ماں 

317

آج کل جگہ جگہ آغوش اور اولڈ ہومز بن گئے ہیں۔ یہ کوئی خوش آئند بات نہیں۔ مسلم معاشرے میں اتنے اولڈ ہومز دیکھ کر دل دکھتا ہے اور ڈر بھی لگتا ہے کہ ہم بوڑھے ہوں گے تو ہمارے بچے ہم سے تنگ آکر اپنے بچوں اور بیویوں کی وجہ سے ہمیں بھی یہاں نہ جمع کروا دیں۔
بچے تو ابھی سے کہتے ہیں امی آپ ہر وقت بولتی رہتیں اور ڈانٹتی رہتی ہیں‘ منع کرتی ہیں کہ موبائل کا استعمال زیادہ نہ کرو زیادہ، دیر تک گھر سے باہر مت رہو اور ہر وقت کرکٹ نہ کھیلو… ہر کام وقت پر کرو‘ وڈیو گیمز مت کھیلو‘ اندھیرے میں بیٹھ کر موبائل مت استعمال نہ کرو‘ وقت نہ ضائع کرو‘ وقت پر پڑھو… آپ تو اپنے پوتوں اور نواسوں کا جینا مشکل کر دیں گی… تو خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
گھر سے ایک دن دور رہنا کتنا مشکل ہے‘ اپنے گھر کو چھوڑ کر جانا بھی آسان نہیں ہے جس کی ایک ایک اینٹ آپ نے محبت‘ محنت اور اپنی کتنی ہی خواہشوں کی قربانی سے لگائی ہوتی ہے۔ آپ کے خوابوں کا محل آپ سے چھین لیا جائے تو کیسا لگتا ہے جب انہیں اپنے ہی گھر سے بے دخل کردیا جائے۔ کس حوصلے سے لوگ ان اولڈ ہومز میں رہتے ہیں۔ بچوں کو ان کا ماہانہ خرچہ دینا آسان لگتا ہے اپنی جنت کھو کر صرف چند برسوں کے مہمان والدین کی خدمت سے کتراتے ہیں‘ اُنہیں والدین نے پچیس سال تک پڑھایا‘ لکھایا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کی ذمہ داریاں فرض سمجھ کر ادا کیا ہوتا ہے۔ لیکن اولاد مشکل وقت یعنی بڑھاپے میں نظر بچاتی ہے۔ چھوٹا بیٹا بڑے بھائی کی ذمہ داری کہتا ہے‘ بڑا چھوٹے کی یا خدمت بہنیں کریں بہوؤں کی ذمہ داری نہیں۔
والدین اور ماں کی خدمات بھلا دیتے ہیں۔ یہ ان کا امتحان بھی ہو سکتا ہے۔ مگر دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت اپنی ناعلمی اور بے صبری سے کھو دیتے ہیں۔
سنو! ماں جو گرمی سردی، خزاں بہار، دن رات، اور صبح شام ایک پاؤں پر کھڑے رہتی ہے.‘ اپنے جگر کے گوشوں کی دیکھ بھال اور خدمت کے لیے بچوں پر دل وجان سے قربان ہونے کے لیے‘ ماں اولاد پر چھتر چھاؤں بن جاتی ہے‘ دنیا کی گرم ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے‘ ایثار کرنے کے لیے اپنے وجودکو خدمت کے لیے پیش کردیتی ہے۔ اپنی ذات کو کرچی کرچی کردیتی ہے۔ کتنی ہی پڑھی لکھی ہو مگر اپنی پہچان کی نفی کردیتی ہے اولاد کے لیے۔ اگرچہ وہ بہن‘ بیٹی اور بہو بھی ہے مگر ’’ماں‘‘ بننے کے بعد اس رشتے پر کسی اور رشتے کی اہمیت اور رنگ اتنا پکا نہیں چڑھتا جتنا پکا رنگ ماں کے روپ کا ہوتا ہے۔ وہ دو رنگی زندگی ماں کی نہیں ہو پاتی جتنے بھی اس کے جذبات اور احساسات اہم ہوں اپنے خونی رشتوں سے۔ بحیثیت ماں وہ اپنی اولاد کے لیے کسی اور کو ان کی جگہ نہیں دے سکتی۔. بچوں کی تربیت اس کی اولین ترجیح بن جاتی ہے اور یہ رشتہ ماں کو ساری دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے باقی دوسرے رشتوں سے یہاں تک کہ اپنے والدین تک بھی ثانوی ہو جاتے ہیں۔
تو ایسی ماں کی لیے زندگی کا ایک دن خاص اور مختص کرنا ناانصافی ہے۔ پچاس اور ساٹھ سال تک ماں برداشت ہو جاتی ہے جب تک اس میں کام کرنے کی طاقت موجود رہتی ہے۔ جیسے ہی وہ کمزور ہوتی ہے یا اپنے کام کے قابل نہیں رہتی‘ وہ بوجھ اور گھر کا فالتو سامان‘ بلکہ ناکارہ ہو جاتی ہے۔ بہوئوں کے بچے دس‘ بارہ سال کے ہو جاتے ہیں‘ ان کے پائوں مضبوط ہوجاتے ہیں‘ وہ شوہروں کے سر چڑھ کر بولتی ہیں اتنے سال ہوگئے آپ کی ماں کی غلامی اور جی حضوری کرتے‘ اب ہم تھک گئے ہیں۔ اب اُن کا رعب یا قانون نہیں چلے گا‘ اب ان کوچلتا کریں۔ دوسرے بھائی پر بھی ماں کی ذمہ داری ڈالیں نہیں تو اولڈ ہوم بھیج دیں ہمیں بھی سکون چاہیے‘ انہیں خرچا وہاں بجھوا دیں گے۔
مغرب کی تقلید کرتے ہوئے چند روزہ سکون کے لیے آخرت تباہ‘ جنت ہاتھ سے نکل گئی۔ جب کہ ’’شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ والدین کی نافر مانی ہے۔‘‘ (نسائی)رسولؐ نے فرمایا ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘ پھر تین مرتبہ فرمایا ’’اُس کی ناک آلودہ ہو یعنی (ذلیل ہو)‘‘
لوگوں نے پوچھا ’’کس کی؟‘‘
آپ ؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا‘ اُن دونوں میں سے ایک یا دونوں کو پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘(مسلم‘ ابو حریرہؓ) کچھ اولڈ ہومز مردوں کے اور کچھ خواتین کے لیے اب ہر چھوٹے بڑے علاقے میں ہیں اور بعض اوقات ان کو الگ الگ ان او لڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں بڑھاپے میں ان کو الگ کردیتے ہیں۔ کتنا بڑا ظلم اور گناہ ہے ماں کی ایک رات جاگنے کا بدلہ آپ ساری زندگی نہیں ادا کرسکتے‘ وہ کتنی راتیں اور دن آپ کے لیے جاگتی ہے۔ اپنی بیماری بھول کربچوں کی تیمارداری کے لیے جاگتی ہے۔ ایسی ماں کی خدمت کا صلہ تو ہم ساری زندگی نہیں ادا کرسکتے۔
’’دنیا مکافات عمل ہے …آخرت اس کاثمرہے‘‘

حصہ