زہر بھی امرت

315

کہتے ہیں پانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پودے، جانور اور انسان… سب کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، یا یوں کہیے کہ زندگی کا وجود ہی پانی پر ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ انسانی زندگی تو کجا حیواناتی اور نباتاتی زندگی کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہوا کرتی ہے، خاص طور پر کیمیکل زدہ اور سیوریج ملا پانی تو زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے… ایسا زہریلا پانی حلق سے اترتے ہی آنتوں کو زخمی کرنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ زہر جسم کے ایک ایک حصے کو اپنی لپیٹ میں لے کر ناکارہ بنادیتا ہے، جس کے باعث زندگی کی سانسیں ہمیشہ کے لیے رک جاتی ہیں۔ پھر زندگی کا قصہ تمام اور انسان منوں مٹی تلے دفن… نہ بجلی کا جھنجھٹ اور نہ پانی کی طلب… ساری پریشانیوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
ارے ارے گھبرائیے مت، اور نہ ہی اسے پڑھ کر خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے… بس اس بات پر یقین پختہ کرلیجیے کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے! جی ہاں یہی سچ ہے کہ جسے اللہ زندہ رکھنا چاہے، زہر بھی اُس کے لیے امرت بن جایا کرتا ہے۔ یہ جھوٹ نہیں، یقین مانیے بالکل سچ کہہ رہا ہوں، کیونکہ میں لانڈھی کے ایک ایسے سیکٹر سے واقف ہوں جہاں کے مکین پینے کے صاف پانی کے نام پر نہ صرف سیوریج ملا بدبودار پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ مختلف اقسام کے انتہائی زہریلے کیمیکل بھی اپنے جسم میں اتارتے جارہے ہیں۔ ویسے تو واٹر بورڈ کی جانب سے شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کے بجائے سیوریج زدہ پانی کی سپلائی نئی بات نہیں، لیکن اس علاقے میں انتہائی خطرناک کیمیکلز کی سپلائی تو ایک نیا ہی اقدام ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیا ہے جس کے باعث یہاں کے مکین اس زہر کو اپنے جسم میں اتارنے پر مجبور ہیں؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے احمد بھائی کی جانب سے دیا جانے والا بیان ہی کافی ہے، وہ کہتے ہیں:
”ہم پینے کے لیے پانی تو پہلے سے ہی خرید کر استعمال کررہے ہیں، اگر دس پندرہ دن میں گھریلو استعمال کے لیے تھوڑا بہت پانی مل جاتا تھا تو وہ سیوریج زدہ ہوتا تھا، لیکن جب سے نالوں کی صفائی کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا ہے ہمارے علاقے کی جانب جاتی ہوئی پانی کی لائن کی ایسی تیسی کردی گئی ہے، یعنی سیکٹر 36/B کو جاتی یہ لائن جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے مختلف فیکٹریوں سے خارج ہونے والا کیمیکل پانی کی مین لائن میں داخل ہورہا ہے، یوں علاقے کو سپلائی کیا جانے والا پانی سیوریج اور کیمیکلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ جب جب پیسہ بنانے کے لیے نالوں کی صفائی کا ڈراما رچایا گیا یہی کچھ دیکھنے کو ملا، جب بھی ایسی صورت حال ہوئی ہم نے ہمیشہ لانڈھی واٹر بورڈ آفس پر شکایات درج کروائیں لیکن جواب نفی میں ہی آیا۔ متعدد مرتبہ ان خستہ حال لائنوں خصوصاً دس ہزار روڈ سے گزرتی مین لائن کی نشاندہی بھی کی گئی، لیکن ساری کوششیں بے سود و بے کار رہیں۔“
جبکہ 36بی لانڈھی کے ہی رہائشی وسیم صدیقی بھی کچھ اسی قسم کے جذبات رکھتے ہیں، جن کا کہنا تھا:
”ایگزیکٹو انجینئر لانڈھی نہ تو اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں اور نہ ہی فون پر ملتے ہیں، دفتری عملہ کچھ سننے کو تیار نہیں، عوامی نمائندے ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، بلکہ آج کل تو ضمنی الیکشن لڑنے کی مشق کرنے میں مصروف ہیں، انہیں اس مسئلے سے کیا دل چسپی! انہیں عوام کی زندگیوں سے زیادہ ایک سیٹ عزیز ہے۔ خیر ہر کوئی جانتا ہے کہ اس علاقے میں آنے والا پانی انسانی زندگیوں کے لیے انتہائی مضر ہے، جبکہ اس بات سے بھی سب واقف ہیں کہ اگر کبھی سپلائی بہتر ہونے لگے تو یہاں کا پانی بھاری رقم کے عوض ڈائینگ کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا ہے، اعلیٰ افسران ہوں یا والو مین، سب کے بھتے بندھے ہوئے ہیں، واٹر بورڈ عملے کی بے حسی کے باعث ہی دس ہزار روڈ سے گزرتی پینے کے صاف پانی کی لائن نہ صرف خستہ حال ہوچکی ہے بلکہ ڈائینگ کمپنیوں کے لیے نکاسیِ آب یعنی سیوریج لائن بھی بن چکی ہے، ایسی صورت میں کوئی بھی سننے والا نہیں، عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ پانی کے حصول کے لیے علاقہ مکین مجبوراً زمینی بورنگ کروا رہے ہیں، پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ اپنی ضروریات کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کررہے ہیں، لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے زیر زمین پانی انسانی استعمال کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا جاچکا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق عام طور پر 500 ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزالو سالڈ) تک کا پانی انسانی استعمال کے قابل ہوتا ہے، لیکن کراچی کے زیر زمین پانی میں 3 ہزار سے 35 ہزار کے درمیان ٹی ڈی ایس پائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں انسانی زندگی کے لیے ہوا، پانی اور آگ انتہائی ضروری ہیں۔ کے الیکٹرک کی جانب سے کی جانے والی بدترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پنکھے نہیں چلتے، اس لیے ہوا نہیں ہے، جبکہ پانی کراچی واٹر بورڈ نے بند کررکھا ہے، رہی آگ.. تو اس پر بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کا قبضہ ہے۔ یوں ہوا، پانی اور آگ ملے بِنا کراچی کے شہری معجزانہ طور پر زندہ ہیں، بلکہ اپنی زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ افسوس صد افسوس جو شہر معاشی حب ہے اور پورے ملک کو ستّر فیصد ریونیو ادا کرتا ہے وہ بے یار و مددگار ہے، یہ شہر ہر آنے والے دن کے ساتھ مسائلستان بنتا جارہا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلّتِ آب میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہاں کے باسی پانی جیسی بنیادی نعمت سے محروم ہیں، اور حکومت کی جانب سے بجائے محرومیوں کے ازالے کے، پانی جیسی بنیادی سہولت کے نام پر سیاست کی جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے آباد اس شہر کے عوام کا بوند بوند پانی کو ترسنا لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں نلکوں میں پانی کے بجائے ہوا آتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ حکمران شہریوں کو پانی جیسی نعمت فراہم کرنا ہی نہیں چاہتے، تبھی تو اس شہر کے اکثر علاقوں میں کئی کئی ماہ سے پانی کی سپلائی بند ہے۔“
وسیم کی باتوں کے درمیان لقمہ دینے والے صغیر بھائی بھی خوب تھے، مسکراتے ہوئے کہنے لگے:
”بھائی صاحب یہ مسئلہ صرف اس علاقے کا نہیں، پورے شہر کی یہی صورت حال ہے۔ اگر کسی علاقے میں پانی آتا بھی ہے تو وہ انتہائی گندا اور بدبودار ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ واٹر بورڈ کے ذمے دار ملازمین کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی کے باعث لوگ نہ صرف انتہائی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ بعض علاقوں میں تو اس قدر خراب پانی آتا ہے جس میں مختلف قسم کے جراثیم پائے گئے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ہیپاٹئٹس جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اسپتالوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ واٹر بورڈ کے نااہل اور راشی افسران کی وجہ سے اس محکمے کا پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، زیر زمین پائپ لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں، محکمے کی جانب سے نئی پائپ لائنیں بچھانے کا کوئی کام نہیں ہوا، اکثر علاقوں میں سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے مین لائنوں کی حالت بوسیدہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے گندا پانی، پینے کے پانی کی لائنوں میں جا ملتا ہے۔ چونکہ ان لائنوں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام باقاعدگی سے نہیں ہوتا اس لیے یہاں گندے اور بدبودار پانی کی سپلائی کی شکایات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاؤہ ایک وجہ اور بھی ہے، وہ یہ کہ ہر دوسرے شخص نے اپنے گھر کی موٹر مین لائن پر لاکر نصب کردی ہے جس کے باعث نالے سے گزرتی لائنوں میں رساؤ ہوتا رہتا ہے اور جب موٹریں چلتی ہیں تو نالے کا پانی بھی سک ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے۔ اگر ان گھروں تک سپلائی بہتر کردی جائے تو خاصی حد تک سیوریج زدہ پانی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔“
وسیم صدیقی، احمد اور صغیر بھائی کی شکایات اپنی جگہ درست ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کی روزانہ ضروریات کا تخمینہ 918 ملین گیلن ہے، لیکن شہر کو مجموعی طور پر 580 ملین گیلن کے لگ بھگ یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے، جب کہ فراہمی کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے فراہم کیے جانے والے پانی میں سے 174 ملین گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے، اور بہ مشکل 406 ملین گیلن پانی ہی شہریوں کو میسر آتا ہے،جو کہ شہر کی ضرورت کا محض 44 فیصد ہے۔ اس سلسلے میں یہاں کے باسیوں کو سبز باغ تو دکھائے جاتے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اب کے فور منصوبے کو ہی لیجیے، جس کے ذریعے شہر کو مجموعی طور پر 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جانا ہے۔ منصوبے کے مطابق پہلے اور دوسرے مرحلے میں 260، جب کہ تیسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جائے گا،لیکن یہ منصوبہ کم از کم 11 سال سے تاخیر کا شکار چلا آرہا ہے، اور اس پر لاگت کا تخمینہ بھی 15 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سست روی کا شکار اس منصوبے کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے شہریوں کے لیے اضافی پانی کی فراہمی کا یہ منصوبہ بھی فائلوں کی نذر ہونے کے قریب ہے۔ آبی امور کے ماہرین کے مطابق کراچی میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ پانی کی فراہمی کے بوسیدہ اور پرانے نظام میں بہتری لانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کرنا ہوگی، تاکہ شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم ممکن بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ عوام کو صاف شفاف، صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں، سمندری پانی صاف کرنے کے لیے پلانٹ لگائے جائیں اور گھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے پائپوں کو صاف رکھنے کا مستقل نظام بنائیں، چھوٹے پیمانے پر آلودہ پانی کی صفائی کے طریقوں سے آگاہی دینے کے ساتھ شہریوں کو اس سے متعلق سستے آلات اور مشینیں بھی فراہم کی جائیں۔ شہریوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ پانی کا استعمال اعتدال سے کیا جائے۔ ان امور پر عمل کرکے ہی کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں پانی کی شدید قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

حصہ