شیر کا بچہ

289

دوسرا اور آخری حصہ
شیر کا بچہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ اسے ایک بڑھئی نظر آیا۔ کیسا عجیب جانور ہے شیر کے بچے نے سوچھا تھادبلا پتلا اور کمزور یہ چار پیروں پے کیوں نہیں چھلتا۔ آپ کون سے جانور ہیں اس نے جواب دیا میں انسان ہوں۔ شیر کے بچے نے کہا میں نے سنا ہے کہ انسان خطرناک ہوتے ہیں۔ ہر کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے مگر ذہین بہت ہوتے ہیں۔ جانوروں کو ہمارے بارے میں غلط فہمی ہو گئی ہے۔ بڑھئی نرمی سے بولا کہو تو میں اپنا کرتب دکھائوں شیر کا بچہ فوراً راضی ہو گیا۔ بڑھئی نے اپنی آری اٹھائی اور درخت سے ایک مضبوط شاخ کاٹ لی پھر اس نے ایک شاخ کو بیچ میں سے چیرا اور ایک سراخ بنا لیا اور پھر شیر کے بچے سے بولا اپنا سر اس میں ڈال دو۔ شیر کے بچے نے جھٹ سر اس میں ڈال لیا۔ پھر اس نے پھرتی سے شاخ کو ملا دیا۔ اور مضبوتی سے درخت کے ساتھ جوڑ دیا اور پھر اپنے اوزار اٹھا کر وہاں سے چل دیا اب شیر کے بچے کو سمجھ آگیا کہ بڑھئی نے کرتب دکھا کر مجھے قید کر لیا جب شام ہو چکی تھی تو شیر کا بچہ دھاڑ دھاڑ کے تھک چکا تھا اور سہما بیٹھا تھا۔ اچانک سے ایک چڑیا جیسی آواز سنائی دی۔ کوئی نئی چڑیا آنکلی ہے۔ بہت خوش معلوم ہوتی ہے اس نے اداسی سے سوچا بجائے چڑیا کے اسے انسان نظر آیا جو چڑیا جیسی آواز نکالتا چلا آرہا ہے۔ شیر کا بچہ ڈر کے مارے دبک گیا۔ مگر سٹی بجاتے ہوئے لکڑہارے نے اسے دیکھ لیا۔ لکڑہارے کو بندھے شیر پر بہت ترس آیا۔ اس نے اپنی کلہاڑی اٹھا کر ایک ہی وار میں آزاد کر دیا۔ شیر کا بچہ چھوٹ کر خوش بھی ہوا اور حیران بھی ہوا جناب آپ تو انسان ہیں آپ کو تو خطرناک ہونا چاہیے۔ آپ نے مجھے آزاد کیوں کردیا۔ آدمی ہنسابات یہ ہے کہ ہم انسان جب ڈرتے ہیں تو خطرناک اورظالم ہو جاتے ہیں مگر جب ہم خوش رہتے ہیں تو رحم دل اور مہربان ہو جاتے ہیں میں اس جنگل میں بہت خوش ہوں پھر مجھے ظلم کرنے کی کیا ضرورت۔

حصہ