کوئی احمق ہی ہوگا جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ دنیا بھر میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے وجود سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے بھری دو پہر میں سورج کے وجود سے انکار کرنا۔ کوئی سورج کو کالا قرار دے تو اُس کی نادانی یا منافقت پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ بے روزگاری کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے چشم پوشی خطرناک نتائج کو جنم دے سکتی ہے اور دیتی ہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سب کو مرضی کا روزگار میسر نہیں۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک کے حالات کچھ بہتر ہیں کہ وہاں تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کو صلاحیت و سکت کے اظہار کے چند ایک مواقع میسر ہیں۔ سب سے بُرا حال پاکستان جیسے معاشروں کا ہے جہاں بے روزگاری دن رات عِفریت کی طرح منہ کھولے لوگوں کو ہڑپنے کے لیے تیار رہتی ہے۔
بے روزگاری ہے اور ہم پر اثر انداز بھی ہو رہی ہے مگر ہم نے بے روزگاری کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش شاید ہی کبھی کی ہو۔ ہمیں بے روزگاری تو دکھائی دیتی ہے مگر اِس کے اصل اسباب کیا ہیں؟ اِس حوالے سے دیکھنے کی ہم کوشش نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری بہت حد تک محض حالات کی پیدا کردہ نہیں بلکہ اِس حوالے سے متعلقین بھی ذمے دار ہیں۔
بہت سی فیکٹریوں کے باہر بورڈ لگا ہوتا ہے کہ ’’کاری گروں، محنت کشوں کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ بورڈ کیوں لگانا پڑتا ہے؟ اس لیے کہ لوگ آتے ہیں، نوکری قبول کرتے ہیں، کچھ دن کام کرتے ہیں اور پھر چل دیتے ہیں۔ ملازمت کے لیے جس دل جمعی سے کام کرنا پڑتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتی۔ فیکٹری مالکان خالص کاروباری سوچ رکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی کی کارکردگی سے مطلوب نتائج نہیں مل پا رہے تو وہ اُس سے جان چھڑانے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ سب کچھ ہمیں بہت عجیب لگتا ہے مگر غور کیجیے تو کچھ ایسا بُرا بھی نہیں۔ ہم سب عمومی سطح پر یہی سوچ تو رکھتے ہیں۔ کسی ٹھیلے پر ہمیں سبزی اپنے مطلب کی دکھائی نہ دے رہی ہو تو ہم دوسرے ٹھیلے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ چار پانچ ٹھیلے بھی گھومنا پڑے تو کوئی بات نہیں۔ ہم اشیا اُس وقت خریدتے ہیں جب وہ ہماری مرضی کی ہو۔ کاروباری دنیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کوئی بھی صنعت کار یا تاجر اُنہی لوگوں کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے جو بھرپور دل چسپی کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں، وقت پر آتے ہوں اور اپنا یا دوسروں کا وقت ضائع نہ کرتے ہوں۔ وہ جیسے ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی اُن کی مرضی کا نہیں تو اُس سے جان چُھڑانا اُن کی اوّلین ترجیح بن جاتی ہے۔
آرڈر بُکر یا سیلزمین کی جاب اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دکان دار اب ڈیلر سے تھوک نرخوں پر مال براہِ راست منگوا لیتے ہیں۔ سیلزمین کو گھومنا بھی پڑتا ہے۔ موٹر سائیکل کے لیے پیٹرول کے پیسے الگ سے دیے جاتے ہیں۔ اس طرح کی نوکریاں نکلتی ہی رہتی ہیں کیوں کہ لوگ کچھ کام کرتے ہیں اور پھر اپنی راہ لیتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ کسی بھی شعبے میں ملازمت یا خدمات کی فراہمی کے لیے جو لگن درکار ہوتی ہے وہ خال خال ہے۔ لوگوں میں کام کرنے کا وہ جذبہ نہیں جو آجروں کو مطلوب ہے۔ نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تو ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں۔ کہیں ٹِک کر کام نہیں کرتی۔ محض ایک ڈیڑھ ماہ میں دل بھر جاتا ہے۔ میلے کی سیر جیسی ذہنیت پوری زندگی پر محیط ہوکر رہ گئی ہے۔ اس وقت کارکردگی کے حوالے سے راہ نمائی کا موسم چل رہا ہے مگر ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم کام کے حوالے سے پورے سنجیدہ نہیں۔ بھرپور لگن کا شدید فقدان ہے۔ لوگ راتوں رات بہت کچھ پانا چاہتے ہیں مگر جو کچھ پانا چاہتے ہیں اُس لیے عشرِ عشیر محنت بھی نہیں کرنا چاہتے۔ آج کے نوجوان چاہتے ہیں کہ سب کچھ ایک ساتھ مل جائے۔ اب کوئی بھی معمولی سی نوکری سے آغاز کرکے، سیکھتے ہوئے، مارکیٹنگ کے اطوار سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو چار پانچ سال میں کسی مقام پر نہیں دیکھنا چاہتا۔ اب تو خواہش صرف یہ رہ گئی ہے کہ آنکھ کھلے اور سب کچھ مل چکا ہو۔ عملی زندگی کی ابتدا کرتے ہوئے کچھ سیکھنے کی ذہنیت کو بروئے کار لانے کی خواہش ایک طرف رہی۔ اب تو چُھوٹتے ہی سوال یہ ہوتا ہے کہ تنخواہ کتنی ملے گی؟ کسی بھی معاشرے میں عملی زندگی کی ابتدا چھوٹے پیمانے سے ہوتی ہے۔ جس نے ابھی کچھ بھی نہ کیا ہو اُسے نچلے درجے کی تنخواہ ملتی ہے اور یہ کسی بھی اعتبار سے کوئی غلط بات نہیں۔ اگر کسی نے کسی شعبے میں دس بارہ سال گزارے ہوں اور اُسے ماہانہ پچیس یا تیس ہزار روپے مل رہے ہوں تو کسی نووارد یعنی زندگی کی پہلی نوکری کرنے والے کو وہ تنخواہ نہیں دی جاسکتی۔ اگر کوئی آجر ایسا کرے گا تو اپنے ملازمین کے آپس کے تعلقات خراب کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ فی زمانہ مزدور کی کم از کم تنخواہ پچیس ہزار روپے طے کی جاچکی ہے مگر جب کوئی کہیں کام سیکھنے پر لگتا ہے تو چاہتا ہے کہ اُسے بھی پندرہ بیس ہزار روپے ملیں۔ یہ خواہش بے جا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کام سیکھنے کے دوران پوری توجہ کام سیکھنے پر ہونی چاہیے نہ کہ کمانے پر۔ نئی نسل کا یہ حال ہے کہ عملی زندگی کی ابتدا کرنے کے لیے معمولی رقم کی ملازمت ملے تو اُس پر دوستوں کے ساتھ بزم آرائی یا پھر اسمارٹ فون پر گیم کھیلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ نئی نسل محنت سے یوں بھاگتی ہے جیسے یہ کوئی بیماری ہو جس سے بچنا ناگزیر ہو۔ عمومی سطح پر یہ بھی طے نہیں کیا جاتا کہ کس شعبے میں جانا ہے، کیا کرنا ہے۔ جب شعبہ ہی طے نہ کیا گیا ہو تو دل چسپی کہاں سے پیدا ہوگی؟ عملی زندگی کے لیے تیاری شروع کرنے کی جو عمر ہوتی ہے وہ آج کل فضول سرگرمیوں میں ضائع کی جاتی ہے۔ نوجوان رات رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر کچھ کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے والدین بھی بہت حد تک قصور وار یا ذمہ دار ہیں کہ وہ بچوں کو محنت کی عظمت سے رُوشناس نہیں کراتے، اُنہیں جاں فِشانی سے کام کرنے کی تحریک نہیں دیتے۔ والدین یا خاندان کے بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ جب تک کوئی اچھی نوکری نہیں مل جاتی‘ اُس وقت تک کوئی بھی نوکری کرکے تجربہ حاصل کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ سوشل میڈیا نے نئی نسل کا دماغ خراب کردیا ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی بڑے بڑے خواب دیکھنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تجربے کی اہمیت کو تسلیم اور قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اُن کے ذہن میں صرف یہ بات سما گئی ہے کہ جب تک کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملے تب تک اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا‘ یعنی کوئی معمولی جاب نہیں کرنی۔ آج ملک بھر میں ایسے لاکھوں نوجوان ہیں جو معمولی نوکری کے ذریعے تجربہ حاصل کرنے کے بجائے گھر پر آرام کرنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جن کی آمدن اچھی ہے اُن کی اولاد کو کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہی نہیں۔ جب سبھی کچھ آسانی سے میسر ہو تو خواہ مخواہ محنت کیوں کی جائے! اگر والدین اولاد کو سبھی کچھ بہت آسانی سے فراہم کرتے ہوں تو اُن میں خود کچھ کرنے کی لگن کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے نوجوان کسی بھی نوکری کو یہ کہتے ہوئے لات مار دیتے ہیں کہ ’’ہم اپنے باپ کی تو سُنتے نہیں، تیری کیوں سُنیں!‘‘
ہم بے روزگاری کو ایک ہی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ روایتی زاویہ یہ ہے کہ نوکری ملتی نہیں۔ دوسرا زاویہ یہ کہ آجروں کو اچھے ملازم نہیں ملتے۔ کسی بھی آجر سے پوچھیے کہ افرادی قوت کا معاملہ کیا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ جن کے دل میں کام کرنے کی لگن اور پوری دیانت پائی جاتی ہو ایسے لوگ اب خال خال ہیں۔ لوگ بے روزگاری کا رونا روتے ہیں اور آجر کہتے ہیں کہ ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے جو نوجوان مطلوب ہیں وہ نہیں ملتے۔
