بھارت میں بی جے پی کی خاتون رہنما کے بیان پر پہلی بار عرب ممالک کا سب سے مضبوط رد عمل میرے لیے خوشی کا باعث تھا۔ عرب سمیت 17 ممالک نے بھارت کو سخت ردعمل دیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ بھارت نے بھی جواب میں قطر کے سخت رد عمل پر ان کے بائیکاٹ کی مہم چلا ڈالی، قطر ایکسپوزڈ، بائیکاٹ قطرائر ویز جیسے ٹرینڈ چلتے رہے۔ قطر میں بھی ’غضبہ الملیار لرسول اللہ‘ اور الا رسول اللہ یامودی، مقاطعہ المنتجات الاندیا‘کے ٹرینڈ چلتے رہے۔ ایک پوسٹ بڑی مقبول رہی جس میں مودی کو گائے کے پیچھے بیٹھا دکھایا گیا، ان الفاظ کے ساتھ ’’یہ لوگ گائے کو پوجتے ہیں اور گائے کے پچھواڑے کو بابرکت سمجھتے ہیں اور توہین آمیز الفاظ ادا کرتے ہیں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔ اللہ کی قسم جنہوں نے ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ان کی یہی حالت ہوگی۔ کیوں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیرے مذاق اڑانے والوں کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘ بھارتیوں نے اس حد تک بات بڑھائی کہ قطر ائر ویز کے کسی چیف ایگزیکٹیو کی جعلی وڈیو بنا کر وائرل کر دی کہ وہ بھارتیوں سے معافی مانگ رہا ہے اور ٹرینڈ واپس لینے کی گزارش کر رہا ہے۔ یقین مانیں اگر عرب ممالک بڑی ہمت اور منصوبہ بندی سے صرف بھارتی شہریوں کو واپس کردیں تو بھارت 10 د ن میں گھٹنے ٹیک دے گا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ عرب ممالک میں بھارتی شہریوں کی بہت بڑی اکثریت اہم مقامات پر ہے، مگر ظاہر سی بات ہے یہ ایک عارضی سیٹلمنٹ ہوگا، متبادل کے طور پر بنگلہ دیشی، پاکستانی و دیگر ممالک کے مسلمانوں کو ملازمت دی جا سکتی ہے۔ 11 کروڑ ممبران رکھنے والی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بی جے پی نے ظاہری طور پر اپنی خاتون ترجمان نوپور شرما اور دہلی میڈیا سیل کے سربراہ نوین کمار جندال کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر کے تمام عہدیداران کو نبی کریمؐ کے حوالے سے بات کرنے سے روک دیا ہے۔ پاکستان میں بھی حسبِ سابق زبردست رد عمل کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ’من سب نبیا فاقتلوہ‘ سے لے کر سفیر کی ملک بدری تک کے مطالبات بھی جاری ہیں۔ شہر شہر ناموس رسالت مارچ بھی شروع ہو چکے ہیں۔ اس میں زیادہ دبائو تحریک انصاف کی جانب بھی رہا کیوں کہ یہ سوال ازخود پیدا ہوگیا تھا کہ اپنے لیڈر کے لیے جان لٹانے والو، ناموس نبیؐ کی خاطر کیوں خاموشی سے گھروں پر بیٹھے ہو؟
اسی طرح اس ہفتہ ایک سروس مین جن کا ذکر میں نے گزشتہ تحریر میں کیا تھا، وہ کھل کر سامنے آئے اور اسلام آباد میں عمران خان کے حق میں اشاریہ قسم کی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اِس کانفرنس کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں صرف مخصوص صحافیوں کو سوال کی اجازت دی گئی، جس کے بعد ایسے ایسے کلپس وائرل ہوئے کہ مت پوچھیں۔ پیٹرول قیمتوں پر بھی ایک افواہ اِس ہفتہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کا سارا فائدہ صرف پیٹرول پمپ مالکان کو ہوا۔ اِسی طرح سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کو بھی ذہن سازی کے لیے ٹرینڈ بنایاگیا۔
