راز

234

راز کہنا‘ سننا‘ بتانا‘ کتنا دل چسپ معاملہ ہے‘ اس کے پیچھے کتنا تجسس پنہاں ہے۔ ہر کوئی رازدار بننا چاہتا ہے لیکن اس کا پاس رکھنا‘ حفاظت کرنا ہی اصل ذمہ داری ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک شغل کی طرح لیتے ہیں اور ہر جگہ نشر کرتے پھرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف جس کے متعلق راز ہے اس کی عزت نیلام کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے کردار کو بھی مشکوک کر رہے ہوتے ہیں ۔
کتنا اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے جب اپنا کوئی راز محفل کی زینت بنا ہو اور ہر ایک کی زبان سے سن رہے ہو۔ اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ زمین پھٹے اور آپ اس میں سما جائیں۔
لوگوں کی زبانوں میں ہماری کمزوریوں کی تشہیر ہو رہی ہوتی ہے۔ ہم چپ سادھے اپنے اس لمحے کا ماتم کر رہے ہوتے ہیں جب ہم نے کسی کو رازدار بنایا تھا۔ لوگ تو آہستہ آہستہ بھول جاتے ہیں‘ لیکن راز افشا کرنے والے کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔ ساری زندگی کا سبق مل جاتا ہے کہ آئندہ کسی پر اعتبار نہیں کرنا۔
راز دار بنانا اصل میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ بوجھ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی نہیں اٹھاسکتا اگر اٹھا بھی لیا تو کسی جذباتی موقع پر افشا ہونے کا خطرہ سولی کی طرح لٹکا رہے گا۔ لہٰذا اللہ رب العزت سے بڑھ کر کوئی رازداں نہیں جو سنکر ملامت اورطعنے نہیں دیتا اور نہ راز افشا ہونے کا ڈر رہتا ہے بلکہ بندہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے اور یہ بہترین رازداں ہر وقت میسر ہے۔
راز کو اچھالنا ایک دل چسپ مشغلہ بن چکا ہے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی یہ کام انٹرٹینمنٹ کے نام پر کیا جاتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا بھی لوگوں کی نجی زندگی کے راز اچھالنے کا کام بہت احسن طریقے سے کر رہا ہے اور سب سے زیادہ لائک انہی چیزوں میں مل رہے ہیں۔ جتنی مشہور شخصیت ہوگی اس کی نجی زندگی کی کہانیاں مختلف سرخیوں‘ وڈیوز کے ذریعے پھیلا کر زیادہ سے زیادہ کمایا جاتا ہے۔ گویا راز پھیلانا بھی کمائی کا ذریعہ ہے۔ صرف پرموشن کی خاطر ایک خبر کو مختلف طریقوں سے پیش کر کے زیادہ سے زیادہ لائیکس کما کر بزنس کیا جا رہا ہے۔ اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ معاشرے اور خاندان میں فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ معاشرہ آپس کے جھگڑوں اور رنجشوں کدورتوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ یہ اندرونی طور پر ہی ذہنی انتشار کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔ ہمیشہ پُرامن معاشرہ ہی ترقی کرتا ہے اس لیے قرآن نے سورہ حجرات میں ایک پرامن معاشرے کی بہترین صورت گری کی ہے کہ ’’جو آپس میں لڑنے والوں کے درمیان صلح کرواتے ہیں‘ ایک دوسرے کو طعنے نہیں دیتے‘ تجسس یا ٹوہ نہیں لیتے‘ کسی کی غیبت‘ چغلی‘ بہتان نہیں لگاتے‘ بدگمانی نہیں کرتے‘ برے القابات سے نہیں پکارتے‘ بلا تصدیق بات آگے نہیں پہنچاتے۔‘‘
یہی اخلاقی قدریں ہیں جن کا خیال رکھ کر ہی ہم بہترین معاشرہ بناسکتے ہیں اور آپس کی محبتوں کو پروان چڑھاسکتے ہیں۔

حصہ