”میرا سفرِ اردو سفرِ عشق ہے۔ عشق ثباتِ خودی کی نہیں تسلیمِ خودی کی راہ ہے جس میں لین کچھ نہیں ”دَین ہی دَین“ ہے۔ اور میں نے تو دیا کچھ نہیں، میری بساط ہی کیا! اور لیا کتنا کچھ۔ اردو میرے لیے ایک زبان نہیں ہے بلکہ جینے کا ایک طور، ایک انداز اور ایک اسلوبِ زیست بھی ہے۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اردو میری ہڈیوں کے گودے میں کیسے اترتی چلی گئی! یقیناً کچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اردو کو ”زبان کا تاج محل“ کہتا ہوں۔ اکثر اس لذت کو اپنے خون کی روانی میں سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، خبر و بے خبری میں محسوس کرتا ہوں۔“ یہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے جو اب نہیں رہے۔
گوپی چند نارنگ اردو سے بے پناہ محبت کرنے والے، عہد ساز محقق، تنقید نگار، دانشور اور ماہرِ لسانیات تھے۔ ہمہ جہت شخصیت نارنگؔ کا گزشتہ دنوں امریکا میں انتقال ہوا، ان کی عمر 91 برس تھی اور وہ شمالی کیرولائنا میں مقیم تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ منورما نارنگ، اور دو بیٹے ارون نارنگ اور ترون نارنگ شامل ہیں۔
قدرت نے گوپی چند نارنگ میں تمام خوبیاں جمع کردی تھیں جسے ادبی دنیا میں تحقیق، تنقید، لسانیات کا نام دیا جاتا ہے۔ لسانیات اور فکشن پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اردو تنقید میں ساختیات اور اُسلوبیات کی بحثوں کی ابتدا کی۔ اقبال، غالب، میر اور انیس پر بہت اور بے مثل کتابیں لکھیں۔ 11 فروری 1931ء کو بلوچستان کے علاقے لورالائی کے قریب واقع دُکی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی مادری زبان اردو نہیں تھی کیونکہ گھر اور خاندان میں سب سرائیکی بولتے تھے، آپ کو اردو ادب سے محبت اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ والد فارسی، سنسکرت، اور اردو کے عالم تھے جن کا پورا نام دھرم چند نارنگ، اور والدہ کا نام ٹیکا بائی تھا۔ گوپی چند نارنگ دس بھائی بہن تھے۔ والد بلوچستان ریونیو سروس میں افسر خزانہ کے عہدے پر تھے۔
گوپی چند نارنگ نے میٹرک 1946ء میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ کوئٹہ کے کالج سے انٹر کیا۔ آپ 1947ء میں بھائی بہنوں اور والدہ کے ہمراہ دہلی چلے گئے۔ جب کہ والد بھی 1956ء میں ریٹائر ہونے کے بعد ہندوستان گئے۔ آپ نے 1956ء میں دہلی کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا، دہلی یونیورسیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے پی ایچ۔ ڈی مقالے کا موضوع ’’اردو شاعری میں ہندوستانی عناصر‘‘ تھا جو 1958ء میں مکمل ہوا۔ تدریسی کیریئر کا آغاز سینٹ اسٹیفن کالج سے کیا۔ آپ نے دہلی یونیورسٹی میں پڑھایا، اس کے علاوہ بطور وزیٹنگ اسکالر یونیورسٹی آف وسکونسن، یونیورسٹی آف مینی سوٹا اور ناروے اوسلو یونیورسٹی میں پڑھایا۔ وہ اردو کے پہلے اسکالر تھے جنھیں ان کے خدمات کے اعتراف میں انڈیا کا اعلیٰ اعزاز پدم بھوشن اور پاکستان کا اعلیٰ سرکاری اعزاز ستارہ امتیاز دیا گیا۔ آپ ساہتیہ اکادمی کے صدر تھے جو انڈیا کی 24 زبانوں میں ہندوستانی ادب کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ تخلیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا، پہلا افسانہ کوئٹہ شہر کے ہفتہ وار اخبار ”بلوچستان سماچار“ میں اُس وقت شائع ہوا تھا جب اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ آپ نے نے ادب، شاعری، تنقید اور ثقافتی علوم پر 64 سے زائد کتب تصنیف کیں۔ ان کتابوں میں45 اردو، 12انگریزی اور 7 ہندی میں لکھی گئی ہیں۔ ان کی تصنیفات کے دیگر کئی زبانوں میں بھی ترجمے کیے گئے۔ خود ان پر اور ان کی ادبی خدمات پر بھی کئی ادیبوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی رسالوں نے آپ پر خصوصی نمبر شائع کیے۔ آپ کی تصانیف میں ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات، ادب کا بدلتا منظرنامہ، ادبی تنقید اور اسلوبیات، امیر خسرو کا ہندی کلام، سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ، اردو افسانہ، روایت اور مسائل، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں، ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت، جدیدیت کے بعد، ولی دکنی، تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر، انیس اور دبیر، بیسویں صدی میں اردو ادب، فراق گورکھپوری، اطلاقی تنقید، سجاد ظہیر، اردو کی نئی بستیاں، اقبال کا فن، فکشن شعریات، کاغذ آتش زدہ، تپش نامہِ تمنا، جدید ادبی تھیوری، غالب، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات شامل ہیں۔