عامر لیاقت حسین موت کے بعد بھی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا ہر موضوع بحث رہے ، ان کے ٹوئٹر پر اپنے اصل نام ’عامر لیاقت حسین‘ کے نام سے اکائونٹ پر 12 لاکھ سے زائد فالوورز جب کہ فیس بک پیج پر ’ڈاکٹر عامر لیاقت حسین‘ کے نام سے بنائے گئے اکائونٹ پر28 لاکھ سے زائد فالوورز کا وزن لے کردنیا سے اس طرح گئے کہ انتقال کے کئی گھنٹوں تک کوئی یہ فیصلہ کرنے والا نہ تھا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کریں کہ نہیں۔ شام تک 50 فالوورز بھی اُن کے گھر جمع نہ ہوسکے۔
لاوارثی کا عالم یہ تھا دوپہر3 بجے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا بیان میڈیا کو جاری ہوا کہ ’’عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم جناح اسپتال میں ہوگا۔‘‘ 4 بجے اطلاع آئی کہ لاش جناح اسپتال کے ایمرجنسی میں پہنچا دی گئی۔ پھر اگلے گھنٹے میں اطلاع آئی کہ گھر والے (بیٹی) نے روک دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کا بیٹا لندن جب کہ بیٹی پاکستان میں ہے۔ بہرحال پوسٹ مارٹم سے اگر کوئی مزید انکشاف ہوتا تو وہ شاید بیٹا، بیٹی کے لیے مزید تکلیف کا باعث ہوتا۔
اہم بات یہ کہ ایمان کی حد تک یہ جانتے ہوئے بھی کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ، اْس کا بڑھاپے یا بیماری سے کوئی تعلق نہیں ، سب کی دل چسپی موت کی وجوہات میں لگی ہوئی تھی۔ جنریٹر کے دھوئیں سے لے کر تمام امکانات تک سوشل میڈیا مختلف کہانیوں کا مرکز بنا رہا۔ اردو انگریزی دونوں زبان میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے تھے، اسی میں عامر لیاقت کی آخری بیوی دانیہ شاہ بھی آگئی۔ ملازم نے بتایا کہ رات کو ہی وہ دبئی سے پاکستان آئے اور خداداد کالونی میں اپنے آبائی گھر میں قیام کیا۔ صبح بجلی گئی تو گھر کے نیچے آکر بیٹھے۔ نشہ کے استعمال کے حوالے سے وقوع پر موجود کئی صحافیوں نے رپورٹ کیا، تاہم موت کے وقت نشہ کیا ہوا تھا یا نہیں‘ اس پر کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی۔ عامر لیاقت کی وڈیوز پہلی بار لیک نہیں ہوئی تھیں، ہر بار ان کے پاس مختلف بہانے تھے، مگر اس بار جس طرح کی وڈیوز لیک ہوئی تھیں اس کے بعد گنجائش نہیں تھی۔ عامرلیاقت کے آخری بیانات کے کلپس چلتے رہے۔ وصیت بھی سامنے آگئی، تدفین کا مقام بھی۔ عامر لیاقت صرف میڈیا ہی کی نہیں بلکہ ایک سیاسی شخصیت بھی تھے، کراچی سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی تھے اور اس سے قبل وہ ایم کیو ایم کے بھی رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔ ’’عالم آن لائن‘‘ کے نام سے میڈیا میں اپنی چرب زبانی کی بدولت ایسا مقام پایا کہ انہیں دین، خصوصاً رمضان المبارک کی اصل روح کو لبرل پیراڈائم میں منتقل کرنے کے بانی کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس کی آج تک تقلید کی جا رہی ہے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ نے اپنے لبرل پیرائے میں عامر لیاقت کے معروف اقدامات کا بہت چھوٹا سا خلاصہ یوں پیش کیا ’ایک پروگرام میں انھوں نے احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ان کا قتل جائز قرار دیا تھا، اسی ہفتے سندھ میں احمدی کمیونٹی کے دو افراد ہلاک ہوئے، ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی تھی۔ جہاد اور خودکش حملوں کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات پر کچھ مذہبی حلقے ان سے ناراض بھی رہے۔ 2005 میں جامعہ بنوریہ کے ایک استاد کی ہلاکت پر جب وہ تعزیت کے لیے پہنچے تھے تو اُنھیں طلبہ نے یرغمال بنا لیا تھا۔ عامر لیاقت جیو کے علاوہ اے آر وائی، ایکسپریس، بول ٹی وی اور 24 نیوز سے بھی وابستہ رہے، رمضان کی خصوصی نشریات کے دوران وہ ہاٹ پراپرٹی تصور کیے جاتے تھے۔ جیو پر رمضان ٹرانسمیشن کے ایک پروگرام میں انھوں نے چھیپا فائونڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا سے ایک لاوارث بچہ لے کر ایک جوڑے کو دیا تھا جس کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام ’انعام گھر‘ میں ان کے بعض جملے اور حرکات کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا گیا، پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے 2016 میں اس پروگرام کو تین روز کے لیے روک دیا تھا۔ بول چینل پر ان کے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ میں انھوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور بلاگرز پر ذاتی حملے بھی کیے، پیمرا نے شہریوں کی شکایات پر یہ پروگرام بند کر دیا اور انھیں عوام سے معذرت کی ہدایت جاری کی۔( واضح رہے کہ مذہبی لبادے میں متذکرہ کام جو بھی سرزد ہوئے ہوں، وہ یا تو فطرتاً سرزد ہوجاتے ہیں یا ریٹنگ و توجہ لینے کے لیے، لیک شدہ وڈیوز اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہیں۔)
اِس ہفتے کا سب سے اہم موضوع جو بیک وقت معاشرتی، سیاسی، مذہبی ،معاشی دائروں پر پوری طرح ضرب لگاتا نظر آیا وہ ’دعا زہرہ کا ٹرینڈ‘ تھا۔ میری چھوٹی بیٹی نے کل مجھ سے اچانک یہ سوال کر دیا کہ ’بابا یہ دعا زہرہ کون ہے۔ اچھی ہے یا گندی؟ پھر پوچھا کہ اس کے بابا اچھے ہیں یاگندے ہیں‘ یقین مانیں میں ہکا بکا رہ گیا، میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ کیس پاکستانی معاشر ت کی چولیں ہلا گیا ہے۔ سندھ حکومت کے کروڑوں روپے ہی نہیں بلکہ ایک آئی جی کو بھی کھا گیا۔ 16اپریل سے غائب ہونے والی کراچی کی ایک لڑکی کا یہ کیس تھا جو عملاً ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد دو دن میں ہی حل ہو چکا تھا۔ اس کیس کو پہلے فرقہ وارانہ بنیادوں پر اچھالا گیا‘ اغوا کا رنگ دیا گیا، تاوان کی بات لائی گئی۔ جب لڑکی کی وڈیو سامنے آئی تو ڈھٹائی کے ساتھ لڑکی کے والدین نے رد کردیا۔ لڑکی کی کم عمری مطلب 14سال عمر بتا کر اس نکاح کو ناجائز قرار دیا (جو لڑکی نے وڈیو میں بتایا ) جو کیس گھر کے اندرحل ہو سکتا تھا، اسے زبردستی چوک چوراہوں یعنی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنایا گیا۔ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ لڑکی کے والدین انٹرویوز پہ انٹرویوز دے کر مظلوم والدین کا کردار نبھاتے رہے۔ جواب میں لڑکی کی ایک اور وڈیو سامنے آگئی جس میں وہ والدین کو ظالم اور اپنے عمل کو درست قرار دیتی ہے۔ والدین اب بھی نہ مانے، کسی نادان دوست کے مشورے پر معاملے کو عدالت لے گئے۔ عدالت بھی سندھ کی، جبکہ معلوم تھا کہ نکاح پنجاب میں ہوا ہے۔ سندھ میں چوں کہ لڑکی کے نکاح کے لیے 18 سال کی عمر کی شرط کا قانون پاس ہوا ہے 2013 میں اس لیے اور سندھ حکومت کی ایک خاتون وزیر شہلا رضا بھی مکمل پشت پر موجود تھیں۔ والدین تھے کہ مان ہی نہیں رہے اور خطرناک گینگ کی گردان شروع کر چکے تھے تو اب یو ٹیوبرز و سوشل میڈیا پر چسکے دار کہانیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ قانون حرکت میں آیا، سندھ کی عدالت نے لڑکی کو عدالت طلب کیا، لڑکی کو لاہور ہائی کورٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔ نکاح نامے کو مبینہ طور پر غلط بھرنے پرنکاح خواں و گواہان گرفتار کیے گئے۔ لڑکی اور لڑکے کی تلاش میں اچھل کود شروع ہوئی۔ ظہیر کے گھر والے بھی لاہور ہائی کورٹ چلے گئے۔ لڑکی کو اس کے سسرال والے مختلف مقامات پر روپوش کراتے رہے آخر ان کو بھی کوئی مشورے دے رہا تھا۔ اس چکر میں بروقت لڑکی عدالت میں پیش نہ کرنے پر سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کی چھٹی کر دی۔ نئے آئی جی نے پھرتیاں دکھائیں اور نو بیاہتا میاں بیوی کو عزت سے کراچی لے آئے۔ جج نے کمرۂ عدالت میں لڑکی سے کلمہ پڑھوا کر پوچھا کہ کیا تمہیں اغوا کیا گیا؟ لڑکی نے صاف منع کر دیا اورکہا کہ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی۔ جج کا تو کام ختم ہوا، عدالت میں اغوا کا کیس داخل تھا اور یہ ثابت ہو چکا تھا کہ اغوا نہیں ہے۔ لڑکی کے والدین لڑکی کی عمر کے سرکاری دستاویزات لہراتے رہے تو عدالت نے نا معلوم کیا سوچتے ہوئے دو فیصلے دیے۔ لڑکی کا میڈیکل ٹیسٹ اور اس کی والدین سے10منٹ کی ملاقات۔ میڈیکل ٹیسٹ 8 جون کو جمع ہونا تھا ، مگر 7 جون کی رات ہی میڈیا پر نشر ہوگیا۔ پوری دنیا کو دعا زہرہ کی ہڈیوں تک کی معلومات مل گئیں اور پتا یہ چلا کہ لڑکی کی عمر 17 سال کے آس پاس بنتی ہے۔ ملاقات کا مسئلہ یہ تھا کہ چشم دید گواہان کے مطابق کمرہ عدالت میں لڑکی نے اپنے ماں باپ کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جب کہ وہ دو فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ والدین کے بچی سے ملنے کی خصوصی استدعا کی تو شاید عدالت نے ماں باپ کی کیفیت دیکھ کر اجازت دے دی۔ دس منٹ کی ملاقات میں بھی ذرائع نے بتایا کہ لڑکی خاموش سر جھکائے بیٹھی رہی۔ مگر باہر نکل کر والدین کا پھر بالکل برعکس دعویٰ تھا کہ گزشتہ روز لڑکی نے بیان کسی دبائو میں دیا تھا ، اب وہ ہمارے ساتھ جانے کا کہہ رہی ہے۔ مگر عدالت کے اپنے طریقہ کار ہوتے ہیں۔ جج کے روبرو بیان ایک ہی دفعہ ہوتا ہے۔ عدالت میں لڑکی کا باپ چیختا رہا کہ رپورٹ جعلی ہے کیوں کہ میری شادی سے پہلے کیسے لڑکی پیدا ہوگئی؟ مگر سب بے سود رہا۔ 10 جون کو دعا ظہیر کو لاہور کی عدالت میں پیش ہونا تھا وہ روانہ ہوگئے۔ لڑکی کا باپ مستقل ظہیر گینگ کرتا رہا ، اس گینگ کی حقیقت بھی کورٹ سے کھلی جس میں سندھ حکومت کے دبائو پر 70 سالہ خاتون، 60 سالہ بزرگ اور 10 افراد کو گینگسٹر بتا کر لاہور سے یہاں لایا گیا تھا‘ جنہیں عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا۔
اس کیس میں ایک جانب والدین کے اولاد سے کمزور تعلق، روایتی خاندانی اقدار کی جگہ لبرل اقدار، موبائل و گیجٹس، لڑکی کی عمر، سندھ کا قانون سمیت کئی امور زیر بحث آئے۔ میں اس پر تفصیلی بات اگلے ہفتے کروں گا مگر ایک پہلو پر سوال کی صورت ضرور بات کروںگا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کب سے، لڑکی کی شادی کی عمر کے تعین کی حدیں مقرر کرنا شروع کیا گیا؟ تحقیق کر کے دیکھ لیں کہ پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ میں کسی بھی تہذیب میں لڑکی کی شادی کی عمر کبھی بھی فکس نہیں کی گئی۔ اپنی دادی سے معلوم کریں، اپنی نانی سے معلوم کریں، اسی برصغیر میں جہاں ہم نے ہزار سال حکمرانی کی وہاں لڑکیوں کی شادیاں 11-12-13 سال میں ہو جاتی تھیں۔ میری دادی نے 90 سال قبل کی معاشرت کا مقبول عام جملہ بتایا کہ اگر لڑکی 20 سال کی ہوجاتی تھی تو طعنہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ ’لڑکی بوڑھی ہو گئی ہے۔‘ اب ذرا معلوم کریں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ہزاروں سال سے کامیابی سے چلنے والی اپنی روایتی معاشرت سے کاٹ کر ’کم عمری کی شادی‘ کو بطور گالی بنا کر ہمیں اپنے ہی تہذیبی پیراڈائم میں نِکوْ بنا دیا ہے ؟