استاد،کالم نگار، افسانہ نگار، صحافی، انٹرویو نگار، تجزیہ نگار، محقق پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود علم اور کتاب کے آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے علم کو عمل کا لباس پہنانے کے بھی کئی تجربے کیے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود28دسمبر 1956 کو سابق مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ والد صاحب کی ’’اردو لائبریری‘‘ کے نام سے کتابوں کی دکان تھی۔ جامعہ ملیہ کالج ملیرسے انٹر کیا۔ جامعہ کراچی سے بی اے آنرز، ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے، جن میں روزنامہ جسارت، ہفت روزہ تکبیر اور مجیب الرحمان شامی کا بادبان شامل ہے۔ روزنامہ جنگ میں کچھ عرصے کالم نگاری بھی کی۔ جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اخبار’’تحریک‘‘ اور طلبہ یونین کے ترجمان ’’الجامعہ‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1984ء میں کراچی یونیورسٹی میں لیکچرر ہوگئے۔ اس دوران آٹھ سال تک بچوں کے مقبول رسالے ’’آنکھ مچولی‘‘ کی ادارت کی، مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ ادب میں حسن عسکری اور سلیم احمد کو اپنا معنوی استاد کہتے ہیں۔آپ کی تصانیف میں یہ صورت گر خوابوں کے (انٹرویوز) جس کا دوسرا حصہ بھی شائع ہوچکاہے ، برگردنِ راوی (کالموں کا مجموعہ)، اردو صحافت کی نادر تاریخ (تحقیقی کتاب)، اردو صحافت انیسویں صدی میں (پی ایچ ڈی کا مقالہ)، دل درد سے خالی ہے (کالموں کا مجموعہ)، گمشدہ ستارے (افسانوں کا مجموعہ)،کوہ دلبراں (خاکوں کا مجموعہ، ’’اردو صحافت انیسویں صدی میں‘‘، اور ’’یہ صورت گر خوابوں کے‘‘ انڈیا میں بھی شائع ہوئی۔ دو کتابیں ’’دل سوز سے خالی‘‘ اور’’اوراق نا خواندہ (شخصی خاکے)ہم اور ہمارا معاشرہ(مضامین)اخبار نویسوں کے حالات(مرتبہ)اردو اور عالمی صحافت کی ایک نادر تاریخ(مرتبہ)شائد میں نے دیر لگادی(شعری مجموعہ)الطاف صحافت(مدیر اردو ڈائجسٹ الطاف حسن قریشی کی صحافتی اور ادبی خدمات)(مرتبہ)مہربان اللّہ کے لئے نظمیں(شاعری)
اردوادب کی موت‘‘ سمیت بیسوں کتابیں ہیں۔آج کل گھر پر ہی لکھنے پڑھنے کے کام مصروف ہیں مختلف اخبارات میں مضامین اور کالم چھپتے رہتے ہیں.حکومت پا کستان نے 2015 میں آپ کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود سے ان کی شخصیت، افسانے، انٹرویونگاری، ادب، ادیب، بچوں کے ادب اور میڈیا سمیت کئی موضوعات پر مفصل گفتگو ہوئی۔ اس انٹرویو سے نہ صرف ان کی شخصیت سے آگاہی حاصل ہوگی بلکہ علم وادب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے یقینا یہ مفید و معلومات افزا ثابت ہوگا۔ انٹرویو نذرِ قارئین ہے۔
…٭…
سوال: اگر آپ سے یہ سوال کروں کہ زندگی کیا ہے‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: فلسفیوں‘ مفکروں اور شاعروں نے اپنے اپنے طور پر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کیا ہے؟ لیکن اس میں کسی جواب کو حتمی اور فیصلہ کن نہیں کہا جاسکتا۔ مثلاً شیکسپیئر نے کہا کہ زندگی ایک احمق کی سنائی ہوئی داستان ہے جس میں شور و غوغا تو بہت ہے لیکن سب بے معنی۔ اردو کے ایک شاعر نے کہا کہ
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
یا ایک اور شاعر نے کہا:
اک معما ہی سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