سلیم احمد نے گوپی چند نارنگ سے ملاقات کے بعد لکھا تھا کہ ”ایک ادیب، نقاد اور محقق کی حیثیت سے میں ڈاکٹر صاحب کو برسوں سے جانتا ہوں، لیکن وہ اتنے خوب صورت انسان نکلیں گے، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا، میں تو پہلی ملاقات میں اپنا دل دے بیٹھا ہوں۔“
مشفق خواجہ نے گوپی نارنگ کی تقریر کی دلنشینی کے بارے میں لکھا تھا: ”جب وہ کسی محفل میں گفتگو کرتے ہیں یا جلسے میں تقریر کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے، نارنگ نہیں بول رہے علم بول رہا ہے۔“
آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ”ہندوستان اور پاکستان میں 1970ء کے بعد کی نسل سے کوئی افسانہ نگار ایسا نہیں اٹھا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ یہ اس نسل کا انتظار حسین، انور سجاد یا سریندر پرکاش ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اہم ایشوز پر اب جاکر ذہن صاف ہوئے ہیں اور آئندہ امید کی جاسکتی ہے۔“
اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کے لیے وہ ساری دنیا کا سفر کرتے رہتے اور انہیں سفیرِ اردو کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ وہ پبلک ریلیشن کے آدمی تھے۔ جب وہ پاکستان آئے تو ان سے ڈاکٹر طاہر مسعود نے ایک انٹرویو میں پوچھا: ’’آپ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجیاتی سطح پر بھی فعال رہتے ہیں، آپ کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ آپ ہر سال بھارت میں جو سیمینار کرتے ہیں اور پاکستان سے بھی ادیبوں کو مدعو کرتے ہیں اس میں آپ کی پبلک ریلیشننگ کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے، یہ الزام کس حد تک درست ہے؟‘‘ اس کے جواب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کہا: ’’ایک چیز ہے پبلک ریلیشننگ اور ایک چیز ہے سیلف پروموشن۔ میری پبلک ریلیشننگ اردو کے لیے ہے، اپنی ذات کے لیے نہیں ہے۔ اردو کی خاطر میں ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار ہوں۔ اردو سے میرا جو کمٹ منٹ ہے اس کی خاطر میں ملامتوں کے درمیان زندگی بسر کرنے کو تیار ہوں۔ یہ الزام تو اپنوں کی طرف سے لگائے جاسکتے ہیں لیکن ہندوستان کے ماحول میں غیروں کی جانب سے کیا کیا الزامات لگائے جاسکتے ہیں اس کا بھی آپ تصور کرسکتے ہیں۔ میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو بھی اپنی راہ سے نہیں ہٹتا، اور یہ باتیں سب پیاری پیاری باتیں ہیں۔ زبان سے میرا کمٹ منٹ اس درجہ راسخ ہے کہ میری اپنی ذات، اپنا خاندان، اپنے گھر کے لوگ… ان سب چیزوں کی حیثیت اردو زبان کے مقابلے میں ثانوی ہے۔‘‘
اسی انٹرویو میں آپ نے اپنے لکھنے سے متعلق یہ بھی بتایا تھا کہ ’’ایک راز کی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے بہت سے مضامین ڈکٹیٹ کرواتا ہوں اور ایک ہی نشست میں تقریر کے طور پر دو تین گھنٹے بولتا ہوں۔ بعض چیزیں ذہن میں مہینوں تک پکتی رہتی ہیں، اس کے علاوہ میں کچھ لکھنے کے لیے مہینوں مطالعہ کرتا ہوں، جو کچھ میں بولتا ہوں وہی میں لکھتا ہوں۔‘‘
ادب کی دنیا کے ایک بہترین تخلیق کار اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کی موت پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ پروفیسر خالد محمود نے درست کہا کہ ”ان کی موت نے اردو دنیا میں زبردست خلا پیدا کردیا ہے۔ ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ وہ اتنی بڑی شخصیت تھے کہ اردو دنیا کا ہر فرد افسردہ ہے کیونکہ نارنگ صاحب نے اردو سے محبت نہیں بلکہ عشق کیا تھا۔ اُن کا ہر پَل اردو کے لیے تھا۔ یہ زندگی بھر کا عشق تھا جس میں انہوں نے ہمیشہ اردو کا سر بلند رکھا۔ انہوں نے عشقِ اردو میں اپنی زندگی گزاری اور آخری سانس تک اردو کی خدمت کی، اردو کو دنیا کے کونے کونے میں روشناس کرایا۔ ان کی موت نے اردو دنیا میں سناٹا کردیا ہے۔ ایک شگفتہ، شاداب اور متحرک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔“