں کہ گندم، چاول اور مختلف اقسام کے پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے آڑھتی سمیت مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کا عمل دخل ہے۔ پھل فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ میں چونکہ خود بھی کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ ہوں اس لیے بہتر جانتا ہوں۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے کہ ملتان اور شجاع آباد کے مختلف علاقوں میں ایک ادارے کی جانب سے بنائی جانے والی رہائشی اسکیم کے سلسلے میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر لگے آم کے درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس کو چھوڑئیے، میرے آبائی علاقے کو ہی لے لیجیے، کسی دور میں ہمارا علاقہ بہت زرخیز اور سرسبز و شاداب تھا جہاں کبھی لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے، وہاں بھی اب ہر طرف مکانات دکھائی دیتے ہیں۔ یہ 15 برس پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر گندم اور چاول سمیت مختلف فصلیں کاشت کی جاتی تھیں، لیکن اب یہ زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ شہر کے قریب ہونے کے باعث نامور بلڈرز نے اس زمین کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اسے مہنگے داموں خریدنا شروع کردیا تھا۔ فصلوں میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں گزشتہ برس تک 1800 ایکڑ زرعی رقبے پر گندم کاشت ہوئی تھی، لیکن رواں برس یہ سکڑ کر 1600 ایکڑ رہ گئی ہے، کیوں کہ 200 ایکڑ زمین مزید ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے خرید لی ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے گاؤں کا نہیں، بلکہ یہ صورتِ حال کم و بیش پنجاب کے دیگر دیہات اور شہروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جی ٹی روڈ کے ساتھ آباد علاقوں کی صورت حال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہوتی جارہی ہے۔ آپ گوجرانوالہ سے لاہور یا فیصل آباد سفر کریں تو سڑک کے دونوں طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور فیکٹریاں ہی دکھائی دیں گی۔ جو لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں جن زمینوں کی قیمت 30 سے 40 لاکھ روپے فی ایکڑ ہوا کرتی تھی وہ اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے فی ایکڑ ہے، جبکہ بعض علاقوں میں تو ریٹ دو سے تین کروڑ فی ایکڑ تک جا پہنچے ہیں۔ ایسے میں کاشت کار فصلیں لگانے کے بجائے زمینیں فروخت کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ پہلے کا کاشت کار زرعی زمین کو ماں کا درجہ دیا کرتا تھا، اُس دور میں زرعی زمین کی تقسیم یا فروخت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا، لیکن آج جتنی تیزی کے ساتھ زرعی زمینیں فروخت کی جارہی ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور حکومت کی جانب سے اس پر پابندی عائد نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمیں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود تمام اشیائے خور و نوش بیرونی ممالک سے منگوانا پڑیں گی۔ ظاہر ہے جب چیزیں دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑیں گی تو لازمی طور پر اس کا خمیازہ مہنگائی کی صورت میں عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ میرے نزدیک یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے غریب عوام موسمی پھل جیسی نعمت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔“
”اچھا، میں نے بچپن کی کچھ یادیں سنائیں تو تم کہہ رہے تھے کہ آم کی پوری تاریخ بیان کررہا ہوں، اور اب جو تم زراعت پر لیکچر دے رہے ہو اس کے متعلق کیا خیال ہے!“
”نہیں بھائی صاحب تم غلط سمجھے ہو، ناراض مت ہو، میں نے جو کچھ بھی کہا وہ آم کی کاشت میں ہونے والی کمی پر کہا۔ یہ سب بتانے کا واحد مقصد یہ تھا کہ زمینوں کی فروخت کے باعث آم مہنگا مل رہا ہے اور تم برا مان گئے۔“
”کوئی بات نہیں فرید بھائی! میں ناراض نہیں ہوں۔“
فرید اور ارشاد کے درمیان ہونے والی گفتگو کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میرا مطلب ہے آم کی خریداری سے شروع ہونے والی بات کاشت کاری سے ہوتی ہوئی ہاؤسنگ اسکیموں تک آن پہنچی، یا یوں کہیے کہ معاشی مباحثے میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرید بھائی کی باتوں میں خاصا وزن تھا، کیوں کہ پاکستان پہلے ہی اپنے خوراک کے پیداواری وسائل پر آبادی کے شدید دباؤ اور کلائمیٹ چینج کے اثرات کا شکار ہے، وہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ مزید زرعی زمینیں جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہیں انھیں کھودے۔ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے خوراک اور غذائیت کی سیکورٹی کی حکمت عملی کے طور پر شہری زراعت/ کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے اردگرد موجود زراعت کے نظام کی حفاظت کی جائے اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لیے رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے، اور کسی انسانی بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔ اس کے علاؤہ زراعت کے لیے سائنسی بنیاد پر ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جس سے کاشت کار کی آمدن میں بھرپور اضافہ ہوسکے تاکہ وہ پیسوں کے لالچ میں کسی بھی رئیل اسٹیٹ کو اپنی زمین فروخت کرنے جیسے انتہائی اقدام پر مجبور نہ ہوسکے۔ رہی بات بڑھتی ہوئی مہنگائی کی، تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے اور متوسط طبقے کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ سابق حکومت نے اپنے چار سالہ دور میں اس ملک کی معیشت کے ساتھ جو کیا اُس پر کیا جانے والا ماتم اپنی جگہ… جبکہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، یعنی چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا گھریلو صنعتوں سے وابستہ افراد، دہاڑی دار ہو یا سرکاری ملازم… سبھی بلبلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورت حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر اس بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کو فوری طور پر سنبھالا نہ گیا تو خدانخواستہ ہم ایسے معاشی بحران میں پھنس سکتے ہیں جس سے نکلنا ناممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر ہمیں اپنے نظام کی اصلاح کرنی ہوگی، دوسروں کی مدد لینے کے بجائے اپنی مدد آپ کرنی ہوگی، ائی ایم ایف کے معاشی پروگرام کے بجائے معاشی عدم مساوات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ دولت کی تقسیم اور گردش انتہائی غیر منصفانہ ہونے کی وجہ سے یہاں امیر امیر تر جبکہ غریب خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کیسا غریب ملک ہے جہاں ہر سال ایک طرف پُرتعیش کاریں امپورٹ ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف غریب کو پبلک ٹرانسپورٹ تک میسر نہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے اور جمہوریت کا راگ الاپنے کے بجائے عملی طور پر اقدامات کرنے سے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت جیسے بڑے مسائل سے قوم کو نجات دلائی جاسکتی ہے۔