اسی طرح اور بھی بہت سی تعریفیں ہیں زندگی کی۔ لیکن زندگی اتنی ہمہ جہت‘ بوقلموں اور رنگا رنگی سے عبارت ہے کہ کوئی ایک تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔ مذہبی تعریف یہ ہے کہ زندگی خداوند تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ایک امانت ہے جس کو اسی کے احکامات کے تابع ہونا چاہیے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد بعد وہ یہ امانت واپس لے لے گا اور آئندہ کی زندگی جو موت کے بعد شروع ہوگی اس کا انحصار اس پہ ہے کہ بندے نے خداوند تعالیٰ کے احکامات کے تحت گزاری یا نہیں۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے‘ میں زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد حقیقت اولیٰ کی تلاش اور اس تک رسائی کو سمجھتا ہوں۔ یہ زندگی بے معنی ہے اگر ہم اس وجود اعلیٰ کو نہ جان اور پہچان سکیں جس نے زندگی خلق کی ہے۔
سوال: جب آپ مڑ کر پچھلی گزاری ہوئی زندگی اور اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: کفِ افسوس ملتا ہوں۔ ایک گہرا پچھتاوا بے چین کر دیتا ہے۔ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہیے تھا‘ زندگی کو جیسے گزارنا چاہیے تھا‘ وہ سب اس طرح نہیں ہو سکا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ مختصر سی اس زندگی میں جتنا کچھ کر سکا وہ تو دوسروں سے بھی نہ ہوسکا اورجو کچھ کیا وہ بھی خداوند تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے ہی ہوا تو یہ بڑی ناشکر گزاری ہوگی کہ اپنے کیے کاموں کی قدر و منزلت خود میرے دل میں نہ ہو۔ یہ جب یہ سوچتا ہوں تو وہ قلق جاتا رہتا ہے۔
سوال: آپ کا کتاب سے تعلق گہرا ہےاکثر دیکھا کتاب پڑھتے یا اس پر گفتگو کرتے دیکھا،آپ نے اپنی طویل پیشہ وارانہ زندگی میں کن چیزوں کو پڑھا ہے اور کیوں پڑھا ہے؟ اور اس کاآپ کو کیا فائدہ ہوا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: پڑھنے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ زندگی کے معنی سمجھ میں آگئے۔ ان سوالات پر غور کرنے کی توفیق ہوئی جن پر لوگوں کے لیے سوچنا تو در کنار وہ اس کی بھنک بھی نہیں پا سکتے ہیں۔ میں کیوں ہوں؟ میں زندہ کیوں ہوں؟ میری زندگی کے معنی کیا ہیں؟ میرا معاشرے سے رشتہ کیا ہے؟ کائنات سے رشتہ کیا ہے؟ کائنات کے خالق سے رشتہ کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جنہیں سمجھنے سے میری زندگی میں، میری فکر میں، میرے رویّے میں ایک توازن پیدا ہوا۔ تحریف سے، ترغیب سے، ہوس سے، لالچ سے، حُبِّ جاہ، حُبِّ مال اور حُبِّ دنیا سے بچ گیا۔ پروردگار نے مجھ پر کرم کیا اور مطالعے سے مجھے توفیق دی کہ میرے دل میں ان چیزوںکے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ سب سے اہم چیز صحبت ہے۔ صحبت سے فرد سیکھتا ہے۔ صحبت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کیا نہیں پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر آپ اچھے لوگوں کی صحبت میں نہیں بیٹھیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ پچاس سال کی عمر تک پچیس ہزار ایسی کتابیں پڑھ چکے ہوں گے جو نہ بھی پڑھتے تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس لیے فضول کتابیں پڑھنے کے بجائے وہی کچھ پڑھیں جنہیںکہ پڑھنا چاہیے۔ اس کا اچھی صحبت سے پتا چلتا ہے۔ اس سے ایک ذوق پیدا ہوتا ہے۔ میں نے تقریباً تمام لکھاریوں کو پڑھا ہے۔ منٹو کو اب بھی پڑھتا ہوں۔ کرشن چندر بیدی کو پڑھتا ہوں۔ عصمت کو پڑھا۔ قرۃ العین حیدر کو اب بھی پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔ اب تو زندگی میں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ تھوڑا وقت ہے، اس لیے چاہتا ہوں کہ جو چیزیں نہیں پڑھی ہیں وہ پڑھ لوں۔آدمی شروع میں ناول، فکشن اور شاعری پڑھتا ہے۔ جیسے جیسے شعور اجاگر ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی توجہ سنجیدہ کتابوں کی طرف ہوتی جاتی ہے کہ اب لوگوں نے زندگی کو جس طرح دیکھا یہ ہم نے سمجھ لیا۔ لیکن اب اسکالرز، ماہرین عمرانیات، ماہرین نفسیات، ماہرین سماجیات، مورخ، تاریخ دان یا تاریخ نویس کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے معاشرے کو، دنیا کو، کائنات کو اور انسانوں کو کس طرح دیکھا اور دکھایا ہے، کس طرح سمجھا ہے، ذرا اسے بھی جاننا چاہیے۔ پھر وہ انٹلی لیکچوئل سطح پر ان چیزوں کا تعین کرتا ہے۔ پھر اس کی توجہ بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کی کتابوں میں میری دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے اور چاہنے کے باوجود بہت سے ایسے ناول ہیں جو نہیں پڑھے۔ رکھے ہوئے ہیں، دل چاہتا ہے کہ انہیں پڑھوں لیکن وقت ہی نہیں ملتا۔
سوال: آپ نے افسانے بھی لکھے ہیں،کالم نویسی بھی کررہے ہیں،تحقیق کے شعبے میں بھی آپ نے کام کیا ہے لیکن علمی و ادبی حلقوں میں آپ کی جس چیز اورکام کا ذکر ہوتا ہے وہ آپ کے ادبی انٹرویوز ہیں۔ تواس کی کیا وجہ ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: اس کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کے ادبی انٹرویوز نہیں ہوئے۔سچی بات تو یہ ہے کہ جسارت سے وابستگی کے دوران ادبی صفحے کے لیے میں نے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا اور وہ خاصہ مقبول ہوا۔جب کافی انٹرویو ہوگئے تو ایک دن مجھے صاحبِ کتاب بننے کا خیال آیا۔پھر میں نے سارے انٹرویو مرتب کیے اور اس کے ساتھ جتنی شکایتیں، حکایتیں خطوط کی شکل میں آئی تھیں، انہیں شامل کیا۔ابن الحسن صاحب جو اس دور میں بہت بڑے کالم نگار بھی تھے،سے میں نے دیباچہ لکھنے کی درخواست کی۔انہوں نے بہت ہی اچھا دیباچہ لکھا۔کتاب چھپی تومیری توقع کے برخلاف اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اس پر تعریفی تبصرے شائع ہوئے۔ماہنامہ ہیرالڈ (انگریزی)نے اس پر تبصرہ کیا کہ ’’یہ ایک رجحان ساز کتاب ثابت ہوگی۔‘‘یہ پڑھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی کیونکہ مجھے ایسی کوئی امید نہیں تھی۔لیکن یہ سچ ہے کہ میری کتاب کے بعد ادبی انٹرویوز کی کتابیں آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اس کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں۔اول یہ کہ اس طرح کے ادبی انٹرویوز کی اردو میں کوئی روایت نہیں تھی۔امریکا اور یورپ کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں، اسکالرز اور دانشوروں کے انٹرویوز پر مبنی سلسلہ کتب”Work at Writer”کے نام سے شائع ہوتا تھا۔اس میں جس سے انٹرویو لے رہے ہیں، پہلے اس کا تعارف کرایا جا تا اور پھر سوال جواب کا سلسلہ ہوتا۔ لیکن اپنے انٹرویوز پر مبنی کتاب کی اشاعت سے پہلے میں نے یہ کتاب نہیں دیکھی تھی۔ ایک دن ریگل پرThoma &Thomas (کتابوں کی ایک دکان )گیا تو وہاں اس پر نظر پڑی تو مجھے حیرت ہوئی۔ میں اس کتاب کی پانچ، چھ جلدیں خرید کر لے آیا لیکن وہ انٹرویوز دوسری نوعیت کے تھے۔ میرے انٹرویوز کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگر آپ اسے پڑھ رہے ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویو لینے والا بے خبر نہیں بلکہ جس کا انٹرویو کررہا ہے اس کے خیالات سے، اس کی تصانیف سے بخوبی آگاہ ہے۔ پھر یہ کہ جرأت مندانہ سوالات۔ یعنی انٹرویو لینے والا اس بات سے پریشان نہیں ہوتا کہ سامنے سلیم احمد ہیں، احمد علی یا اختر حسین رائے پوری یا پھر آل احمد سرور ہیں۔ ہر ایک سے (کراس کوئسچننگ) اور اس کی سطح پر آکر سوالات کرنا۔ بعض اوقات مجھے بھی بڑی حیرت ہوتی کہ اُس وقت میری عمر صرف 24،25 برس تھی۔
سوال: تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا کیا پس منظر ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: سوالات کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ میں افسانے تو لکھ ہی چکا تھا لیکن ایک دوراہے پر کھڑا تھا کہ لکھاری(رائٹرز)بنوں یا نہ بنوں؟کیونکہ لکھاری بننے کے لیے لکھاری جیسی طرزِ زندگی کو اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر لکھاری نہیں بن سکتے۔اور پاکستان میں لکھاری جیسی طرزِ زندگی اختیار کرنے کا مقصد فاقہ کشی، بھوک، توہین، تذلیل کے سوا اور کچھ نہیں، جیسا کہ سعادت حسن منٹو اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا۔اس لیے میں پریشان تھا کہ اگر لکھاری کی زندگی اختیار کرتا ہوں تو دنیا ہاتھ سے جاتی ہے۔میرے گھر والے ہیں، آگے چل کر شادی ہوگی، بچوں کی پرورش بھی کرنی ہے۔اگر دنیا ہاتھ سے چلی گئی تو پھر یہ سب کچھ کیسے کروں گا؟تو لکھاری اور اس کی طرز ِزندگی کے حوالے سے بہت سے سوالات مجھے بے چین کیے رکھتے تھے۔اس لیے لکھاری کے بارے میں میرے ذہن میں جو مسائل، مشکلات اور پریشانیاں تھیں وہ میں انٹرویو کے دوران سوالات کی صورت میں سامنے رکھتا تھا۔ مثلاً ایک انٹرویو میں، میں نے سلیم احمد سے پوچھا کہ ’’ آپ یہ بتائیں کہ کیا لکھاری بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی غریب ہو، فاقہ کشی اختیار کرے؟ (اُس زمانہ میں، میں نے قرۃالعین حیدر کو پڑھاتو ا ن سے بہت متاثر ہوا) میرے ذاتی نظریے کے بارے میں سوالات ملیں گے۔ آگ کا دریا کے بارے میں سوالات ملیں گے۔قر ۃالعین حیدر پاکستان چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟اسی طرح ترقی پسند تحریک کے حوالے سے میرے اندر کچھ اعتراضات بھی تھے اور کچھ اعترافات بھی۔اعتراف یہ کہ ترقی پسند تحریک نے عام پڑھنے والوں کو متاثر کیا، انہیں ادب سے جوڑا۔اعتراض یہ کہ ترقی پسند تحریک سے جو ادب پیدا ہوا، ان میں دو چار لکھاریوں کے سوا بیشتر پروپیگنڈا اور نعرے بازی ہے۔ اختر حسین رائے پوری اور مجنوں گورکھ پوری سے انٹرویوز کے دوران میں نے یہ باتیں سوالات کی صورت میں اُن کے سامنے رکھیں۔اس لیے جب میری کتاب چھپی تو علی سردار جعفری جو ترقی پسند تحریک کے بہت بڑے ادیب تھے اور ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی ہے، نے مجھے خط لکھا جسے میں نے بعد کے ایڈیشن میں اپنی کتاب میں شامل بھی کیا۔تیسری بات یہ کہ ایک لکھاری کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہی سوالات میں نے کیے، اس طرح پڑھنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے میں نے وہی شبہات، اعتراضات اور اشکالات ان لکھاریوں کے سامنے پیش کیے جن کی اشاعت کے بعد پڑھنے والوں نے کہا کہ ہاں یہ سوالات تو ہم بھی پوچھنا چاہتے تھے۔ اس طرح کی کئی باتیں ہیں جس کی وجہ سے انٹرویو کا یہ سلسلہ مقبول ہوا۔