رومیصا نے اپنے بابا کو اہم معلومات دیتے ہوئے بتایا ’’بابا! کل امی آپ کی ہونے والی ’’بھؤ‘‘ دیکھنے جائیں گی۔‘‘
باورچی خانے میں موجود آسیہ بیگم رومیصا کی باتیں سن کر فوراً نمودار ہوگئیں۔ اب تو رومیصا کی شامت ہی آنے والی تھی۔ انعام صاحب یہ بات سمجھ چکے تھے کہ جہاں رومیصا نے اردو الفاظ کے ساتھ نا انصافی کی ان کی بیگم صاحبہ کے غصے سے رومیصا کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انعام صاحب اس خدشے کو بھانپتے ہوئے بیٹی اور بیگم کے درمیان آ کھڑے ہوئے۔
آسیہ بیگم قدرے غصہ سے بولیں۔ ’’خالہ، ممانی، چچی اور تائی کو تو آنٹی میں لپیٹ دیا ہے تم لوگوں نے… ایسا لگتا ہے لفظ آنٹی منہ چڑا رہا ہو۔ اب اس پیاری سی بہو کو بھؤ کر دیا ہے۔ سارے رشتوں کی شیرینی ختم کردی ہے۔‘‘
مجھے میٹرک کی ایک ہم جماعت آمنہ یاد ہے جو اپنے گھر کی باتیں بتاتے ہوئے تمام رشتوں کو بہت ادب سے پکارتی تھی دادی حضور، داداحضور‘ تائی امی جان، خالا امی جان، چچی جان‘ نانی اور دادی کے علاوہ اپنی امی کی خالہ، ممانی اور چچی کو چھوٹی نانی اور مرد بزرگوں کو چھوٹے نانا اور اسی طرح اپنے والد کے رشتے داروں کو چھوٹے دادا اور چھوٹی دادی کہہ کر بلاتی تھی۔ واقعی رشتوں کو اتنی محبت سے پکارنا آپس کی محبت اور خاندانی ماحول کو گل و گلزار کر دیتا ہے اور خاندانی رشتوں کی تابناکی پاس پڑوس اور دوست احباب کے دلوں میں بھی قائم رہتی ہے۔
اگر رشتے داروں کو ان کے رشتوں سے نہ پکاریں صرف ان کے ناموں سے پکاریں تو زندگی نہ صرف پھیکی ہو جائے گی بلکہ ہم اپنے آپ کو تنہا بھی محسوس کریں گے۔ زندگی کسی حد تک بے مقصد بھی ہو جائے گی اور انسان اپنی ذات تک محدود ہو جائے گا۔
کسی انجان آدمی کو بھی پکارنے کے لیے اس کی عمر اور مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے‘ جس کا نام نہیں جانتے ہو انہیں بھی ایسے ناموں سے پکارنا چاہیے کہ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ اسلامی تہذیب ہے جیسے اے بھائی، اے بہن‘ بابا جی، بڑے صاحب اور بڑی داڑھی والوں کو اکثر لوگ صوفی صاحب یا مولانا صاحب کہہ کر بھی مخاطب کر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ بزرگوں کو پکارنے کے لیے ادب و احترام لازمی ہے۔ کسی دکان دار یا ریڑھی والے کو ’’اے بھائی‘‘ یا بھیا کہہ کر مخاطب کر لیا جاتا ہے۔
اساتذہ اور علماسے ہمارے دین کا گہرا رشتہ ہے بچوں کو قرآن پڑھانے والوں کو بھی قاری صاحب مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ادب و احترام سے پکارتے ہیں اور عاجزی و انکساری سے پیش آتے ہیں۔
کسی کو بھی صرف اے یا اوئے کہہ کر مخاطب کرنا بد تہذیبی اور ناپسندیدہ فعل ہے۔ کوئی باعزت شخص پسند نہیں کرے گا کہ اُسے اس انداز میں بلایا جائے یہ ہتک آمیز انداز ہے۔ کہیں بھی کام کرنے والے ملازمین یا گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں بھی قابل احترام ہیں انہیں بھی ایسے ناموں سے نہیں پکارنا چاہیے کہ انہیں احساس کمتری ہو۔ کسی کو کمتر جانتے ہوئے ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ مضمون کے شروع میں لفظ آنٹی سے کچھ خفگی رہی مگر میں نے دیکھا ایک گھر کے بچے اپنے ہاں کام کرنے والی ماسیوں کو ’’ماسی آنٹی‘‘ کہہ کر بلا رہے تھے ان کا یہ احترام اچھا لگا۔
والدین کی تعظیم کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہ خیر ہی خیر ہے۔ اپنے پیارے والدین کو امی جان اور ابا جان کہہ کر پکارنا ان کی تعظیم میں اضافہ کرتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے کسی وقت انھیں پیاری امی جان یا پیارے ابا جان بھی کہنا چاہیے اس سے محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
قربت، اپنائیت، احساس، محبت، اچھے معاملات اور اچھے تعلقات یہ پیارے الفاظ ہیں جو بعض لوگوں کو رشتے داروں سے تعلق میں بڑے بھاری گزرتے ہیں مگر ان کو اپنانے سے تعلقات استوار ہوتے اور رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