معاشی و معاشرتی اُمور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملازمتیں بہت ہیں مگر آج کی نسل اُن پر متوجہ نہیں ہوتی۔ ماحول سے متعلق ٹیکنالوجی، زراعت، مویشی پروری، روایتی ہنر، متبادل توانائی، آبی نظام کا نظم و نسق، ٹرانسپورٹ، کارپینٹری، ویلڈنگ، لوہاری، چرم، آلات کی تیاری اور دوسرے بہت سے شعبوں میں کرنے کو بہت کچھ ہے مگر نوجوان اُس طرف جاتے ہی نہیں۔ اِن شعبوں میں ملازمت بھی کی جاسکتی ہے اور اپنا ذاتی کام بھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کی نسل کو کچھ سیکھنا نہیں، اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا نہیں۔ کوئی بھی ایسے دھندے کو پسند نہیں کرتا جس میں ہاتھ کالے اور کپڑے گندے ہوں۔ سب کو صاف سُتھرا کام پسند ہے۔ سب پنکھے کے نیچے، بلکہ ائر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ تو ممکن ہی نہیں۔ کسی شعبے میں اپنے آپ کو کھپا کر تجربہ حاصل کرنے کی صورت میں مستقبل کو تاب ناک بنانے کی ذہنیت کسی کسی کی ہے۔
نئی نسل جو کچھ سوچتی ہے اُس پر حکومت اور معاشرتی و معاشی امور کے ماہرین کو غور کرنا چاہیے۔ بہت سے بے بنیاد تصورات نئی نسل کی ذہنی ساخت کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ بے بنیاد تصورات اُسے ڈھنگ سے کچھ کرنے نہیں دیتے۔ کوئی خوش فہمیوں کے دائرے میں گھوم رہا ہے اور کوئی غلط فہمیوں کی بُھول بُھلیّاں میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ آج کا پاکستان بے روزگاری کی زد میں ہے۔ ہم نے بے روزگاری کو محض مسئلہ سمجھ لیا ہے، بحران کے طور پر قبول نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کو ماہرین کی مدد سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ بے روزگاری کے نتیجے میں نئی نسل کی بدحواسی بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی بدحواسی جرم پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پاکستان کی دو یا تین نسلیں بے روزگاری سمیت متعدد مسائل کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔
ہم اب تک بے روزگاری کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ حقیقی بے روزگاری وہ ہوتی ہے کہ جب انسان کچھ کرنا چاہے اور کام نہ مل رہا ہو۔ ایسی کیفیت اس وقت کسی بھی معاشرے میں نہیں۔ ہر معاشرے میں چند ایسے شعبے موجود ہیں جن میں افرادی قوت کی کمی ہے کیوں کہ لوگ اُس طرف جا نہیں رہے۔ ہم آج بھی بہت سے شعبوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ بہت سی ملازمتوں کو معمولی نوعیت کی ملازمت قرار دیتے ہوئے اُن سے دور رہتے ہیں۔ نئی نسل بڑھئی کا کام سیکھنے میں خاطر خواہ دل چسپی نہیں لیتی۔ اِسی طور دیگر محنت طلب پیشوں سے دور رہنے کی ذہنیت پنپ چکی ہے۔ لوگ آج بھی سرکاری نوکری کو تمام معاملات سے بڑھ کر مانتے ہیں اور سرکاری نوکری بھی وہ جس میں ہاتھ پاؤں گندے نہ ہوں، کپڑے گندے نہ ہوں۔ کوئی ہنر سیکھنے میں زیادہ دل چسپی نہیں لی جاتی۔ اپنا کاروبار کرنے بھی اجتناب برتنے کا چلن عام ہے۔ نئی نسل کم و بیش ہر اُس پیشے سے بھاگتی ہے جو محنت طلب ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے شعبوں میں محنت زیادہ ہے تو یافت بھی زیادہ ہے۔ ایسے کئی شعبوں سے وابستہ ہونے والوں نے اپنے لیے شاندار زندگی ممکن بنائی ہے۔ عملی زندگی جس نوعیت کی مہم جُوئی مانگتی ہے اُس کے لیے نئی نسل تیار ہی نہیں۔ سبھی اپنے اپنے کمفرٹ زون تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔
آج بھی معاملہ یہ ہے کہ نئی نسل ڈاکٹری، انجینئرنگ، سوفٹ ویئر انجینئرنگ، بزنس مینجمنٹ، فنانس، اکاؤنٹنگ وغیرہ کی تربیت پانے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان شعبوں میں خاصی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد ملنے والی ڈگری بھی نوکری نہ دلا سکے تو نوجوان خود کو بے روزگار قرار دیتے ہیں۔ آج بہت سے شعبے بھرچکے ہیں یعنی اُن میں مزید پنپنے کی گنجائش نہیں۔ ایسے شعبوں میں ملازمت مل