تاہم انٹرویوز کو سب سے زیادہ الطاف حسن قریشی نے مقبول بنایا۔ انہوں نے اردو ڈائجسٹ میں سیاستدانوں، سربراہانِ مملکت و دیگر لوگوں سے منظم انداز میں انٹرویوز کی شروعات کی۔ مجھے لکھنے، پڑھنے کا شوق اردو ڈائجسٹ کو پڑھ کر ہی ہوا، لیکن میں یہاں انتہائی ادب سے کہنا چاہوں گا کہ الطا ف حسن قریشی کی تحریروں میں رومانویت ہے۔ دوسری بات یہ کہ جس کا انٹرویو کرتے ہیں اس کی تعریف و توصیف میں بہت مبالغہ کرتے ہیں۔اس کی شخصیت، فکر، مؤقف اور کردار کے نقائص بیان نہیں کرتے۔پھر آدمی آدمی نہیں بلکہ فرشتہ یا ولی اللہ لگتا ہے۔میں نے اپنے انٹرویوز میں یہ کوشش کی کہ لکھاری ایک انسان ہے اور اسے انسان کے روپ میں ہی پیش کیا جانا چاہیے۔اس سے غلطیاں ہوسکتی ہیں۔اس کے ادب میں نقائص ہوسکتے ہیں۔ جیسے’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کا بہت ہی مقبول ناول ہے اور اتنا اچھا ناول ہے کہ جب میں نے اسے پڑھا تو کئی دن تک شدید ڈپریشن کا شکار رہا، لیکن جب میں نے بانو قدسیہ سے ملاقات کی تو کہا کہ یہ ناول تو بہت اچھا ہے لیکن اس ایک ناول میں درحقیقت دو ناول ہیں۔ایک کہانی چل رہی ہے کہ دوسری کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے قاری کو جھٹکا لگتا ہے۔ یہ آپ کے ناول کا نقص ہے۔ ایسے بھی لکھاری ہیں جو میرے پسندیدہ اور آئیڈیل تھے جنہیں پڑھ کر متاثر ہوا، لیکن جب انٹرویو کرنے گیا تو متاثر ہوکر یا دب کر سوالات نہیں کیے بلکہ دوٹوک اندازِ گفتگو اختیار کیا۔ جیسے فیض احمد فیض۔ انہیں میں علامہ اقبال کے بعد سب سے اچھا شاعر سمجھتا ہوں۔ میں ان سے بہت متاثر رہا ہوں۔ لیکن جب ان سے انٹرویو کیا تو پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کی شاعری کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ آپ ہر چیز کو، ہر خیال کو، ہر تصور کو، ہر منظر کو خوبصورت بنادیتے ہیں… صرف خوبصورت بنانا تو شاعری کا مقصد نہیں ہے۔ اس پر وہ ناراض ہوئے کہ کل کا بچہ مجھ سے ایسی باتیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر شاعری میں اور کیا ہونا چاہیے؟ میں نے کہا کہ ایک فرد کی زندگی میں ہزار جذبے ہوتے ہیں۔ صرف محبت ہی جذبہ نہیں ہوتا، سو جذبے اور بھی ہیں، ان پر تو آپ نے شعر ہی نہیں کہے؟ اس بات پر وہ اور بھی ناراض ہوئے اور سوال کیا کہ پھر کس نے ان تمام جذبوں پر اشعار کہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ن۔ م۔ راشد نے کہے ہیں، آپ ن۔ م۔ راشدکی شاعری پڑھیں۔ اس بات پر انہوں نے خفا ہوتے ہوئے کہا کہ ن۔ م۔ راشد کی بات کتنے لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے؟ اس انٹرویو کے بارے میں جب شفیع عقیل صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ فیض احمد فیض تو یہ بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ وہ اس انداز میں گفتگو ہی نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ یہ میرا انداز تھا کہ جس نے انہیں غصہ دلادیا۔ ان وجوہات کی وجہ سے میرے انٹرویوز کو لوگوں نے افسانوں اور کہانیوں کی طرح پڑھا اور پسند کیا۔
