نڈر چوہا

201

کسی جنگل میں ایک چوہا رہا کرتا تھا۔ چوہا ایک دن بیمار ہو گیا۔ نقاہت کی وجہ سے چلنا دوبھر ہو گیا مگر پھر بھی دوپہر کی گرمی میں گرتا پڑتا علاج کے لیے پہنچا حکیم اُلو کے پاس ۔ اُلو نے چوہے کا طبی معائنہ کیا اور انکشاف کیا کہ اُسے تو مرض الموت ہے۔ حکیم چوہے سے بولا: ’’ بس اب تمھاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔‘‘ چوہا نہایت افسردہ ہوا۔ حکیم اُلو نے اُسے ڈھارس دلائی: “میاں چوہے! تم فکر مت کرو۔ موت تو ہر نفس کو ایک دِن آنی ہے۔ تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں پتا چل گیا کہ تمھارے جانے کا وقت قریب ہے ورنہ کتنے ہی چوہے آخری وقت تک خواب غفلت میں پڑے رہتے ہیں اور ایک دن اچانک ہی فرشتۂ اجل ان کی روح قبض کر لیتا ہے۔ اُن کو اپنی دنیوی مصروفیت میں اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کوئی اچھائی اپنے نام کرتے اور خلق خدا کے لیے کچھ نیک کام کرتے جاتے۔ تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں اپنی زندگی کا اختتام نظر آرہا ہے۔ چاہو تو اس موقع سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنا نام چوہوں کی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم کر دو۔”
چوہے نے یہ سنا تو اُس کی عقل میں کچھ بات آ گئی اور وہ اُلو کا شکریہ ادا کر کے واپس پلٹا۔ راستے میں اس کی مڈ بھیڑ ایک جنگلی بلی سے ہو گئی۔بلی نے جونہی منہ کھولا چوہے کو کھانے کے لیے چوہے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک لکڑی کی چھڑی اُٹھا کر لگا بلی کو پیٹنے۔ بلی اس کایا پلٹ کو دیکھ کر بھونچکی رہ گئی، جو چوہا کل تک اس کی آواز سے خائف رہتا تھا وہ آج وہی چوہا اُس کی یہ درگت بنا رہا ہے۔ بلی نے سوچا پتا نہیں کیا معاملہ ہے۔ چوہا پاگل ہو گیا ہے یا اُس کو کہیں سے بہت طاقت مل گئی ہے۔ بلی نے سوچا کہ کچھ بھی ہو لگتا ہے کہ میری خیر اسی میں ہے کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں۔ بلی کے اس طرح دم دبا کر بھاگ جانے پر چوہا بڑا خوش ہوا۔ سوچا آج تک میں بلاوجہ اس کمبخت سے ڈرتا رہا۔ یہ تو میرے آگے کچھ بھی نہیں۔ حوصلہ بڑھا تو سینہ چوڑا کر کے آگے چلنا شروع کیا۔ دیکھا کہ آسمان سے ایک باز اُس کو پکڑنے کے لیے جھپٹ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی چوہے نے ایک پتھر اُٹھا یا اور دے مارا باز کے منہ پر ۔ پتھر لگنے سے باز کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور وہ تکلیف سے چلاتا ہوا اُڑ گیا۔ اب تو چوہا شیر ہو گیا۔ اُس نے سمجھ لیا کہ آج تک کی زندگی تو بے کار گزری ۔ اُس نے سوچا کہ میں تو صرف قد میں ہی چھوٹا ہوں ورنہ میری ہمت کے آگے کیا مجال ہےکسی کی کہ مجھ سے ٹکر لے سکے۔ چوہا اب تک ساتویں آسمان پر چڑھ چکا تھا۔ اُ س کی نظر میں اب جنگل کا باشاہ شیر بھی بکری بن چکا تھا۔
راستے میں اچانک پیر پھسلا تو ایک گہرے گڑہے میں جا گرا۔ سر ایک پتھر سے ٹکرایا تو خون بہنے لگا ۔ فوراً واپس پلٹا تاکہ حکیم اُلو سے پٹی کرو ا لے۔ حکیم کے پاس پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ حکیم نے زخم پر دوا لگائی اور چوہے کو بغور دیکھا تو اُس کو سمجھ آیا کے دوپہر میں جو تشخیص کی تھی وہ غلط تھی ۔ چوہے کو تو معمولی بخار ہے جو دو ا کی دو خوراک سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ حکیم اُلو کو افسوس ہوا اور وہ چوہے سے یوں گویا ہوا: مجھے افسوس ہے کہ تمہیں یہ گہرا زخم لگا ۔ اس کو بھرنے میں کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا۔ اور اس دوران تم کم سے کم حرکت کرنا تا کہ یہ اچھی طرح مندمل ہوجائے۔ چوہا یہ سن کر افسردہ ہو گیا کہ ایک تو موت قریب ہے اوپر سے اس زخم کی وجہ سے میں ایک ہفتہ تک کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حکیم اُلو بولا: میاں چوہے تم دل چھوٹا مت کرو میرے لیے تمھارے پاس ایک بہت ہی اچھی خبر ہے۔ تم تو جانتے ہو میں سورج کی روشنی میں ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتا اور یہی وجہ ہے کہ میر ی دوپہر کی تشخیص غلط تھی ۔ تمھیں مرض الموت نہیں ہے بلکہ معمولی سا بخار ہے جو دو ایک روز میں ٹھیک ہو جائے گا۔ چوہا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کر کے واپس پلٹا۔ رات کافی ہو چکی تھی راستے میں اُسے ایک چھوٹا سا بچھونظر آیا۔ چوہے نے ایک لمحہ کے لیے سوچا کے اس موزی کیڑے کو مار بھگائے مگر فوراً ہی اُسے بچھو کا خطرناک زہر اور نوکیلا ڈنک یاد آگیا۔ خوف کی ایک سرد لہر چوہے کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی اور وہ سکتے کے عالم میں آگیا۔ بچھو خراماں خراماں پاس آیا اور بڑے اطمینان سے چوہے کو ڈنک مار کر اُسے اناً فاناً ختم کر دیا۔
سبق:
٭ غلط وقت پر یا غلط ماحول میں قابل سے قابل انسان بھی حقیقت حال سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے۔ انسان کو اپنے اہم فیصلوں پر کسی دوسرے اور بہتر وقت نظر ثانی ضرورکر لینی چاہیے۔
٭ انسان کو اپنے اندر تبدیلی کے لیے آخری وقت کا اتنظار نہیں کرنا چاہیے۔
٭ جس شخص کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو اُس سے زیادہ دبنگ انسان دُنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسے جذباتی لوگوں کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں یا ان باتوں کے بھرم میں آجاتے ہیں انہیں اکثر مایوسی ہوتی ہے۔ انسان کے کردار کی پختگی اُس وقت پتا چلتی جب اُس کے پاس ہار جانے کے لیے سب کچھ ہو مگر وہ پھر بھی حق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ ہو۔
٭ زندگی میں وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جس کو اپنی خوبیوں ، خامیوں اور اپنی شخصیت کے کمزور پہلووں کا بالکل صحیح ادراک ہو۔ جو انسان اپنی کمزوریوں کو جانتا ہے وہی انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں وہ بتدریج بہتر انسان بنتا ہے۔ اور اگر وہ اپنی کمزوری دور نہیں بھی کر پاتا تو کم از کم اُس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے مار کھا سکتا ہے۔ دوسری طرف جب کوئی انسان اپنی شخصیت کے مضبوط پہلو کو صحیح وقت اور صحیح جگہ استعمال میں لاتا ہے تو کامیابی اُس کے قدم چومتی ہے۔
٭ جو انسان اپنے آپے اور اوقات سے باہر ہو جائے وہ آخرکار نقصان اُٹھاتا ہے۔
٭ بزدلی ایک طاقتور انسان کو اپنے سے نسبتاً کمزور حریف سے بھی شکست دلوا دیتی ہے اور اگر انسان حوصلہ کرے تو طاقتور دشمن کو بھی زیر کر سکتا ہے۔

حصہ