شیر کا بچہ

225

ایک شیر کے بچے کو دنیادیکھنے کا شوق ہوا۔ اس نے اپنے باپ سے اجازت چاہی تو شیر نے اسے یہ کہہ کر رخصت کیا۔ میرے پیارے بیٹے! انسان ایک خطر ناک اور چالاک مخلوق ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ شیر کے بچے نے سوچا ابا کے خیالات بہت پرانے ہیں۔ خیر میں خود دیکھ لوں گا انسان کیا چیز ہے اور کتنا خطرناک ہے۔ یہ سوچ کر وہ اپنے سفر پر نکل پڑا۔ وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ اسے ایک لحیم شحیم ہاتھی ملا کہیں یہ انسان تو نہیں۔ شیر کے بچے نے سوچا۔ اس نے ہاتھی سے سوال کیا، جناب آپ کیا انسان ہیں۔ ہاتھی نے جواب دیا نہیں انسان تو بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہم ہاتھی اتنے طاقت ور جانور ہیں، مگر وہ ہم کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور ہم پر سواری کرتے ہیں۔ شیر کا بچہ آگے بڑھ گیا چلتے چلتے اسے اونٹ نظر آیا۔
کیسا لمبا عجیب و غریب جانور ہے۔ شیر کے بچے نے سوچا اس نے اونٹ سے پوچھا کے آپ انسان ہیں۔ ارے بھئی یہ انسان کا نام کیوں لے رہے ہو۔ اونٹ گھبرا کر بولا اگر کسی انسان نے مجھے دیکھ لیا تو میری ناک میں نکیل ڈال کر مجھ پر بھاری سامان ڈالے گا۔ اوہ یہ ڈر پوک جانور! شیر نے سوچا۔ کچھ دور اسے بیل ملا جو کھانس چر رہا تھا۔ اس نے بیل سے پوچھا جناب آپ کیا انسان ہیں؟کہاں ہے انسان؟ کہاں ؟ کہاں؟ اس نے گھبراہٹ سے پوچھا۔ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم شیر کے بچے نے کہا۔ تو پھر تم نے انسان کا نام کیوں لیا۔ بیل نے غصے سے کہا۔ تمہیں معلوم ہے اگر میں انسان کے ہاتھ لگ گیا تو میرا کیا حشر ہو گا مجھے سارا دن دھوپ میں ہل چلوائے گا اور جب میں مر جائوں گا تو میری جوتیاں بنوائے گا۔ بیوقوف جانور معلوم ہوتا ہے۔ شیر کے بچے نے سوچا اور آگے بڑھ گیا۔

حصہ