سوال: آپ نے درجنوں انٹرویوز کیے‘ ان میں سب سے اچھا انٹرویو کس کا تھا اور انٹرویوکا سب سے برا تجربہ کس شخصیت کے ساتھ ہوا؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: میں نے انٹرویو زمانۂ طالب علمی ہی سے شروع کردیے تھے۔ میری زندگی کا پہلا انٹرویو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تھا جو ایک طرح سے پینل انٹرویو تھا لیکن یوں کہ اس انٹرویو میں سارے سوالات میں نے ہی کیے تھے۔ سوال نامہ میں نے خود تیار کیا تھا اور بعد میں اسے لکھنے کا فریضہ بھی میں نے ہی انجام دیا تھا اس لیے اسے میں اپنا پہلا انٹرویو قرار دیتا ہوں۔ رہا سوال سب سے اچھے انٹرویو اور کا توہ سلیم احمد کا تھاجس میں انہوں نے بہت مشکل سوالات کو مشکل موضوع پر اپنے جوابات سے پانی کر دیا تھا۔ سلیمِ احمد صحیح معنوں میں مفکر تھے لہٰذا ان کے جوابات بھی مفکرانہ اور دانش وارانہ تھے۔ انٹرویو کا برا تجربہ تو کسی کا نہیں رہا لیکن یہ ضرور ہے کہ غلام عباس اور محمد خالد اختر ایسی شخصیات تھیں جنہوں نے ہر سوال کا انتہائی مختصر جواب دے کر میرے لیے پریشانی پیدا کر دی۔ ان دونوں شخصیتوں کو کریدنا میرے لیے مشکل ہوا۔ پھر بھی ان کے انٹرویوز میں پڑھنے اور حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہم ا سے ناکام انٹرویو نہیں کہہ سکتے۔
سوال: آ پ کی کتاب کے دیباچہ میں ابن الحسن صاحب نے لکھا کہ سلیم احمد صاحب کا آ پ پر بڑا اثر ہے۔ آپ کی جو فکری وادبی تربیت ہے اس میں سلیم احمد صاحب کی شخصیت کا بہت اہم کردار ہے۔آپ ذرابتائیے کہ سلیم احمد صاحب کی فکر اور شخصیت سے آپ کا کیا تعلق ہے اور وہ کس طرح سے آپ کے علمی سفر پر اثر انداز ہوئے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود: یہ بات درست ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سلیم احمد صاحب کو دیکھ کر، ان سے ملاقات میں اور انہیں پڑ ھ کر جتنا میں نے سلیم احمد صاحب سے سیکھا ہے کسی اور سے اتنا نہیں سیکھا۔ سلیم احمد صاحب سے سب سے اہم بات میں نے اختلاف کرنا اور اسے برداشت کرنا سیکھا ہے۔ان کی صحبت میں دیکھا، کہ وہ ان لوگوں کو بہت پسند کرتے تھے جو ان سے اختلاف کرتے تھے۔ اور جو اُن سے صرف اتفاق کرتے چلے جاتے وہ ایسے لوگوں کو لانے والوں سے کہتے کہ ’’کیا اتفاقی لوگوں کو آپ لے کر آگئے ہیں! یہ کوئی آدمی تھا! کوئی اختلاف ہی نہیں کررہا تھا، ہر بات سے اتفاق ہی کرتا رہا۔ یہ کوئی بات ہے بھلا!‘‘ مگر جو لوگ ان سے اختلاف کرتے تھے سلیم احمد صاحب انہیں غور سے سنتے اور سن کر پھر جواب دیتے۔ تیسری بات جو میں نے ان سے سیکھی وہ یہ کہ جو بات تمہارے دل میں ہے، جو سچائی تم جانتے ہو، بغیر کسی مصلحت، خوف اور لالچ کے اس کا اظہار کردو۔ خوف اور لالچ کا شکار ہوکر اس سچائی کا گلا مت گھونٹو۔ اعتماد نفس کے ساتھ اس کا اظہار کرو۔ کسی سے نہیں ڈرو۔ چوتھا سبق ان سے یہ لیا کہ کسی حال میں اپنی روح کا سودا نہ کرو۔ اداکار محمد علی کی ان سے ریڈیو کے زمانے سے دوستی تھی۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ سلیم بھائی آپ کی بھی معاشی ضروریات ہیں۔آپ کمال کے لکھاری ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ لاہور چلیں۔ ہماری کوٹھی پر رہیں۔ ہم آپ کو فلموں کی کہانی لاکر دیں گے۔ آپ کو ایک فلم کی کہانی کے لاکھوں روپے دلائیں گے۔ لیکن سلیم صاحب نہیں گئے۔ حالانکہ ان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ ریڈیو کے ایک پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازمت کرتے اور کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی روح کا سودا نہیں کیا۔ کالم، فلم، یا ڈراما جیسی کمرشل تحریروں کو وہ سیٹھ کا مال کہتے تھے۔ اس پر انہوں نے کبھی فخر نہیں کیا۔ میں نے اپنے گرد وپیش میں ایسا شخص نہیں دیکھا۔ اس لیے میں انہیں اپنا معنوی استاد کہتا ہوں۔
(جاری ہے)