383

شعرو شاعری
اے اے سید
فیض احمد فیض
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اِک فرصتِ گناہ ملی،وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

احمد ندیم قاسمی
پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے
ہائے خوابوں کی خیاباں سازیاں
آنکھ کیا کھولی، چمن مُرجھا گئے
اُن کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا
اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے
پھر وہی اختر شماری کا نظام
ہم تو اس تکرار سے اُکتا گئے
آدمی کے ارتقا کا مدّعا
وہ چھُپاتے ہی رہے، ہم پا گئے

مجروح سلطان پوری
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں ، وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اُڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کہہ سکے مرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدحِ شراب میں ڈھل گئے
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمئی بزم سے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے
میرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر مری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
حفیظ ہوشیار پوری
راز سربستہ محبّت کے، زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خُدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرّف ہے تِرے حُسن کا، اللہ الله
جلوے آنکھوں سے، اُترکردِل وجاں تک پہنچے
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزُرے تو یہاں تک پہنچے
ابتدا میں جنہیں ہم رنگ وفا سمجھے تھے
ہوتے ہوتے وہ گلے حسن بیاں تک پہنچے
نہ پتا سنگِ نشاں کا نہ خبر رہبر کی
جستجو میں ترے دیوانے کہاں تک پہنچے
نہ غبارِ رہِ منزل ہے نہ آوازِ جرس
کون مجھ رہرو گم کردہ نشاں تک پہنچے
صاف توہین ہے یہ دردِ محبت کی حفیظ
حسن کا راز ہو اور میری زباں تک پہنچے

جاں نثار اختر
مے کشی اب مری عادت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ بھی اک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
فتنہِء عقل کے جویا! مری دنیا سے گزر
میری دنیا میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
دل میں وہ شورشِ جذبات کہاں تیرے بغیر
ایک خاموش قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں
مجھ کو خود اپنی جوانی کی قسم ہے کہ یہ عشق
اک جوانی کی شرارت کے سوا کچھ بھی نہیں​
تھی کبھی اپنی محبت بھی حقیقت اختر
آج وہ حرفِ حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں

معین احسن جذؔبی
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے​

قتیل شفائی
تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا، کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

خمار بارہ بنکوی
کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے
یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے
یہ چراغ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تو جلا وہ شمع اے دل جو بجھے کبھی نہ جل کے
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

محمد افضل باقی صدیقی
دل کے لیے حیات کا پیغام بن گئیں
بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
آنے لگا حیات کو انجام کا خیال
جب آرزوئیں پھیل کر اِک دام بن گئیں
کچھ لغرشوں سے کام جہاں کے سنور گئے
کچھ جرأتیں حیات پہ الزام بن گئیں
کچھ آرزوئیں کھو گئیں ان کی نگاہ میں
کچھ ٹوٹ کر غم سحر و شام بن گئیں
باقیؔ جہاں کرے گا مری مے کشی پہ رشک
اُن کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں

اکرام حسین خان پرویزؔ شاہدی
ہم سفر بنایا ہے، ہم قدم بنایا ہے
وقت نے مجھے کتنا محترم بنایا ہے
بُت ہزاروں توڑے ہیں لاکھوں ٹکڑے جوڑے ہیں
زندگی نے جب جاکر اِک صنم بنایا ہے
بیکسیٔ دل اپنی دور کی ہے یوں میں نے
دوسروں کے غم کو بھی اپنا غم بنایا ہے
زلف کی طرح اس کو بس سنوارتے رہتے
زندگی کو فطرت نے خم بہ خم بنایا ہے

تو گُل و من خار کہ پیوستہ ایم
بے گُل و بے خار نباشد چمن

مولانا رومیؒ
شعر کاترجمہ
تُو پھول ہے اور میں کانٹا ہوں کہ دونوں باہم پیوستہ ہیں، پھول اور کانٹوں کے بغیر چمن نہیں ہوتا (دونوں باہم موجود ہوں تو چمن کا بھی وجود ہوتا ہے)۔

حصہ