باپ کا خط بیٹی کے نام

289

میری سعادت مند بیٹی… ہزار دعائیں!
بیٹی! آپ تو جانتی ہیں کہ آج کے دور کی نوجوان نسل زیادہ ذہین اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت زیادہ معلومات اور آگہی رکھتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان میں صبر و تحمل اور برداشت کی بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ وہ محنت اور جدوجہد کے بعد فوری نتائج چاہتے ہیں اور ان میں سے اکثر انتظار کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نتیجتاً ان میں بے چینی‘ اضطرابی کیفیت‘ غصہ اور چڑچڑا پن نمایاں نظر آنے لگتا ہے۔ طبیعت میں ٹھہرائو‘ صبر و تحمل اور قوتِ برداشت کا فقدان بہت سے معاشرتی مسائل کو جنم دے رہا ہے‘ جن میں عدم اطمینان (Frustration)‘ تشدد کے واقعات‘ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اور خودکشی کی جانب بڑھتے ہوئے رجحانات سرفہرست ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ انسان اپنے اندر صبر‘ تحمل اور برداشت کیسے پیدا کرے؟ اس کا تعلق بھی خیالات اور قوتِ ارادی سے ہوتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اورکافی حد تک اپنے فعل کا مختار ہے‘ اگر آج وہ خود اس کا مصمم ارادہ کر لے کہ آئندہ غصے اور طیش کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بہتر انسان نہ بن سکے۔
اس سلسلے میں ہمارے دین کی تعلیمات ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’جو خوش حالی اور بدحالی میں (اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کر دینے کے عادی ہیں‘ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (ال عمران: 134) امام بیہقیؒ نے اس آیت کی تفصیل میں حضرت سیدنا علی ابن حسینؓ کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ’’آپ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرا رہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت علی ابن حسینؓ کے اوپر گرا‘ تمام کپڑے بھیگ گئے‘ غصہ آنا طبعی امر تھا‘ کنیز کو خطرہ ہوا تو اس نے فوراً ی آیت پڑھی والکاظمین الغیظ۔ یہ سنتے ہی خاندانِ نبوت کے اس بزرگ کا سارا
غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور بالکل خاموش ہو گئے‘ اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ والعافین عن الناس پڑھ دیا تو فرمایا کہ ’’میں نے تجھے دل سے بھی معاف کر دیا‘ کنیز بھی ہوشیار تھی اس کے بعد اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا واﷲ یحب المحسنین جس میں احسان اور حسنِ سلوک کی ہدایت ہے۔ حضرت علی ابن حسینؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’جا میں نے تجھے آزاد کر دیا۔‘‘ (روح المعانی۔ بحوالہ بیقہی)
ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو انتہائی برداشت اور صبر و تحمل کے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو احکامِ خداوندی کا عملی نمونہ ہیں۔ وہ عظیم ہستی‘ وہ رحمت اللعالمین جنہوں نے طائف کی وادی میں پتھروں کے عوض دعائیں دیں۔ آپؐ کی سیرت طیبہ ہمیں بڑی سے بڑی آزمائش میں صبر و تحمل اور برداشت سے کام لینے کی تلقین کر رہی ہے۔
بیٹی! زندگی میں بہت سے ایسے مراحل آتے ہیں جہاں انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے اور برداشت کی انتہا ہوگئی ہے۔ ایسے موقع پر اپنے غصے اور جذبات پر قابو رکھنا نہ صرف سمجھ داری ہے‘ بلکہ دور اندیشی بھی ہے۔ زندگی کا ہر عمل اورہر فیصلہ غصے کے بجائے نہایت ٹھنڈے دماغ کے ساتھ بہت سوچ سمجھ کر اور اس کے نتائج اور ردعمل کو سامنے رکھ کر کرنا ہوتا ہے۔ یی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز اور چیلنجز سے کامیابی کے ساھ مقابلہ کرنے کا صحیح طریقہ اور دانائی کا تقاضا ہے۔ غصے میں آپے سے باہر ہونے والوں کو اکثر سنگین نتائج اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غصے کے بارے میں بہادر شاہ ظفرؒ کا مشہور قطع ملاحظہ ہو:
ظفر آدمی اُس کو نہ جانیے گا
ہو وہ کیسا بھی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہے
جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہے
بیہقی کی ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے غصے کو روک لیتا ہے‘ خدا قیامت کے روز اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا۔‘‘
بیٹی! ہمارے دین میں غصے کو ضبط کرنے کی کتنی بڑی جزا ہے‘ غصے کے بے دریغ اظہار کی ہر جگہ ممانعت کی گئی ہے۔ ہاں آپ ظلم‘ زیادتی‘ حق تلفی‘ بے انصافی اور بے عزتی سے ہرگز سمجھوتہ نہ کریں اور اپنے جائز حقوق کے حصول کی ہر ممکن کوشش کرتی رہیں‘ لیکن یہ جدوجہد مفاہمانہ انداز میں دلائل کے ساتھ موقع و محل کی مناسبت سے اور صبر و تحمل کے ساتھ ہونی چاہیے۔
یاد رکھنا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جس کے ساتھ مالکِ حقیقی ہو اُسے اور کیا چاہیے۔ ایک کامیاب زندگی کے تمام معاملات میں صبر و تحمل اور برداشت سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ بات بات پر بھڑک جانا اور غصے سے بے قابو ہو کر جو منہ میں آئے کہہ دینا اکثر نہ صرف پچھتاوے کا باعث بنتا ہے بلکہ ایک متوازن باکردار شخصیت کے باوقار طرزِ عمل کے بھی منافی ہے۔
دعا گو
آپ کے ابو

حصہ